1
Saturday 10 Dec 2022 06:10

چینی صدر کا دورہ ریاض اور خطے میں امریکی شکست بارے چند نکات

چینی صدر کا دورہ ریاض اور خطے میں امریکی شکست بارے چند نکات
رپورٹ: علی سعیدی

چینی صدر کے حالیہ دورہ سعودی عرب کو خطے اور عالمی سطح پر ایک بڑی تبدیلی اور پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ چینی صدر نے ریاض میں بالکل ویسے ہی انٹری ڈالی ہے، جیسے کسی دور میں بش، اوبامہ، ٹرمپ آیا کرتے تھے۔ لیکن امریکی صدر جوبائیڈن جب سعودیہ آئے تو ماحول بدل چکا تھا۔ اس کے کئی عوامل ہیں۔ لیکن فی الحال خطے میں ایران کی مسلسل کامیابیوں اور امریکی پالیسیوں کی ناکامیوں کے تناظر میں چینی صدر شی جن پنگ کے موجودہ دورے کے متعلق صرف چند نکات کا جائزہ لیتے ہیں۔
 
۱۔ اینٹی ایران عرب امریکن اسلامک کانفرنس کی بجائے چین عرب سربراہی کانفرنس:
 ریاض میں پانچ سال قبل عرب امریکن اسلامک کانفرنس ہوئی تھی، جس کے بنیادی اور بڑے مقرر امریکی صدر ٹرمپ تھے۔ انہوں نے جو بھی اول فول بکا، اس کا نتیجہ یہی نکلا کہ سعودی عرب اور امریکہ میں فاصلے ایجاد ہوئے۔ وہ کانفرنس صرف اور صرف ایران کو خطرہ اور دشمن باور کرتے ہوئے بلائی گئی تھی، جس میں چالیس کے قریب عرب و غیر عرب مسلم ممالک شامل تھے۔ صرف پانچ سالوں میں ہی سعودی شاہی خاندان نے محسوس کرکے یقین کر لیا ہے کہ امریکہ انہیں تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہوچکا ہے، کیونکہ مشرق وسطیٰ میں حزب اللہ اور ایران نے امریکی طاقت کا بت پاش پاش کر دیا ہے۔ اس جھنجھلاہٹ کا مظاہرہ اس وقت ہوا، جب صدر جوبائیڈن سعودیہ آئے اور محمد بن سلمان اور امریکی صدر ایک دوسرے کو طعنے دیتے رہے۔

یہ بڑا دلچسپ ہوتا ہے، جب جو دو پرانے دوست ایک دوسرے کو اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار قرار دیں اور ایک دم ایک دوسرے کی خامیاں گننا شروع کر دیں۔ خیر جوبائیڈن مشکل سے اپنی عزت اور ناموس بچا کر واپس گئے۔ لیکن انہیں گالم گلوچ کا سامنا کرنا پڑا۔ اب چینی صدر بھی ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے آئے تھے، لیکن اس میں صرف عرب ممالک شامل تھے، ایران مخالف ایجنڈا نہیں تھا، بلکہ خطے کے ممالک کیساتھ مفاہمت پر بات ہوئی، امریکہ کی بجائے محمد بن سلمان نے چین کی طاقت اور ترقی سے فائدہ حاصل کرنے کی بات کی۔ چینی صدر نے ایران سمیت کسی ملک یا ہمسایہ قوم سے سعودی شاہی خاندان کو ڈرایا نہیں، بلکہ خیر سگالی پر مبنی تعلقات کی بات کی۔

۲۔ اسرائیل کے تحفظ اور ایران کیخلاف اعلان جنگ کی بجائے فلسطین بارے مثبت موقف اور مفاہمت کی بات چیت:
یہ بالکل بجا ہے کہ چنی صدر کا دورہ سعودیہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے، جب امریکا کے ساتھ سعودی عرب کا دیرینہ اتحاد انسانی حقوق، توانائی کی پالیسی اور خطے میں سلامتی کے اہم ضامن امریکا کی وابستگی جیسے مسائل کے بارے میں خلیجی ریاستوں کے شکوک و شبہات کا شکار ہے۔ امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان غلط فہمی جو اب یقینی علیحدگی پر پہنچ چکی ہے، اس کی وجہ فقط ان دو ممالک کی غلط پالیسیاں نہیں ہیں، بلکہ مقاومتی محاذ کے ہاتھوں شکست کا نتیجہ ہے۔ اسے کہتے ہیں گھٹنے ٹیکنا، شکست تسلیم کرنا، دوستوں اور اتحادیوں کیساتھ اعلانیہ دوری اختیار کرنا۔ چینی صدر نے سکیورٹی، انرجی، تجارت، یوکرین بارے بات کی، بلکہ فلسطین پر مثبت موقف کا اظہار کیا۔

سعودی عرب اور چین نے مشترکہ بیان میں تعاون کو مزید بڑھانے، خودمختاری کے اصولوں پر زور دیتے ہوئے عدم مداخلت کا عزم کیا ہے، جبکہ یوکرین تنازع کا پرامن حل نکالنے کا بھی اعادہ کیا گیا۔ دونوں فریقین نے ایک دوسرے کے بنیادی مفادات کی مضبوطی سے حمایت جاری رکھنے کا بھی اعادہ کیا۔ رپورٹ کے مطابق ایران کے حوالے سے خلیجی ریاستوں کی سلامتی کے خدشات پر دونوں ممالک نے ایران کے جوہری پروگرام کی پرامن نوعیت یقینی بنانے اور ایران کے لیے اچھی ہمسائیگی کے اصولوں کا احترام کرنے کے لیے مشترکہ تعاون کو مضبوط بنانے پر اتفاق کیا ہے۔

۳۔ امریکی سکیورٹی اتحاد کی بجائے خلیجی ممالک کیلئے چین کا سکیورٹی فریم ورک:
جون میں ہی امریکہ کی سرپرستی میں اسرائیل اور عرب ملکوں کا نئے سکیورٹی اتحاد پر کام شروع ہوا تھا۔ اس میں نہ صرف سعودیہ شامل تھا بلکہ خطے کے تمام خائن عرب ممالک شریک تھے۔ مصر کے شہر شرم الشیخ میں امریکا کی قیادت میں اسرائیل اور عرب ملکوں کے سکیورٹی سربراہوں کی خفیہ ملاقات ہوئی تھی، جس میں ایرانی میزائل اور ڈرون خطرات سے نمٹنے پر بات کی گئی تھی۔ اس میٹنگ میں امریکی سینٹرل کمان کے سربراہ جنرل میک کنزی، سعودی آرمڈ فورسز کے سربراہ، اسرائیلی فوج کے چیف آف اسٹاف سمیت قطر، مصر، عرب امارات، بحرین اور اردن کے سکیورٹی حکام شریک تھے۔ اس اجلاس میں ایرانی میزائل اور ڈرون حملوں سے فوری آگاہ کرنے کے لیے نوٹیفکیشن پر اتفاق ہوا تھا۔ طے ہوا تھا کہ یہ نوٹیفکیشن فون اور کمپیوٹر کے ذریعے ہوگا اور امریکا اس کے لیے اپنے ڈیٹا شیئرنگ نظام کو بعد میں بروئے کار لائے گا، طے ہوا تھا کہ ان ملکوں کے سربراہوں کی ملاقات میں مکینزم پر فیصلہ ہوگا۔

اس سے پہلے ایک منصوبے کے تحت صیہونی میڈیا ہاؤسز کے ذریعے یہ خبریں دیں تھیں کہ مشرق وسطیٰ کے لیے ایئر ڈیفنس اتحاد پر کام ہو رہا ہے اور بائیڈن کے دورہ سعودی عرب کے دوران اس کا اعلان ہوگا۔ سعودی عرب کی آرامکو تنصیبات اس سے پہلے میزائل اور ڈرون حملوں کی زد میں آچکی تھیں اور یہ فضائی حملے جنوب کی جانب سے نہیں بلکہ شمال کی جانب سے ہوئے تھے، جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ ان حملوں میں یمن کے حوثی مجاہدین کا کوئی ہاتھ نہیں تھا۔ عرب امارات کے ٹینکر بھی حملوں کی زد میں آچکے تھے، لیکن ان دونوں ملکوں نے ایران کی طرف براہِ راست انگلی اٹھانے سے گریز کیا تھا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ تمام تر ٹیکنالوجی کے باوجود امریکا بھی ان حملوں کا درست اندازہ نہیں لگا پایا کہ یہ حملے کس نے اور کس طرف سے کیے تھے۔ ایک اہم وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ سعودی عرب نے باور کیا ہو کہ یا تو امریکی انکا ساتھ نہیں دے رہے یا امریکی طاقت کے ٹیکنالوجی کے باوجود ان پر حملہ آور قوتیں کامیابی حاصل کر رہی ہیں اور اب کوئی دوسرا راستہ اختیار کیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔

امریکہ نے اپنی ناکامی اور شکست کو چھپانے کے لیے، تاکہ سعودیہ جیسا حریف جو اسرائیل کے تحفظ سے لیکر ایران دشمنی تک ان کا اتحادی ہے، امریکہ سے دوری اختیار نہ کر لے، فوری طور پر امریکی ایوانِ نمائندگان میں ایک قانونی بل متعارف کرایا گیا، جو تعلقات معمول پر لانے کا ایک اشارہ تھا۔ اس بل کو ڈیفنڈ ایکٹ 2022ء کا نام دیا گیا تھا۔ اس بل کے تحت ایران کی طرف سے فضائی حملوں کے خطرات سے نمٹنے کے لیے اسرائیل اور کئی عرب ملکوں کے درمیان تعاون بڑھانے کے لیے پینٹاگون کو ایئر اینڈ میزائل ڈیفنس سسٹم بنانے کی حکمتِ عملی تیار کرنا تھی۔ عرب ممالک میں جن کے نام دیئے گئے، ان میں اردن، مصر اور عراق شامل تھے، جبکہ خلیج تعاون تنظیم کے رکن ممالک بھی اس نئی حکمتِ عملی کا حصہ بتائے گئے۔ واضح رہے کہ خلیج تعاون تنطیم میں سعودی عرب، عرب امارات، قطر، بحرین، کویت اور عمان بھی شامل ہیں۔

کیونکہ سعودی عرب ایک ایسا ہاتھی ہے، جس کے پاوں میں سب کے پاوں ہیں۔ چونکہ اس پورے منصوبے کے پیچھے صیہونی لابی ہے، اس لیے ان شواہد سے یہ ثابت ہوا کہ یہ کوششیں فقط سعودی عرب اور اس کے اتحادی عرب ممالک کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کا ایک راستہ تھیں اور کوشش کی جا رہی تھی کہ اسرائیل عرب مشترکہ دفاع کے معاہدے کے ذریعے خطے میں سکیورٹی اور اسٹریٹجک معاملات کو نیا رخ دیا جا سکے۔ لیکن اب امریکی صدر کی جگہ چینی صدر ہیں، جو عرب ممالک کی سکیورٹی پر بات کر رہے ہیں۔ شی جن پنگ نے سربراہی اجلاس کے آغاز میں کہا ہے کہ چین جی سی سی ممالک کی سلامتی برقرار رکھنے کے لیے اپنی حمایت جاری رکھے گا اور خلیجی ریاستوں کے لیے ایک اجتماعی سکیورٹی فریم ورک تیار کرے گا۔

۴۔ تیل بارے امریکی ڈکٹیشن کی بجائے چین کیساتھ تیل کی تجارت پر بات چیت:
 چینی صدر نے سعودی عرب میں پہلی عرب سربراہی کانفرنس میں خلیجی ممالک کے ساتھ سکیورٹی اور توانائی کے شعبوں میں تعاون بڑھانے کے بھرپور عزم کا اظہار کیا ہے اور سعودی عرب نے اس کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا ہے۔ چین نے نہ صرف مستقل بنیادوں پر جی سی سی ممالک سے بڑی مقدار میں خام تیل کی درآمد جاری رکھنے کا اعلان بھی کیا ہے، بلکہ چینی صدر نے توانائی سمیت دیگر شعبوں میں تعاون کو وسعت دینے کا عزم بھی ظاہر کیا ہے۔ چینی وزارت خارجہ نے صدر شی جن پنگ کا حوالہ دیتے ہوئے بیان جاری کیا ہے کہ چین سعودی عرب اور دیگر عرب ریاستوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کا خواہاں ہے، تاکہ سربراہی اجلاس کو چین عرب تعلقات اور چین جی سی سی تعلقات کی تاریخ میں سنگ میل کے یادگار کے طور پر تبدیل کیا جا سکے اور ان تعلقات کو نئی بلندیوں تک پہنچایا جا سکیں۔

۵۔ چین کا سعودی عرب کے علاوہ دوسرے عرب ممالک کیساتھ ملکر کام کرنیکا اعلان:
چینی صدر شی جن پنگ نے عرب سربراہی کانفرنس کے دوران خیلجی ریاستوں کے رہنماؤں سے ملاقات کرکے عرب ریاستوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ چینی صدر شی جن پنگ نے لیونٹ اور افریقہ میں پھیلی عرب لیگ کی ریاستوں کے سربراہان کے ساتھ مختلف معاملات پر وسیع تر بات چیت کی ہے۔ پہلی عرب سربراہی کانفرنس میں امیر قطر، کویت کے ولی عہد، بحرین اور اردن کے بادشاہ اور مصر، تیونس، جبوتی، صومالیہ اور موریطانیہ کے صدور، عراق، مراکش، الجزائر، سوڈان اور لبنان کے رہنماؤں اور وزرائے اور حکمران شریک ہوئے۔ سربراہی اجلاس سے قبل چینی صدر نے کویت کے ولی عہد شیخ مشعل الصباح، مصری صدر عبدالفتاح السیسی، عراقی وزیراعظم شیاع السوڈانی، سوڈانی رہنماء جنرل عبدالفتاح البرہان اور فلسطینی صدر محمود عباس سے دو طرفہ بات چیت کی۔ رپورٹ کے مطابق سفارت کاروں نے کہا کہ چینی وفد سعودی عرب کے علاوہ کئی خلیجی ریاستوں کے ساتھ معاہدوں پر دستخط کرے گا۔

۶۔ سعودی عرب کی تائیوان چین کی تائید اور یوکرین پر امریکی موقف کی نفی:
تائیوان کے معاملے پر سعودی عرب نے چین کی "ون چین" پالیسی کی تائید کی جبکہ چینی صدر نے سعودی ولی عہد کو چین کے دورے کی دعوت بھی دی۔ اس بارے میں چینی صدر نے کہا ہے کہ ان کے دورے سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے نئے دور کا آغاز ہوا ہے۔

۷۔ عرب ممالک کیلئے امریکی ٹیکنالوجی کی بجائے چینی کمپنیوں کیلئے مواقع پر بات چیت:
اس اجلاس سے پہلے ہی، چینی ٹیکنالوجی کمپنی نے امریکی خدشات کے باوجود بیشتر خلیجی ریاستوں میں جی فائیو نیٹ ورک کی تعمیر میں حصہ لیا ہے۔ یاد رہے کہ امریکا خطے میں اقتصادی حریف چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے، جہاں چین دنیا کے سب سے بڑے توانائی کے صارف کے طور پر اپنے مفاد کو ترجیح دے رہا ہے، جبکہ چینی کمپنیاں ٹیکنالوجی اور دیگر انفرااسٹرکچر میں توسیع کر رہی ہیں۔

۸۔ عرب عسکری اتحاد اور راحیل شریف کی گھر واپسی کا وقت:
اب جبکہ سعودی شاہی خاندان نے خطے میں اسرائیل کے تحفظ اور ایران کیخلاف جنگ کی پالیسی میں بظاہر تبدیلی کا عندیہ دیدیا ہے تو پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو، جو بقول ان کے ایران اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی کم کرنے کے لیے ریاض میں سعودی شاہی خاندان کے ہاں ملازمت کر رہے تھے، اب گھر واپس آنا چاہیئے۔ اگر وہ گھر واپس نہیں آتے تو اس سے یہ ثابت ہو جائیگا کہ فقط جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کر رہے تھے۔ دوسرا وہ ریاض کو خیر آباد کہتے ہیں، لیکن گھر نہیں آتے بلکہ مغربی ممالک میں جا کر رہائش اختیار کرتے ہیں تو یہ باور کیا جائیگا کہ وہ ہر صورت میں امریکہ کی طرفداری ہی اپنا منصب سمجھتے ہیں، جبکہ چین اور ایران پاکستان کے ہمسایہ ممالک ہیں، پاکستان کے مفادات ان سے جڑے ہوئے ہیں، امریکہ نہ صرف چین اور ایران کا دشمن ہے، بلکہ وقت نے ثابت کر دیا ہے کہ امریکہ پاکستان اور عربوں کا بھی دوست نہیں ہے۔ یہی وقت ہے کہ چین، پاکستان اور ایران خطے میں مل کر ترقی کا راستہ اپنائیں اور امریکی ریشہ دوانیوں کو ناکام بنائیں، جس کے مثبت اثرات عرب ممالک پر بھی مرتب ہونگے۔
خبر کا کوڈ : 1029398
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش