0
Thursday 8 Dec 2022 12:35

چینی صدر کا دورہ ریاض، خطے میں تبدیلی کا پیش خیمہ؟

چینی صدر کا دورہ ریاض، خطے میں تبدیلی کا پیش خیمہ؟
تحریر: تصور حسین شہزاد

چین کے صدر شی جن پنگ سعودی عرب کے تین روزہ دورے پر ہیں۔ گذشتہ روز ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔ توپوں کی سلامی دی گئی اور جنگی طیاروں کے پروٹوکول میں چینی صدر کے طیارے کو ایئرپورٹ پہنچایا گیا۔ ایسا عمل یقیناً کسی عزیز ترین حکمران کے استقبال کیلئے کیا جاتا ہے، جس کا مقصد دنیا کا یہ پیغام دینا ہوتا ہے کہ ان کیساتھ ہمارے تعلقات بہت خاص ہیں۔ ریاض پہنچنے پر شی جن پنگ نے بھی اظہارِ مسرت کیا اور کہا کہ 6 سال بعد دوبارہ سعودی عرب کا دورہ کرنے اور چین عرب سربراہی اجلاس اور چین خلیج تعاون کونسل کے پہلے سربراہی اجلاس میں شریک ہو کر انہیں بہت زیادہ خوشی ہو رہی ہے۔ اس اجلاس میں پاکستان کا نمائندہ وفد بھی شریک ہے۔ عرب نیوز کے مطابق چینی صدر نے کہا کہ چین اور سعودی عرب کے درمیان دوستی، شراکت داری اور بھائی چارے کا گہرا رشتہ ہے، 32 سالہ سفارتی تعلقات کے بعد دونوں ممالک نے اپنے تعلقات کو آئے روز مضبوط سے مضبوط تر کیا ہے۔

شی جن پنگ نے سعودی عرب اور چین کے درمیان 2016ء میں قائم ہونیوالی اسٹریٹیجک شراکت داری کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہماری شراکت داری نے دونوں ممالک کے عوام کو فائدہ پہنچایا اور خطے میں امن، استحکام، خوشحالی اور ترقی کے فروغ میں بھرپور کردار ادا کیا۔ دوسری جانب گذشتہ روز اس دورے کے دوران سعودی اور چینی کمپنیوں نے گرین انرجی، گرین ہائیڈروجن، فوٹو وولٹک انرجی، انفارمیشن ٹیکنالوجی، کلاؤڈ سروسز، ٹرانسپورٹیشن، لاجسٹکس، طبی صنعتوں، ہاؤسنگ اور تعمیراتی فیکٹریوں کے شعبوں میں سرمایہ کاری کے 34 معاہدوں پر دستخط کیے۔ سعودی ذرائع ابلاغ کے مطابق صدر شی جن پنگ کو سعودی چین انویسٹمنٹ سمٹ میں شرکت کی دعوت سعودی فرمانروا شاہ سلمان نے دی تھی۔ سعودی چین انوسٹمنٹ کانفرنس نو دسمبر تک جاری رہے گی۔ شاہ سلمان کی سربراہی میں ہونیوالی کانفرنس میں سعودی ولی عہد اور وزیراعظم محمد بن سلمان بھی شریک ہوں گے۔

اس کانفرنس اور چینی صدر کے دورے کو دنیا کافی اہمیت دے رہی ہے اور حقیقت میں بھی یہ دورہ اہم ہے۔ سعودی عرب کے امریکہ کیساتھ تعلقات کچھ کشیدہ ہیں۔ اس کی وجہ بن سلمان کی جانب سے امریکہ کی ’’حکم عدولی‘‘ ہے۔ سعودی عرب نے خطے میں پیٹرول کی قیمتیں مستحکم کرنے کیلئے پیداوار میں کمی کا فیصلہ کیا تھا، جسے امریکہ نے پسند نہیں کیا اور سعودی عرب کو پیدوار کم کرنے سے باز رہنے کیلئے کہا، لیکن محمد بن سلمان آج کل جس پالیسی پر عمل پیرا ہیں، وہ ’’سب سے پہلے سعودی عرب‘‘ ہے۔ بن سلمان ہر معاملے میں سعودی عرب کا فائدہ دیکھ رہے ہیں۔ یہاں تک کہ محمد بن سلمان پاکستان میں وہابی جماعتوں کو جو فنڈنگ کرتے تھے، وہ بھی بند کر دی ہے، محمد بن سلمان کے بقول، یہ فنڈنگ ہمیں کوئی فائدہ نہیں دے رہی، ہم نے پاکستان سے جو کام لینا ہوتا ہے، وہ ’’مولویوں‘‘ کی بجائے حکمرانوں کے ذریعے لے سکتے ہیں، تو اس شعبے میں ’’سرمایہ کاری‘‘ کیوں کریں، یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں اب سعودی عرب کی ’’قدر‘‘ ماضی کی نسبت کم ہوچکی ہے، جبکہ جو لوگ سعودی عرب سے فنڈنگ لیتے تھے، وہ اب دوسرے ’’دروازے‘‘ ڈھونڈ رہے ہیں۔

سعودی عرب کے حوالے سے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ یہ ملک ہمارے لئے ’’دودھ دینے والے گائے‘‘ ہے اور امریکہ کبھی نہیں چاہے گا کہ اس کی یہ گائے، رسی تڑوا کر امریکہ کی بجائے روس کے ’’کِلے‘‘ پر جا کھڑی ہو۔ بظاہر صورتحال ایسی دکھائی دے رہی ہے کہ سعودی عرب امریکی بلاک سے نکل کر روسی بلاک میں جا رہا ہے، چین اس بلاک کا اہم ترین رکن ہے۔ پاکستان بھی اس کوشش میں ہے کہ روس کیساتھ تعلقات مستحکم کر لے، لیکن پاکستان کی پالیسی فی الحال تو ایسی ہے کہ
عجب تیری سیاست، عجب تیرا نظام
حسینؑ سے بھی مراسم، یزید کو بھی سلام

لیکن چینی صدر کے حالیہ دورے نے واضح کر دیا ہے کہ چین خطے کے ممالک کیساتھ بہتر معاشی تعلقات کا خواہاں ہے۔ اس کیلئے چینی صدر کا حالیہ دورہ جہاں سعودی عرب کیساتھ تعلقات کی مضبوطی کا باعث ہے، وہیں دیگر عرب ممالک کے سربراہان کی بھی ریاض میں موجودگی کا فائدہ شی جن پنگ اٹھائیں گے اور ان کیساتھ بھی معاشی معاہدے ہونے کا قوی امکان ہے۔ معاہدے نہ بھی ہوئے تو زمینہ سازی کیلئے یہ بہترین ماحول ہے۔ جس سے چین صدر بھرپور فائدہ اٹھائیں گے۔ اب چینی صدر کا یہ تین روزہ دورہ امریکہ کے سینے پر مونگ دلنے کے مترادف ہے، امریکہ کی کیفیت دیکھنے والی ہے کہ وہ کس انداز میں تلملا رہا ہے۔

خطے کے دیگر ممالک کا جائزہ لیا جائے تو ایران کے بھی چین کیساتھ بہترین تعلقات ہیں، پاکستان کی دوستی ہمالیہ سے بلند، سمندر سے گہری اور شہد سے زیادہ میٹھی ہے۔ روس کیساتھ چین کے تعلقات بھی نمایاں اہمیت کے حامل ہیں، ترکی بھی اس بلاک میں ہی کھڑا دکھائی دے رہا ہے۔ عراق بھی امریکہ کے انخلاء کیلئے سنجیدہ ہے اور عراقی وزیراعظم محمد شیاع السوڈانی اس حوالے سے اہم فیصلے کرچکے ہیں۔ عراق میں تعینات امریکی سفیر اس حوالے سے بہت ہاتھ پاوں مار رہا ہے اور امریکی سفیر اب تک السوڈانی سے 6 بار ملاقات کرچکا ہے۔ السوڈانی نے وزیراعظم بننے کے بعد ایسے افراد کو فوجی اور سکیورٹی عہدوں سے ہٹا دیا ہے، جو امریکہ کے حامی سمجھے جاتے تھے اور ان کی جگہ دیانتدار اور آزادانہ سوچ کے مالک افراد کو تعینات کیا ہے۔

ایسی صورتحال میں سعودی عرب کا اس غیر اعلانیہ بلاک میں شامل ہونا، جہاں خطے کی معاشی مضبوطی کا باعث بنے گا، وہیں یہ امت مسلمہ کی ترقی کا سبب بھی ہوگا۔ اس سے ایران سعودی عرب قریب آسکتے ہیں، امریکہ کی جانب سے دونوں مسلم ممالک میں پائی جانیوالی غلط فہمیاں دُور ہوسکتی ہیں۔ اگر یہ غلط فہمیاں دُور ہو جائیں تو اُمت کی وحدت کی بے نظیر مثال قائم ہوسکتی ہے۔ توقع تو کی جا سکتی ہے کہ خطے میں تبدیلی آئے گی، لیکن امریکی بھی کچی گولیاں نہیں کھیلتے، وہ محمد بن سلمان کو مجبور کریں گے کہ وہ ان کے بلاک سے نہ نکلیں، اس کیلئے وہ انہیں مراعات کا لالچ بھی دے سکتے ہیں۔ لالچ میں نہ آنے پر انہیں ڈرایا بھی جا سکتا ہے۔ پیٹرو ڈالر معاہدہ جو امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان ہے، اس کا اب اختتام دکھائی دے رہا ہے۔ یہ معاہدہ 1974ء میں امریکی صدر رچرڈ نکسن نے سعودی عرب کیساتھ کیا تھا۔

جس میں طے پایا تھا کہ سعودی عرب کی تیل کی برآمدات کی ادائیگی ڈالر میں ہوگی اور اس معاہدے میں ڈالر کی قیمت تین اعشاریہ 75 ریال طے کی گئی تھی، اور یہ بھی طے پایا تھا کہ سعودی عرب کے معاشی حالات جیسے بھی ہوں، ڈالر اور ریال کی تقابلی قیمت یہی رہے گی۔ یہ بھی شنید ہے کہ چین سعودی عرب کو یوآن (چینی کرنسی) میں ادائیگی کرے گا۔ اس سے بھی ایسا لگ رہا ہے کہ یہ ’’پیٹرو ڈالر معاہدہ‘‘ واقعی اپنی موت مرنے جا رہا ہے۔ چین اور سعودی عرب میں یہ معاہدے اور تعلقات اچھی خبر ہیں، لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ محمد بن سلمان امریکی دباو کے سامنے ٹھہر پاتے ہیں یا سعودی عرب میں بھی امریکہ کو پاکستان کی طرح رجیم چینج کی کوشش کرنا پڑے گی۔
خبر کا کوڈ : 1029122
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش