4
1
Sunday 22 Jan 2023 03:24

*مجھے رہزنوں سے گلا نہیں تری رہبری کا سوال ہے* 

*مجھے رہزنوں سے گلا نہیں تری رہبری کا سوال ہے* 
تحریر: تبرید حسین

فوجداری ترمیمی بل 2021ء قومی اسمبلی سے پاس ہوگیا۔ میرے لئے بہت آسان تھا کہ میں آج جماعت اسلامی کی وحدت کی سعی میں پوشیدہ انتشار کا پردہ چاک کرتا۔ وگرنہ "اسلام کے قلعہ" پاکستان کی اس "مقدس" پارلیمنٹ پر بات کرتا، جو ہچکولے کھاتی معیشت کی اس کشتی کو (کہ جو پاک سرزمین شاد باد) کو ہر لمحہ ڈیفالٹ کے قریب تر کر رہی ہے، اس کے اصلاح احوال کیلئے کوئی سعی یا کم از کم اجتماعی دعا کرنے کی بجائے ابھی بھی عاقبت نا اندیشی کی اعلیٰ مثال قائم کرتے ہوئے فرقہ واریت کی اس کھولی میں منہ مارنے پر تلی ہے، اس پر لعن طعن کرتا۔ یا پھر پی ڈی ایم کے بھان متی کے کنبے کی سیاسی و ذاتی مفاد کے دبیز پردوں میں لپٹی منافقت کے پردے نوچ ڈالتا۔ یا پی ٹی آئی کی خاموش تماش بینی کا ماتم کرتا۔ یا پھر ان کٹھ پتلیوں کے اصل "خاکی" آقاؤں کا ان حرکتوں کے پیچھا چھپا چہرہ بے نقاب کرتا۔ یا پھر عمومی فرقہ پرست گروہوں کے سر ذمہ داری ڈال کر مومنین سے چند لائکس سمیٹ لیتا۔

مگر نہیں۔۔۔ اور ہاں، نا ہی آج میں اس بل کے انتہائی متنازعہ اور دقیق نقاط پر بھی فی الحال اس آرٹیکل میں بات کروں گا۔ مگر میں نے مشکل بات کہنے کی ٹھانی ہے۔ خدا ہمت دے کہ میں اپنا مدعا آپ کے سامنے آپکو ناراض کئے بنا رکھ سکوں۔ میں قدرے حیران ہوں کہ ہماری قوم خصوصاً اہل علم اور اہل بصیرت احباب اس صورتحال پر اس قدر برانگیختہ اور مضطرب کیوں ہیں۔ کیا وہ اپنی ملی، مذہبی و سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کی دور اندیشی پر اسقدر تقیہ کئے بیٹھے ہیں۔؟ میں جہاں بلند قامت مذہبی و سیاسی جماعتوں کے قومی رہنماؤں سے سوال کی گستاخی پر گناہگار ہو رہا ہوں، وہیں قلعہ نما مدرسوں کی فصیلوں میں بیٹھے بزرگان سے بھی سوال کرنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ آخر کب یہ قوم آپ کی بصیرت پر انحصار کرتے ہوئے اپنے آپ کو اور اپنے ایمان کو محفوظ تصور کرے گی۔؟ کب لیڈران قوم سے قوم کو بروقت حساس معاملات پر رہنمائی اور مستقبل کا لائحہ عمل میسر آئے گا۔؟

ہم نے قومی اداروں میں گارڈز رکھے ہوئے ہیں، ڈرائیور رکھے ہوئے ہیں، باورچی رکھے ہیں، حتی کہ ذاتی سوشل میڈیا پیج چلانے کو لوگ رکھے ہوئے ہیں تو کیا ہمارے پاس قومی معاملات کے حوالے سے پروفیشنلز کے تھنک ٹینکس بھی موجود ہیں۔؟؟؟ یا ریسرچ اینڈ ڈیوپلمنٹ کے میدان میں بھی کوئی کارکردگی ہے۔؟؟؟ کیا ہماری نظر آنے والے دس بیس یا پچاس سال پر ہے، یا ہم موجودہ وقت کے ساتھ بھی چلنے اور معاملات کا ادراک کرنے سے قاصر ہیں؟؟؟ سوچئے۔؟ چترالی 2019ء سے کسی نہ کسی انداز سے اس بل کے عنوان سے اپنا ارادہ ظاہر کرچکا تھا اور کئی پارلیمانی کمیٹیوں میں بھی یہ بل ان سالوں میں زیر بحث رہا۔ مگر ہماری آپس میں دست و گریبان قیادتیں قومی معاملات کی قبل از وقت خبر گیری کرتے ہوئے وقت سے پہلے معاملات کو سدھارنے کی کوئی سعی کرنے میں مکمل ناکام رہیں۔ انہوں نے بھی شائد میری طرح اگلے دن اخبار میں خبر پڑھ کر ردعمل کا طوفان برپا کر دیا۔

کچھ عرصہ قبل حال ہی میں پنجاب اسمبلی میں پیش ہونے والے فرقہ وارانہ بل سے لیکر نصاب تعلیم میں تبدیلی جیسی سالہا سال پر محیط مخالفین کی کوششیں بھی ہماری قیادتوں کی نظروں سے اوجھل اور مخفی رہیں اور حیرت انگیز طور پر ان کیلئے "سرپرائز " کا عنصر لئے ہوئے تھیں۔ اپنی مذہبی قیادتوں کو دیکھتے ہوئے مجھے منیر نیازی کی وہ شہرہ آفاق غزل یاد آجاتی ہے کہ "ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں" چلیں اگر ایسے کوئی ادارے فی الحال ہمارے پاس نہیں بھی ہیں تو مجھے نہیں معلوم کہ حالات، معاشرے اور پارلیمنٹ میں سرگرم انتہاء پسند شیعہ مخالف عناصر کے پیش نظر، ہمارے مذہبی سیاست دانوں کو اس بات کا پہلے سے احساس کیوں نہیں ہوتا۔؟ حالانکہ ہماری تمام مذہبی جماعتیں سیاست میں وارد ہیں۔ کوئی عمران خان سے میٹنگ میں بیٹھا نظر آتا ہے، کوئی رانا ثناء اللہ کیساتھ معاملات طے کرتے تو کوئی زرداری کے پاس حاضری دیتے، حتی فضل الرحمن اور سراج الحق بھی ہماری قومی قیادت کی دسترس سے دور نہیں۔

ایجنسیوں یا سیاسی گروہوں میں ہمارے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی کیوں نہیں کرتے اور ایسی حرکتوں کے بارے میں پیشگی خبردار کیوں نہیں کرتے۔؟ تاکہ ملت کیخلاف ایسی کسی بھی فرقہ پرستانہ سازش یا برائی کو pre-empt کرتے ہوئے ایسی کسی متوقع سازش کا پہلے سے ہی قلع قمع کر دیا جائے۔ اب
 ہم مسترد کرتے ہیں
قطعی نامنظور ہے
بد نیتی پر مبنی ہے
فرقہ واریت کی تیلی جلانا قبول نہیں
یہ گہری اور گھناؤنی سازش ہے
سخت تشویش میں مبتلا ہیں
 اور ہم نہیں مانتے

 قسم کے بلند و بانگ بیانات، معذرت کیساتھ، فقط ایک دوسرے پر سیاسی برتری حاصل کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ تاکہ خود کو متحرک اور عوام کے لیے فرنٹ لائن میں ثابت کیا جا سکے۔

اگرچہ میں بہت زیادہ توقعات اب قیادتوں سے رکھنا چھوڑ چکا اور اس مسئلے میں دیر بھی ہوچکی، مگر اب بھی کچھ اقدامات کئے جا سکتے ہیں۔ مثلاً
1۔ کیا اجتماعی قومی معاملات یا موجودہ ترمیمی بل کے مسئلے پر ہماری تمام تر شیعہ قیادت (آغا راجہ ناصر، آغا ساجد نقوی، آغا سید جواد، آغا شیخ محسن، آغا حافظ ریاض و دیگر) مل بیٹھ کر کوئی مشترکہ لائحہ عمل دے سکتی ہے یا کم از کم اجتماعی پریس کانفرنس ہی کر دیں۔
2۔ کیا مذہبی قیادتیں اپنے اپنے ممدوح سیاسی قائدین بشمول شہباز شریف، آصف زرداری، عمران خان، فضل الرحمن، سراج الحق، لیاقت بلوچ وغیرہ کو احساس یا شرم وغیرہ دلوانے کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ یہ ملک پہلے پتھر کے دور میں واپس جا رہا ہے اور مزید کیا کھلواڑ کرنا چاہتے ہیں آپ لوگ۔ اور یہ کہ سینیٹ میں ایسی کسی کوشش کو بھرپور طریقے سے یہ تمام سیاسی جماعتیں رد کریں۔
3۔ پارلیمنٹ کے سامنے سب مذہبی قیادت مل کر ایک بھرپور مظاہرہ کرکے اپنے حقوق کے تحفظ کا مشترکہ اعلان کرے، کیونکہ یہ ہمارا آئینی اور جمہوری حق ہے۔
4۔ سوشل میڈیا پر کامیاب اور مربوط مہم کے ذریعے پچھلے کچھ عرصہ سے پارلیمنٹ کے ذریعے فرقہ واریت کو پروان چڑھانے کی کوششوں مثلاً نصاب میں تبدیلی، پنجاب اسمبلی میں فرقہ وارانہ بل یا پھر موجودہ قومی اسمبلی میں ترمیم بل کو بےنقاب کیا جائے اور اہلسنت بھائیوں کو اس سازش کے پیچھے چھپے مکروہ عزائم آشکار کئے جائیں۔

عوام کے سامنے آکر محض خوبصورت اور جذباتی بیان بازی کی بجائے (جو کہ اہم بھی ہے)، ہمارے لیڈروں کو تیزی سے کام کرنے اور سیاست دانوں، ججوں، فوج، بیوروکریٹس، پارلیمنٹیرینز پر اپنا مکمل اثر و رسوخ استعمال کرنے اور اس قانون کو روکنے کے لیے تمام ممکنہ ذرائع استعمال کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ سینیٹ کی سطح پر اس کی بیخ کنی کی جا سکے۔ ہمیں لپ سروس سے آگے بڑھنا ہوگا۔ ہماری قیادتوں کو مل بیٹھ کر قوم کو تابناک مستقبل کا لائحہ عمل دینا ہوگا، ورنہ میرے جیسے کارکن اپنے قائدین سے یہ کہنے میں حق بجانب ہونگے کہ
تو ادھر ادھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا
مجھے رہزنوں سے گلا نہیں تری رہبری کا سوال ہے
خبر کا کوڈ : 1036871
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

سید ظفر عباس
United Kingdom
تبرید صاحب نے بہت شائستگی کے ساتھ ہماری قوم کا موجودہ دور کا مسئلہ نمبر ایک مؤثر انداز میں پیش کر دیا ہے۔
دشمنوں سے گلا کرنا بھی کیا! ان کی تو ان کے اپنے ایجنڈے پر دلجمعی سے اور مؤثر انداز میں سوچ سمجھ کر سازشیں کرکے شیعہ قوم کو دیوار سے لگانے پر اگر داد دے سکتے ہوتے تو دینا بنتا ہے۔
مایوسی اور شکایت تو اپنے سیاسی اور مذہبی لیڈرز سے ہے۔ ان کے بیانات اور “حالاتِ حاضرہ” پر تبصرے سنیں یا پڑھیں، اور ان کے عملی اقدامات پر نظر کریں تو سوائے ایک دوسرے پر بیان بازی میں سبقت لے جانے کی واضح کوششوں کے علاوہ کوئی تعمیری کام نظر نہیں آتا۔
تبرید صاحب نے بجا طور پر سوال اُٹھایا ہے کہ کیا ہماری سیاسی تنظیموں کے پاس کوئی باقاعدہ تھنک ٹینک ہے, جو ہمیں ماضی اور حال کا عمیق تجزیہ کرکے آنے والے وقتوں کے لئے کوئی لائحۂ عمل تجویز کرتا ہو؟ یا ہم محض واقعی اخبار میں خبر پڑھ کے “مسترد کرتے ہیں” قسم کے ردِّعمل ہی دینے کو کافی سمجھتے ہیں؟
شیعہ قوم پر مملکتِ خداداد پاکستان میں ایک کے بعد ایک قانونی اور دیگر حملے تواتر کے ساتھ آرہے ہیں۔ نصاب میں تبدیلی، درود میں تبدیلی، توہینِ صحابہ بل اور آنے والے وقتوں میں اور کیا کیا دیکھنے کو ملے گا۔؟
یہ بات ماننے سے مکمل انکار کرتا ہوں کہ ہماری قوم میں دانشِ اجتماعی کی کمی ہے۔ یا یہ کہ مقتدر حلقوں میں اور ایجنسیز وغیرہ میں ہماری قوم کے مفادات کی فکر رکھنے والے افراد موجود نہیں ہیں، جو اس قسم کے آنے والے واقعات سے بروقت خبردار کرسکیں اور نہ ہی ہماری قوم میں ایسے دماغوں کی کمی ہے، جو ان معاملات پر غور و خوض کرکے مناسب پیش بندی اور مشورے دے سکیں۔
کمی ہے تو اس کی کہ ہمارے لیڈرز ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر متفقہ لائحۂ عمل ترتیب دیں۔ جن معاملات میں ہمارے مذہبی رہنماؤں میں تجربے اور ان معاملات میں درکار مخصوص نظر اور دانش موجود نہیں ہے، ان میں درکار اسپیشلسٹ افراد کی مدد لے کر ان کی رہنمائی حاصل کرنے میں سبکی محسوس نہ کریں اور بروقت درست فیصلے کریں۔
قومی اسمبلی میں پاس شدہ اس قانون کو سینیٹ سے پاس کرانے میں شیعہ دشمن عناصر کو اب زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا اور اس کے ہونے میں جتنا ان عناصر کی سر توڑ اور منظم کوششوں کا ہاتھ ہوگا، اتنا ہی ہماری قیادت کی نااہلی اور نا اتفاقی کا بھی ہوگا۔
وطن کی فکر کر ناداں، مصیبت آنے والی ہے
تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
SYED KAZMI
United Kingdom
سوال پھر وہی ہے کہ بل پاس ہونے سے پہلے ہمارے قائدین نے کیا ستو پئے ہوئے تھے۔؟
United States
لسی پی کر سوئے تھے۔
Romania
میدان عمل اور حقائق کے بارے میں انتہائی کم معلومات اور مفروضات پر مبنی تحریر، جس میں انتہائی سطحی باتیں کی گئی ہیں، جو کہ اسلام ٹائمز کے علمی و عملی معیار کو کم کرنے کا باعث ہیں۔
ہماری پیشکش