0
Friday 9 Dec 2022 04:43

جرمنی میں مسلح بغاوت، روس کیخلاف پشت پناہی کا الزام

جرمنی میں مسلح بغاوت، روس کیخلاف پشت پناہی کا الزام
رپورٹ: علی سعیدی

یوکرین میں جنگ کے بعد سے روس اور مغربی طاقتوں کے درمیان ہمہ جہتی اور ہمہ پہلو جنگ جاری ہے۔ سردی کے آتے ہی یورپ میں گیس کا بحران شروع ہوچکا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک بڑے بحران کا شکار ہین۔ سڑکیں سنسان ہیں، کاروبار ٹھپ ہے، مہنگائی کی شرح میں بے پناہ اضافہ ہوچکا ہے۔ دوسری طرف کویڈ کی وجہ سے جس طرح پوری دنیا میں معیشت اور معاشی نظام کو جو دھچکا لگا ہے، اس کے اثرات بھی باقی ہیں۔ چین میں کرونا وائرس سے بچاو کے لیے جو پابندیاں جاری تھیں، عوامی دباو کی وجہ سے ان میں نرمی پیدا کی گئی ہے، مارکیٹیں کھول دی گئی ہیں۔ یوکرین جنگ میں یورپی ممالک میں سے جرمنی روس کا شدید مخالف ہے۔ لیکن کرونا وائرس اور پھر یوکرین جنگ کیوجہ سے معاشی دباو کے ساتھ ساتھ سیاسی احتجاج بھی شدت اختیار کرچکے ہیں۔ نوبت بغاوت تک پہنچ چکی ہے۔ کل ہی جرمنی کی وفاقی پولیس نے رپورٹ کیا ہے کہ حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کرنے والا انتہائی دائیں بازو کا گروپ مسلح اور حقیقی خطرہ ہے۔

جرمنی کی وفاقی پولیس کے سربراہ ہولجرمیونش نے گرفتار کیے گئے افراد میں جن لوگوں کو خطرناک قرار دیا ہے، وہ سزایافتہ ہیں، ان پر غیر ملکی پیسہ استعمال کرنے اور اسلحہ رکھنے کے الزامات ہیں۔ پولیس نے اس گروپ کو سازشی گروپ کا نام دیا ہے۔ گروپ کے متعلق انکشاف ہوا ہے کہ یہ حکومت الٹنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ ان کے 50 ٹھکانوں کی تلاشی کے دوران اسلحہ برآمد ہوا ہے، جس میں رائفلز اور بارود شامل ہے، 54 افراد زیر تفتیش ہیں، جن پر الزام ہے کہ انہوں نے جرمنی کا ریاستی نظام ختم کرنے اور اپنی حکومت قائم کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ رپورٹس کے مطابق ابتدائی طور پر 25 افراد کو گرفتار کیے گئے تھے، جن میں سابق رکن پارلیمنٹ، سابق فوجی اور کاروباری پرنس ہینرخ ریوس بھی شامل تھا اور پرنس کے بارے میں رپورٹ تھی کہ وہ نئی حکومت کا سربراہ ہوگا۔ یہ گروپ چند افراد پر مشتمل نہیں بلکہ ان کی تعداد سیکڑوں اور ہزاروں میں ہے۔ جرمن انتظامیہ کا ماننا ہے کہ یہ واقعی طور پر جرمنی کے ریاستی نظام کو چیلنج کرسکتے ہیں۔

فوج کی خفیہ سروس کی جانب سے ایک متحرک فوجی اور کئی ریٹائرڈ افراد سے بھی تفتیش کی جا رہی ہے، حاضر سروس فوجی کے ایس کے ایلیٹ فورس کا رکن ہے جبکہ ایلیٹ فورس کو انتہائی دائیں بازو کے گروپ کی جانب سے حالیہ برسوں میں ہونے والے واقعات کے باعث فعال کر دیا گیا ہے۔ مذکورہ گروپ دائیں بازو کی انتہا پسند تنظیم ریخسبرجر کے نظریات سے متاثر ہے، جن کی جدید جرمنی میں جگہ نہیں ہے، جبکہ جنگ عظیم دوم میں نازیوں کو شکست کے باوجود ڈوئشے ریخ موجود ہے۔ جرمن ذرائع کا کہنا ہے کہ سازش کا منصوبہ جرمنی کے شاہی خاندان کے سابق رکن نے بنایا، جن کی شناخت ہینرخ کے نام سے ہوئی، جو مستقبل کی ریاست کے سربراہ مقرر کیے گئے تھے اور دوسرا متشبہ شخص روڈیگر ہے، جو عسکری اسلحے کا سربراہ تھا۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ ہینرخ اپنے نام کے ساتھ شہزادہ کا استعمال کرتا تھا، جو ریوس کے شاہی محل سے دیا جاتا ہے، جن کی مشرقی جرمنی کے کئی علاقوں میں حکومت رہی ہے۔

گرفتار شخص نے روس کے نمائندے سے رابطہ کیا تھا، جس کو گروپ اپنی نئی حکومت کے لیے مرکزی رابطہ تصور کرتا تھا، تاہم روسی نمائندے کی جانب سے کسی مثبت جواب کے شواہد موجود نہیں ہیں۔ دوسری طرف جرمنی میں قائم روسی سفارت خانے کے حوالے سے سرکاری خبر ایجنسی نے بتایا کہ جرمنی میں روسی سفارت کار یا قونصل خانے کسی دہشت گرد گروپ اور غیر قانونی گروہوں کے نمائندوں سے رابطے نہیں رکھتے۔ دوسری جانب سے جرمن وزیر داخلہ نینسی فائیسر نے کہا ہے کہ ریاست کے خلاف اس طرح کے اقدامات کو ختم کرنے کے لیے حکومت مؤثر جواب دے گی اور تفتیش میں پتہ چلے گا کہ گروپ نے حکومت گرانے کے منصوبے پر کتنی پیش رفت کی تھی، آئینی ریاست بہتر جانتی ہے کہ جمہوریت کے دشمنوں کے خلاف اپنا دفاع کیسے کرنا ہے، 3 ہزار سے زائد پولیس اہلکاروں اور سکیورٹی فورسز نے جرمنی کی 11 وفاقی ریاستوں میں کارروائیاں کیں اور مختلف شہروں سے مشتبہ افراد کو گرفتار کرلیا گیا۔

ذرائع کے مطابق گرفتار افراد پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے نظریات کی بنیاد پر کارروائی کی، جن میں نئے ارکان کی بھرتی، فائرنگ کی تربیت دینا اور دیگر اقدامات شامل ہیں، تربیت کی کوششوں میں فوج کے حاضر سروس اراکین اور پولیس افسران پر توجہ مرکوز تھی، گروپ جانتا تھا کہ اس منصوبے میں اموات بھی ہوں گی اور یہ سمجھتے تھے کہ یہ صورت حال نظام کی تبدیلی تک پہنچنے کے لیے بنیادی ضروری اقدام ہے، گرفتار افراد کو وفاقی عدالت انصاف کے جج کے سامنے پیش کیا جائے گا، جو گرفتاری کے وارنٹ جاری کرے گا اور ٹرائل سے قبل ان کی حراست کا فیصلہ کرے گا۔ رپورٹس کے مطابق مزید گرفتاریاں متوقع ہیں، کئی دیگر افراد کی بھی شناخت کرلی گئی ہے۔ لیکن یہ گروپ کئی سالوں سے اپنے منصوبوں میں مصروف تھا۔ جرمنی کے داخلی سکیورٹی کے سربراہ تھامس ہیڈنوینگ کے مطابق اس گروپ کے منصوبے پر پچھلے سیزن سے نظر رکھی جا رہی تھی، یہ پہلی مرتبہ ہے کہ قومی سطح پر چلنے والا ایک نیٹ ورک بنایا گیا، جس کی بہت سنجیدہ منصوبہ بندی تھی کہ حکومت کو گرایا جائے اور نیا نظام لایا جائے۔

پولیس کے مطابق جرمنی مین ریخسبرجر کے تقریباً 21 ہزار ارکان ہیں اور ان میں سے 10 فیصد کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ کشیدگی پھیلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، مذکورہ گروپ دائیں بازو کی انتہاء پسند تنظیم ریخسبرجر کے نظریات سے متاثر ہے، جن کی جدید جرمنی میں جگہ نہیں ہے۔ لیکن پولیس کے ان دعووں کے باوجود یہ گروپ منظم اور متشدد ہے، ان کے حامیوں کا دائرہ اثر اس سے کہیں زیادہ ہے، جو پولیس رپورٹس میں ظاہر کیا جا رہا ہے۔ یہ گروپ جرمن معاشرے میں جس قدر نفوذ پیدا کرچکا ہے اور دیگر یورپی حکومتوں کی طرح جرمن عوام بھی موجودہ نظام سے متنفر ہوچکے ہیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ روایتی حریف روس کے نظام کو نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔ ان کی شدت اور حدت کے بارے میں جرمنی کی داخلی خفیہ ایجنسی کا کہنا ہے کہ ریخسبرجر (ریخ کے عوام) تحریک سے 21 ہزار افراد جڑے ہوئے ہیں اور ان میں سے 5 فیصد انتہائی دائیں بازو کے انتہاء پسند ہیں۔ تازہ ترین رپورٹس کے مطابق تفتیش کاروں کو شبہ ہے کہ گروپ کے ارکان نے برلن میں واقع پارلیمنٹ پر مسلح افراد کے ایک مختصر گروپ کے ساتھ حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔

خفیہ ایجنسی کی 2021ء کی سالانہ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اس تحریک کے تقریباً 2 ہزار 100 افراد اپنے مقاصد کے حصول کے لیے حالات کشیدہ کرنے کو تیار تھے، کیونکہ اگست 2020ء میں کورونا وائرس کی پابندیوں کے خلاف عوامی مارچ کے دوران مظاہرین نے جرمنی کی پارلیمنٹ کی عمارت کی سیڑھیاں گرا دی تھیں، جن میں سے چند افراد کے ہاتھوں میں انتہائی دائیں بازو کے گروپوں کے جھنڈے تھے۔ واضح رہے کہ کرونا وائرس کیوجہ سے پوری دنیا کی معیشت بری طرح متاثر ہوئی ہے، مہنگائی میں بھی اضافہ ہوا ہے، کاروبار اور روزگار متاثر ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے سیاسی عدم استحکام بھی پیدا ہوا ہے اور عوام کے اندر بے چینی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ لیکن یوکرین جنگ کے روس اور یورپی ممالک کے درمیان مخاصمت کے یورپی ممالک اور رائج نظام میں موجود کمزوریاں بھی ظاہر ہو رہی ہیں۔ جرمنی میں ہونیوالے مظاہرے اس کا بین ثبوت ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ روس کیخلاف جنگ میں یورپ اور امریکہ کا اتحاد ایک بار پھر اندرونی تضادات اور داخلی کشمکش کا شکار ہے۔
خبر کا کوڈ : 1029232
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش