0
Saturday 28 Jan 2023 22:19

مسلم لیڈروں کی آر ایس ایس کے ذمہ داران سے ملاقاتیں

مسلم لیڈروں کی آر ایس ایس کے ذمہ داران سے ملاقاتیں
رپورٹ: جاوید عباس رضوی

ایک جانب انڈین نیشنل کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی موسم کی تمام شدتیں برداشت کرتے ہوئے بھارت میں بے روزگاری، مہنگائی اور نفرت کے خلاف اپنی ’بھارت جوڑو ریلی‘ مکمل کرنے کو ہیں تو دوسری جانب برسر اقتدار جماعت بی جے پی کی کوشش ہے کہ کس طرح اقلیتوں کے ووٹوں کو تقسیم کیا جائے اور تیسری مرتبہ اقتدار میں واپسی کی جائے۔ 26 جنوری یوم جمہوریہ کی پریڈ میں جھانکیوں کے ذریعہ ایک مخصوص مذہب کی تشہیر اور مصر کے صدر کو مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کرنا، اسی سلسلہ کی ایک اہم کڑی نظر آتی ہے۔ ایک طرف بھارت کے وزیراعظم پسماندہ مسلمانوں کی بات کرتے نظر آ رہے ہیں تو دوسری طرف آر ایس ایس کی جانب سے مسلم لیڈروں سے ملاقاتیں کی جا رہی ہیں۔ خبر یہ ہے کہ مسلم مفکرین اور علماء کے ایک وفد نے حال ہی میں آر ایس ایس کے ذمہ داروں سے ملاقات کی ہے۔ یہ مسلم لیڈران کی جانب سے اس طرح خاموشی سے کی گئی دوسری ملاقات ہے۔ یہ ملاقات گزشتہ 14 جنوری کو ہوئی اور حاضرین کے درمیان 3 گھنٹے تک مذاکرت ہوئے۔ اس ملاقات کے حوالہ سے مسلمانوں میں بے چینی پائی جا رہی ہے کیونکہ نہ تو اس ملاقات سے پہلے اور نہ ہی بعد میں وفد کے کسی رکن کی جانب سے عوامی طور پر کوئی تفصیل دی گئی۔

کئی میڈیا رپورٹز میں بتایا گیا ہے کہ اس ملاقات کے دوران آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کے حال ہی میں دیئے گئے انٹرویو، وارانسی کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی شاہی عیدگاہ مسجد تنازعات، گاؤ کشی، ہجومی تشدد، دونوں فرقوں کی جانب سے متنازعہ بیانات اور لفظ ’کافر‘ کے عدم استعمال کے سلسلہ میں بات چیت کی گئی۔ رپورٹ کے مطابق اس ملاقات کے دوران اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ پہلے باہمی ہم آہنگی والے موضوعات پر پیش قدمی کی جائے گی اور جلد ہی دونوں فریقین پھر سے ملاقات کریں گے۔ ملاقات میں مسلم وفد کو یہ بات بتائی گئی کہ مسلمان آر ایس ایس کو اپنا دشمن نہ سمجھیں۔ اس ملاقات سے اکثر مسلم اداروں نے لا تعلقی کا اظہار کیا ہے۔ میٹنگ میں آر ایس ایس نے مسلم وفد کے مختلف خدشات کو دور کرنے کی کوشش کی گئی۔ واضح ہو کہ یہ ملاقات دہلی کے دریا گنج میں دہلی کے سابق لیفٹیننٹ گورنر نجیب جنگ کی رہائش پر ہوئی، جس میں آر ایس ایس کی جانب سے کرشن گوپال، رام لال اور اندریش کمار جیسے عہدیداروں نے شرکت کی۔

دوسری طرف مسلمانوں کی جانب سے نجیب جنگ کے علاوہ سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی، سابق رکن پارلیمنٹ شاہد صدیقی، صنعت کار اور سماجی خدمات گار سعید شیروانی، جماعت اسلامی ہند سے ملک محتشم خان، جمعیت علماء ہند کے محمود مدنی دھڑے سے مولانا نیاز فاروقی، جمعیت علماء ہند کے ارشد مدنی دھڑے سے فضل ارحمان قاسمی، اجمیر شریف سے سلمان چشتی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پروفیسر اور اسلامک اسٹڈیز کے ماہرین سمیت دونوں طرف کے تقریباً 20 افراد موجود تھے۔ رپورٹ کے مطابق شاہد صدیقی نے بتایا کہ ملاقات میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ دونوں فریقین ہم آہنگی والے موضوعات پر آگے بڑھیں گے تاکہ سماج میں بھائی چارہ قائم ہو سکے۔ انہوں نے کہا کہ دونوں فریقین کے درمیان پائے جانے والے خدشات کا ازالہ ضروری تھا۔ انہوں نے بتایا کہ جلد ہی دونوں فریقین کی جانب سے ایک بڑی میٹنگ کا انعقاد ہوگا، جس میں متعدد اہم موضوعات پر بات چیت ہوگی۔ اس طرح کی میٹنگیں ملک کے مختلف حصوں میں منعقد کرنے پر بھی بحث کی گئی۔

شاہد صدیقی نے کہا کہ مسلم فریق نے آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کے حالیہ انٹرویو کا مسئلہ اٹھایا تھا، جس کے جواب میں آر ایس ایس کے لیڈروں نے پنج جنیہ میں شائع ہندی انٹرویو پڑھ کر سنایا۔ میٹنگ میں شریک ایک آر ایس ایس کے لیڈر نے کہا کہ پنچ جنیہ کا انٹرویو سننے کے بعد مسلم فریق کے لوگوں نے بھی قبول کیا کہ آر ایس ایس کے سربراہ کے انٹرویو کو غلط تناظر میں توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔ جب آر ایس ایس نے میٹنگ میں وارانسی اور متھرا کا مسئلہ اٹھایا تو مسلم فریق کی طرف سے صاف کہا گیا کہ یہ دونوں مسائل عدالت کے ذریعے ہی حل ہوسکتے ہیں۔ ہجومی تشدد کا مسئلہ مسلم فریق نے اٹھایا تھا جسے آر ایس ایس کے لیڈروں نے بھی غلط قرار دیا اور اس کی مخالفت کی۔ دوسری طرف جب آر ایس ایس کے لیڈروں نے ہندو جذبات کا احترام کرتے ہوئے گائے کے ذبیحہ کا مسئلہ اٹھایا تو مسلمانوں کی طرف سے کہا گیا کہ اگر حکومت پورے ملک میں گائے کے ذبیحہ پر پابندی کا قانون بنانا چاہتی ہے تو انہیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا اور وہ ہر حال میں اس کی حمایت کریں گے۔ اجلاس میں لفظ ’کافر‘ کے استعمال کا معاملہ بھی سامنے آیا۔ ذرائع کے مطابق آر ایس ایس کے لیڈروں کی جانب سے کہا گیا کہ قوم کا نظریہ سب کو متحد کرتا ہے۔

آر ایس ایس کے لیڈروں نے کہا کہ ہر طبقہ میں مختلف فرقے ہوتے ہیں اب جو شخص کسی بھی شکل میں خدا کو مانتا ہے تو وہ ’کافر‘ کیسے کہلائے گا؟۔ جس پر مسلم فریق حتیٰ کہ مسلم علماء کرام نے بھی تسلیم کیا کہ بھارت اور ہندوؤں کے تناظر میں کافر کا لفظ استعمال کرنا سراسر غلط اور نامناسب ہے اور اسے ہرگز استعمال نہیں کرنا چاہیئے۔ شاہد صدیقی نے مزید کہا کہ ملاقات میں بہت ہی خوشگوار ماحول میں مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اسے جمود کو توڑنے والی میٹنگ قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش تھی کہ دونوں برادریوں کے درمیان ایک کھڑکی کھولی جائے اور انہیں امید ہے کہ مزید دروازے کھلیں گے۔ خیال رہے کہ آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے گزشتہ سال 22 اگست کو بھی نئی دہلی میں مسلم دانشوروں کے ایک حصے سے مسلم معاشرے کے ساتھ رابطے اور بات چیت کو بڑھانے کی مشق کے طور پر ملاقات کی تھی اور اس سال 14 جنوری کو ہونے والی یہ ملاقات اسی کا تسلسل تھی۔ اس مہم کے تحت آنے والے دنوں میں اس طرح کی کئی اور میٹنگیں منعقد کی جائیں گی۔ حالیہ دنوں آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے مسلمانوں سے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے نظریہ میں تبدیلی لائیں اور آر ایس ایس سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
خبر کا کوڈ : 1037971
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش