1
Saturday 10 Dec 2022 10:14

امریکہ کے جنگی کھیل میں یورپ کی ہار

امریکہ کے جنگی کھیل میں یورپ کی ہار
تحریر: ہادی محمدی

امریکہ میں برسراقتدار طاقت کا گینگ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ اس کے پاس موجود سخت طاقت کے ہتھکنڈے انتہائی پرانے اور ناکارہ ہیں، جس کے نتیجے میں وہ دیگر عالمی طاقتوں کے ساتھ جاری طاقت کا توازن ایجاد کرنے کے مقابلے میں پیچھے رہ گئی ہے۔ اسی طرح وہ اس حقیقت سے بھی آگاہ ہیں کہ عنقریب نیا اقتصادی بحران اور بے لگام افراط زر بھی آنے والا ہے۔ لہذا امریکہ کی جانب سے یوکرین میں جنگ کی آگ جلانے کا مقصد آنے والے حالات کے تناظر میں اپنا اندرونی بحران اور سخت طاقت میں پائی جانے والی کمزوریاں باہر درآمد کرنا ہے۔ امریکہ نے یوکرین جنگ کے ذریعے اپنی بہت سی اقتصادی مشکلات کا ازالہ یورپی ممالک کی جیب سے کر لیا ہے۔

امریکہ نے مخصوص سیاسی اقدامات انجام دے کر کچھ یورپی ممالک میں دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے شدت پسند عناصر کو حکومت دلوا دی ہے، تاکہ عالمی سطح پر موجود اہم ایشوز پر آسانی سے اور کم محنت کے ساتھ اتفاق رائے پیدا ہوسکے۔ امریکہ کے اس اقدام کا دوسرا مقصد روس کو زبردستی کی لڑائی میں مصروف رکھ کر اس کی فوجی صلاحیتوں کو کمزور کرنا اور سب سے اہم یہ کہ اس کی نئی ابھرتی ہوئی اقتصادی طاقت کو کمزور کرکے جہاں تک ممکن ہو، اس کے مالی ذرائع کو محدود کرنا ہے۔ یوں امریکہ عالمی نظام میں طاقت کے توازن اور مقابلہ بازی میں خود کو درپیش بڑی رکاوٹوں میں سے ایک رکاوٹ ختم کرنے کے درپے ہے۔

اس بنیاد پر امریکہ نے انتہائی سخاوت مندانہ انداز میں اپنا پرانا اور ناکارہ اسلحہ یوکرین بھیجنا شروع کر دیا، تاکہ امریکہ میں اسلحہ ساز کمپنیوں کے وسیع مجموعے میں زندگی کی نئی لہر پھونک سکے اور یوکرین جنگ سے حاصل ہونے والی آمدن کے ذریعے اپنا فوجی اسلحہ اور جنگی سازوسامان جدید ٹیکنالوجی کے مطابق ڈھال سکے۔ امریکہ اپنی اس حکمت عملی کے ذریعے روس کے ساتھ غیر معمولی حد تک تعلقات میں تناو پیدا نہیں کرنا چاہتا۔ دوسرے الفاظ میں امریکہ پر حکمفرما طاقت کے جتھے کی نظر میں یوکرین میں جاری جنگ کا تسلسل ایک نعمت اور عطا ہے۔ لہذا اگر امریکی حکام کبھی کبھار مذاکرات کی ضرورت یا یوکرین جنگ کے خاتمے کی بات کرتے بھی ہیں تو اس کا مقصد روس اور دیگر کھلاڑیوں کا ردعمل جانچنا ہوتا ہے۔

ولادیمیر پیوٹن جو روس کی پالیسیوں اور حکمت عملی کا مرکز ہیں، امریکہ کے اس جنگی کھیل سے بہت اچھی طرح واقف ہیں، لہذا انہوں نے جنگی حکمت عملی کو ان مغربی ممالک کی مختلف بنیادوں کو متزلزل کرنے پر استوار کر رکھا ہے، جو عملی طور پر یوکرین جنگ میں داخل ہوچکے ہیں۔ اس طرح روسی صدر نے میدان جنگ میں انفرااسٹرکچر اور افرادی قوت کے علاوہ مغربی دنیا سے برآمد ہونے والے اسلحہ اور فوجی سازوسامان کو بھی ایک طویل المیعاد جنگ کا نشانہ بنا ڈالا ہے۔ ولادیمیر پیوٹن اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ یوکرین بھیجے گئے اسلحہ کا بڑا حصہ ایک ایسے مافیا کے ذریعے اس ملک میں بھیجا گیا ہے، جس کا کام افریقی ممالک تک اسلحہ اسمگل کرنا ہے۔

افریقی ممالک سمیت دنیا کے مختلف ممالک کی جانب اسمگل کیا جانے والا یہ اسلحہ دنیا بھر میں امریکی ساختہ بغاوتوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی طرح اس اسلحہ کا ایک اور بڑا استعمال افریقی ممالک میں امریکہ کی حریف بڑی طاقتوں کو وہاں سے نکال باہر کرنے پر مشتمل ہے۔ یوکرین میں شروع ہونے والے امریکہ کے اس جنگی کھیل نے عملی طور پر یورپ کی معیشت کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ اس کھیل کی بدولت امریکہ نے ماضی میں یورپی ممالک کی جانب سے اپنی جی ڈی پی کا 2 فیصد حصہ نیٹو فوجی اتحاد سے مخصوص کرنے میں دکھائی جانے والی مزاحمت پر قابو پا لیا ہے، جس کے نتیجے میں نیٹو فوجی اتحاد کو نئی زندگی عطا ہوئی ہے اور وہ میدان عمل میں کردار ادا کرنے کے قابل ہوچکا ہے۔

امریکہ کی جانب سے روس کے ساتھ تعلقات کی سطح کم کرنے، اسلحہ کی تجارت محدود کرنے یا روس کو انرجی کی محصولات سے حاصل ہونے والی آمدن کو کم کرنے نیز زبردستی قیمتوں کا تعین کرنے کیلئے جو کوششیں انجام پا رہی ہیں، ان کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ روس سے متعلق اسٹریٹجک اہداف کا حصول ہے۔ لیکن بعض حاصل ہونے والی معلومات کی روشنی میں روسی حکام اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کیلئے ایک سال پہلے سے ہی منصوبہ بندی انجام دے چکے ہیں۔ اس وقت بھی روس صرف یورپی ممالک کو گیس اور تیل فروخت کرکے روزانہ ایک ارب ڈالر کما رہا ہے۔ لہذا یوکرین میں امریکہ کے جنگی کھیل کے نتیجے میں روس کی ہار تو ہونے والی نہیں ہے، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ یورپ کی ہار ضرور ہوگی۔
خبر کا کوڈ : 1029416
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش