QR CodeQR Code

میدانِ سیاست کی گرمیاں اور عمران خان

26 Jan 2023 08:30

اسلام ٹائمز: فواد چوہدری صاحب کی گرفتاری کافی بڑی گرفتاریوں کا آغاز لگتا ہے اور کافی پیغام دے رہا ہے۔ الیکشن کمیشن سے براہ راست دشمنی صرف اس لیے ہے کہ وہ آئندہ کچھ دنوں میں عمران خان صاحب کے کیسز کے حوالے سے اہم فیصلے کرنیوالا ہے، جن میں ماہرین کے مطابق عمران خان صاحب کی پوزیشن کافی کمزور ہے۔ میدان سج رہا ہے اور سیاست میں اصل مقابلہ سیاسی میدان میں ہوتا ہے۔ عمران خان صاحب نے سیاسی رولز کو بدلا ہے، لگ یوں رہا ہے کہ ان کیلئے بھی اہل سیاست نے رول بدل دیئے ہیں۔ اسی لیے اب خان صاحب کو انہی بدلے رولز میں کھیلنا ہوگا، جس میں بقول تجزیہ نگاروں کے اب خان صاحب بند گلی میں پہنچ چکے ہیں اور بقول خان صاحب عوام ہمارے ساتھ ہیں، فیصلہ عنقریب ہو جائیگا۔


تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

لاہور کا سیاسی درجہ حرارت مسلسل بڑھ رہا ہے۔ لاہور متحدہ ہندوستان کے زمانے سے سیاست، ثقافت اور ہر طرح کی سرگرمیوں کا مرکز رہا ہے۔ ایک بات پر عمران خان صاحب کو داد بنتی ہے کہ انہوں نے لاہور کا انتخاب کرکے اور زمان پارک میں ڈیرے ڈال کر درست جگہ کا انتخاب کیا ہے۔ وہ لاہور میں ڈنٹ ڈالنے میں کامیاب رہے تو پنجاب میں سیاسی کامیابی مقدر ٹھہرے گی۔ سیاست کی حرکیات بڑی عجیب ہیں، چند دنوں میں عوامی بیانیہ بنا لیا جاتا ہے اور چند دنوں میں ہی دوسری پارٹی اس بیانیہ سے ہوا نکال دیتی ہے، اس لیے ہر سروے کے نتائج پہلے والے سے مختلف ہوتے ہیں۔ اس وقت ہر سیاسی جماعت پورا زور لگا رہی ہے اور ہر پارٹی پوری طرح متحرک ہوچکی ہے۔ ویسے تو پاکستان میں اب سیاست اور مذہب کے علاوہ گفتگو کے موضوعات نا ہونے کے برابر ہیں، مگر ہر چینل سے لے کر گلی محلے کی بیٹھکوں تک اب صرف سیاست پر ہی بات ہو رہی ہے۔

عمران خان صاحب نے اپنے پتے بڑے اچھے انداز میں کھیلے ہیں۔ وہ جو بھی بیانیہ بناتے ہیں، وہ سیل ہوتا ہے اور نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ناصرف اسے قبول کرتی ہے، بلکہ بڑی تعداد میں دن رات لگا کر اسے معاشرے میں پھیلا بھی دیتی ہے۔ انہوں نے امریکی مخالفت کا بیانیہ بنا کر عوام میں نعرہ مستانہ لگایا تو "ہم کوئی غلام ہیں"  کو ٹاپ ٹرینڈ بنا دیا۔ اس سے یوں لگنے لگا کہ جیسے ہم بس امریکی اور ہر استعماری غلامی سے نکلنے ہی والے ہے اور ہم جیسے لوگ سوچنے لگے، یا رب ایسی غیرت کی عظیم الشان چنگاری بھی ہمارے دامن میں تھی، مگر تھوڑے ہی عرصے میں وہ بیانیہ پنتیس پنچر کے بیانیے کی طرح ایک سیاسی گپ شپ ثابت ہوا۔ اس معاملے میں عمران خان صاحب بہت ہی خوش قسمت ہیں کہ انہیں سپورٹرز کا وہ گروہ ملا ہے، جو ان کے بدلتے بیانیوں میں تضاد کی بجائے حکمت عملی تلاش کرتا ہے اور ہر نئے بیانیے کے ساتھ کھڑا ہو جاتا ہے۔ پہلے سوشل میڈیا پر اس بحث کو چھیڑتا ہے، سوشل میڈیا پر یہ بحث زور پکڑتی ہے اور یہاں سے ہی قومی میڈیا اس بحث کو اٹھا لیتا ہے۔

عمران خان نے مسلم لیگ کی حکومت کا پنجاب سے خاتمہ کرکے بڑی سیاسی بلوغت کا ثبوت دیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اگر پنجاب میں پورا سال مسلم لیگ کی حکومت رہ جاتی تو یہاں مسلم لیگ کی حمایت میں ایک فضا قائم ہو جانی تھی اور پی ٹی آئی کو بہت ٹف ٹائم ملنا تھا۔ اگر عملی طور پر دیکھیں تو بھی عمران خان نے اس وقت پورے پنجاب میں احتجاج کا اعلان کیا تھا اور غالباً قافلوں میں لوگوں نے اسلام آباد پہنچنا تھا، مگر کہیں بھی لوگ مطلوبہ تعداد میں نہیں پہنچے تھے، بلکہ پنڈی جیسے شہر میں بھی چند سو لوگ بھی جمع نہیں ہوسکے تھے۔ ہر سیاسی غلطی کی کوئی نا کوئی قیمت ہوتی ہے، جسے بہرحال ادا کرنا پڑتا ہے۔ عمران خان صاحب کو سب نے سمجھایا کہ ریاستی اداروں میں اپنا سٹیک قائم رکھنا ہوتا ہے، مرکز میں مسلم لیگ ہے اور باقی تقریباً اسی فیصد پاکستان میں ہماری حکومت ہے۔

مسلم لیگ کی اتحادی حکومت کا المیہ یہ رہا ہے کہ وہ چار پانچ سال کی اقتصادی پالیسی کا بوجھ اپنی گردن پر لاد چکی ہے۔ رہی سہی کسر سیلاب نے نکال دی ہے اور مہنگائی، بیروزگاری اور امن و امان کے مسائل کنٹرول سے باہر ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ عمران خان صاحب کو تو فقط انجوائے کرنا تھا اور بس الیکشن کا انتظار کرتے۔ ابھی تو آئی ایم ایف کے پاس جانا ٹھہر چکا ہے، آج گئے یا کل گئے۔ اس سے مزید حالات خراب ہوں گے اور مہنگائی کا لیول مزید بڑھ جائے گا۔ اس کا براہ راست فائدہ  بھی پی ٹی آئی کو ہونا تھا۔ حکومت کا ان کے سے ہاتھ جانا تو خدا کی نعمت تھی، کیونکہ کوئی بڑا عوامی مسئلہ حل نہیں ہوا تھا۔ پی ٹی آئی غیر مقبول ہوچکی تھی اور تقریباً قومی اور صوبائی اسمبلی کے الیکشن مسلسل ہار رہی تھی۔

باقی سب چھوڑیں پی ٹی آئی کو پشاور سے جمعیت علمائے اسلام نے میئر کے الیکشن میں شکست فاش دے دی تھی۔ جب پشاور میں یہ سب کچھ ہو رہا تھا تو پنجاب اور اسلام آباد میں یہی نوشتہ دیوار تھا۔ ایسے میں عدم اعتماد کی تحریک ہوئی، خان صاحب نے اس سے بھرپور فائدہ اٹھا کر ایک بیانیہ بنا لیا۔ اس نے ان کے سوئے ہوئے بلکہ کسی حد تک دلبرداشتہ ہوئے کارکنوں میں بھی انرجی پیدا کر دی اور وہ پوری قوت سے خان صاحب ساتھ کھڑے ہوگئے، پنجاب کی صوبائی نشستوں پر کامیابی کی وجہ یہی تھی۔ پنجاب اور کے پی کے اسمبلی کو توڑنا ایک سیاسی جوا تھا۔ عمران خان نے تمام خیر خواہوں کے مشوروں کو رد کرتے ہوئے انہیں توڑنے کا فیصلہ کیا۔ لگ یوں رہا تھا کہ ایک تو عمران خان صاحب جلد از جلد اقتدار میں واپسی چاہتے ہیں اور دوسرا انہیں اس بات کا خدشہ تھا کہ کہیں ان کی مقبولیت کم نہ ہو جائے اور یہ خدشہ درست ہے۔ کراچی کا الیکشن اسی کی نشاندہی کر رہا ہے۔

عمران خان صاحب کی حکومت توڑنے اور نگران حکومت میں محسن نقوی صاحب کا راستہ نہ روک پانا ایک بڑا نقصان ہے۔ رہی سہی کسر عمران خان صاحب ان کے خلاف بیانات اور احتجاج نے نکال دی ہے۔ اگر ان کے دل میں کہیں کوئی نرم گوشہ تھا بھی تو اب ختم ہوچکا ہے۔ فواد چوہدری صاحب کی گرفتاری کافی بڑی گرفتاریوں کا آغاز لگتا ہے اور کافی پیغام دے رہا ہے۔ الیکشن کمیشن سے براہ راست دشمنی صرف اس لیے ہے کہ وہ آئندہ کچھ دنوں میں عمران خان صاحب کے کیسز کے حوالے سے اہم فیصلے کرنے والا ہے، جن میں ماہرین کے مطابق عمران خان صاحب کی پوزیشن کافی کمزور ہے۔ میدان سج رہا ہے اور سیاست میں اصل مقابلہ سیاسی میدان میں ہوتا ہے۔ عمران خان صاحب نے سیاسی رولز کو بدلا ہے، لگ یوں رہا ہے کہ ان کے لیے بھی اہل سیاست نے رول  بدل دیئے ہیں۔ اسی لیے اب خان صاحب کو انہی بدلے رولز میں کھیلنا ہوگا، جس میں بقول تجزیہ نگاروں کے اب خان صاحب بند گلی میں پہنچ چکے ہیں اور بقول خان صاحب عوام ہمارے ساتھ ہیں، فیصلہ عنقریب ہو جائے گا۔


خبر کا کوڈ: 1037757

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/1037757/میدان-سیاست-کی-گرمیاں-اور-عمران-خان

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org