0
Saturday 28 Jan 2023 21:50

امام علی نقی علیہ السلام، ہادی مہجور

امام علی نقی علیہ السلام، ہادی مہجور
تحریر: سید اسد عباس

وقال الرسول یا رب ان قومی اتخذوا ہذالقرآن مہجوراً (فرقان:۳۰) "اور رسول نے کہا کہ اے میرے پروردگار میری قوم نے اس قرآن کو فراموش کر دیا۔" یہ قرآن صامت کے بارے رسول اکرم ؐ کا ایک شکوہ ہے، جسے قرآن نے ہی بیان فرمایا۔ یقیناً یہ شکوہ قرآن ناطق کے بارے بھی رسول اکرم ضرور کریں گے کہ اے اللہ میں نے اپنی قوم میں دو گراں قدر چیزیں چھوڑی تھیں، ایک قرآن اور دوسری اپنی عترت اور ان کو بتایا تھا کہ اگر تم ان دونوں سے جڑے رہو گے تو یہ تمھیں حوض کوثر تک لے آئیں گی۔ قرآن کے بارے تو شکوہ رسول ؐ ہم نے پڑھ لیا، اپنی عترت کو فراموش کرنے بلکہ ان کو مظلوم کر دینے کے بارے رسول اللہ ؐ کا شکوہ یقیناً سنگین ہوگا۔ اہل بیت ؑ کے نام لیوا بھی اپنے ائمہ کی زندگیوں سے زیادہ آگاہ نہیں۔ جنگ خیبر، جنگ خندق، جنگ احد، جنگ صفین، واقعہ کربلا، سفر کوفہ و شام بس ہماری اہل بیت ؑ سے وابستگی کے یہی نکات ہیں۔ باقی ائمہ اہل بیت نے زندگی کیسے گزاری، کن مشکلات سے دوچار ہوئے، ان کے ساتھی کون تھے، نہایت افسوس کے ساتھ ہمارے پاس اس سب کے لیے وقت نہیں ہے۔ مجالس و محافل میں بھی یہ تذکرہ سننے کو نہیں ملتا۔ اس کے باوجود ہم کہتے ہیں کہ ہم اہل بیت ؑ کے پیروکار ہیں اور یہ ہمیں حوض کوثر تک لے جائیں گے۔

3 اور 5 رجب المرجب امام علی الہادی علیہ السلام سے مخصوص ایام ہیں۔ ابو الحسن ثالث، امام علی الہادی النقی علیہ السلام، امام محمد تقی علیہ السلام کے پہلے فرزند ہیں۔ تقوی سادات، جو برقعی، جوادی، رضوی کے عنوان سے جانے جاتے ہیں، امام محمد تقی علیہ السلام کے چھوٹے فرزند موسیٰ مبرقع کی اولاد ہیں۔ موسیٰ مبرقع اور امام علی نقی علیہ السلام دونوں کی والدہ سمانہ خاتون ہیں، موسیٰ مبرقع اور امام علی نقی علیہ السلام کی عمر چھے یا آٹھ برس تھی، جب امام محمد تقی علیہ السلام کو عراق کا سفر کرنا پڑا اور وہیں ان کو شہید کر دیا گیا۔ دیگر ائمہ اور اہم شخصیات کی مانند امام علی نقی ؑ کی ولادت کے حوالے سے بھی مورخین میں اختلاف ہے۔ کلینی ، شیخ مفید، ابن اثیر نے آپ کی ولادت ۲۱۲ھ لکھی ہے جبکہ جبکہ شیخ طوسی، شیخ نصر بخاری اور کشف الغمۃ کے مولف کے مطابق آپ کی ولادت ۲۱۴ھ میں ہوئی۔ سالوں میں ہی تفاوت ہیں تو یوم ولادت کا تو تذکرہ ہی کیا۔

بہرحال آپ کی ولادت کے حوالے سے پانچ رجب کے دن کو اختیار کیا گیا ہے۔ تاریخوں کا یہ اختلاف کوئی انہونی چیز نہیں ہے۔ آج بھی ایسے بہت سے بزرگ زندہ ہیں، جن کو اپنی اصل تاریخ ولادت یاد نہیں ہے۔ شناختی کارڈ میں لکھا جانے والا سن ولادت بھی اندازے سے تحریر کیا گیا ہے۔ لہذا نبی کریم ؐ یا ائمہ اہل بیت کے ایام ہائے ولادت و شہادت کے بارے میں اختلاف پر زیادہ پریشان نہیں ہونا چاہیئے۔ راویوں کو جو جو روایت ملی، انھوں نے قلمبند کر دی۔ بعد کے علماء نے جس روایت کو زیادہ قرین قیاس جانا، اس کو متعارف کروانا شروع کر دیا۔ امام محمد تقی علیہ السلام کو ۲۲۰ھ میں زہر دے کر شہید کیا گیا۔ زہر دینے کے بعد معتصم نے مدینہ کے گورنر کو حکم دیا کہ ہادی کو شیعوں سے دور کر دو اور اس کے لیے ایسے اساتذہ کا اہتمام کرو، جو شیعہ مخالف ہوں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ معتصم نے فقط ہادی کا نام کیوں لیا، اس نے موسیٰ کا تذکرہ کیوں نہ کیا، نیز یہ کہ وہ ہادی کے لیے شیعہ دشمن اساتذہ تعین کرنا چاہ رہا ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ امام علی نقی علیہ السلام کے بارے میں مشکوک تھا کہ یہی امام محمد تقی علیہ السلام کے جانشین ہوسکتے ہیں۔

روایات میں ملتا ہے کہ امام محمد تقی علیہ السلام کے چاہنے والوں میں بھی نیابت کے حوالے سے اختلاف ہوا تھا۔ کچھ لوگوں نے موسیٰ مبرقع کو امام محمد تقی علیہ السلام کا جانشین سمجھا، تاہم جلد ہی وہ امام علی نقی علیہ السلام کی جانب لوٹ گئے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ امام علی نقی علیہ السلام اور ان کے بعد غیبت امام مہدی تک کے زمانے کے زیادہ حالات لوگوں تک ویسے نہیں پہنچے، جیسے اوائل اسلام کی تاریخ دستیاب ہے۔ بہرحال معتصم نے جس شخص کو اس مقصد کے لیے مامور کیا گیا، وہ اپنے مشاہدات کو بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ہادی نے جس ہوشیاری اور ذہانت کا مظاہرہ کیا ہے، وہ کسی بچے سے بعید ہے۔ وہ ادبیات عرب اور قرآن کریم کے ظاہر و باطن پر ایسی گہری نظر رکھتا ہے کہ جو علم ماورائی کے سرچشمے سے جڑے بغیر ممکن نہیں ہے۔ یہ اظہارات "ماثر الکبرافی تاریخ سامرہ" میں جنیدی سے نقل ہوئے ہیں، جسے فارسی مولف قرشی نے اپنی کتاب "تحلیلی از زندگانی امام ہادی" کے صفحہ ۳۱ اور ۳۲ پر درج کیا ہے۔

امام علی نقی علیہ السلام نے عباسی حکمران معتصم (مامون کا بھائی) اور واثق (معتصم کا بیٹا) کے دور حکومت میں مدینہ میں ہی قیام کیا اور عالم اسلام سے شاگردوں کو تربیت کرتے رہے۔ شیخ طوسی نے آپ کے اہم شاگردوں اور پیروکاروں کی تعداد ایک سو پچاسی لکھی ہے، جن میں یعقوب بن یزید کاتب، ابراھیم بن محمد ھمدانی، علی بن جعفر، حسن بن عبد ربہ، ابو علی بن راشدن، ایوب بن روح، احمد بن اسحاق رازی، حسن بن راشد، ایوب بن نوح، عبد العظیم حسنی، عثمان بن سعید عمروی اور محمد بن عثمان عمروی قابل ذکر ہیں۔ یہی شخصیات امام علی نقی علیہ السلام کی مختلف علاقوں میں وکیل اور نمائندہ بھی تھیں۔ امام علی نقی علیہ السلام کی عمر ۲۵ برس ہوئی تو متوکل (معتصم کا بیٹا) نے زیارت امام حسین ؑ پر پابندی لگا دی اور بعد میں مزار سید الشہداء کو مسمار کرکے وہاں کھیتی باڑی کا حکم دیا۔

اسی دور میں متوکل کو مدینہ کے گورنر نے خط لکھا کہ اگر حرمین اور حجاز کی ضرورت ہے تو ہادی کو اپنے پاس بلوا لو۔ یہ اپنے گرد پیرکاروں اور تشنگان علم کو اکٹھا کر رہا ہے اور حکومت قائم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ متوکل نے امام علی نقی علیہ السلام کو عراق طلب کر لیا۔ سامرہ جو کہ عباسی افواج کی ایک چھاونی تھی، میں امام علی نقی علی السلام کو نظر بند کر دیا گیا۔ ایک روز امام کے بارے متوکل کو شکایت کی گئی کہ انھوں نے کتابیں، ہتھیار اور مال اپنے پاس جمع کیا ہوا ہے۔ اس خفیہ اطلاع کے ملتے ہی متوکل نے حکم دیا کہ امام ہادی کو تمام املاک کے ہمراہ گرفتار کرکے دربار میں حاضر کیا جائے۔ عباسی افواج امام کے گھر رات کے پہر داخل ہوئیں، تاہم کوئی چیز برآمد نہ کرسکیں۔ امام عبادت میں مصروف تھے، اسی حال میں ان کو متوکل کے سامنے پیش کیا گیا۔ امام جب دربار لائے گئے تو شراب کا دور چل رہا تھا۔ متوکل نے جام بڑھایا تو امام نے کہا: "یہ مشروب آج تک میرے گوشت و خون کا حصہ نہیں بنا۔ مجھے معاف رکھو۔" متوکل نے کہا کہ اچھا کچھ شعر سناؤ، جس سے مجھے لطف آئے، امام نے کہا کہ مجھے شعر کم یاد رہتے ہیں تو متوکل نے اصرار کیا، جس پر امام نے جو اشعار سنائے ان کا مفہوم یہ ہے۔

"انھوں نے رات جنگجوؤں کے پہرے میں پہاڑوں کی چوٹیوں پر گزاری، تاہم انھیں پناہ نہ مل سکی، ان کی تمام تر قوت اور طاقت کے باوجود ان کو اپنے عظیم الشان قلعوں سے نیچے اترنا پڑا اور خود کو مقبروں کے حوالے کرنا پڑا۔ کتنی تکلیف دہ تبدیلی ہے کہ وہ قبروں میں پہنچ چکے ہیں اور ایک آواز آرہی ہے کہ وہ تاج، تخت اور لباس شاہی کہاں ہیں۔؟ وہ ناز و نعم والے چہرے کہاں ہیں، جو عوام الناس سے حجاب میں چھپے رہتے تھے۔ اس سوال کا جواب قبر نے خوب دیا کہ اب ان چہروں پر کیڑے پھر رہے ہیں۔ انھوں نے لمبا عرصہ کھایا اور پیا ہے اور اب یہ اپنی باری پر کھائے جا رہے ہیں۔" متوکل یہ سن کر رونے لگا اور امام سے پوچھا کہ کوئی قرض ہے تو بتائیں، امام نے اسے رقم بتائی، جو متوکل نے ادا کی اور امام چلے گئے۔

امام علی نقی علیہ السلام کی زندگی اور آثار کے حوالے سے متعدد مقالات اور کتب تحریر کی گئی ہیں، تاہم افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ سب کام فارسی یا عربی زبان میں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام ائمہ اہل بیت کی زندگیوں کے حالات پر تحقیقی کتب تحریر کی جائیں، تاکہ وہ مسائل جن کا سامنا ائمہ اہل بیت کو عوام کے سبب کرنا پڑا، آخری امام کو ان کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ امام علی نقی علیہ السلام نے اپنی زندگی میں غالیوں، نصیریوں اور دیگر کلامی منحرفین کے خلاف قیام کیا، تاہم بارہ سو برس گزرنے کے باوجود آج بھی ہم بحیثیت قوم انہی مسائل سے دوچار ہیں۔ یہ سب ائمہ اہل بیت کی زندگیوں کے حالات سے عدم آگاہی کے سبب ہے۔ خداوند کریم ہمارے اہل علم جوانوں کو توفیق عطا فرمائے کہ وہ ائمہ کے بارے تحریر کی جانے والی تحقیقی کتب کو اردو جاننے والے قارئین کے لیے ترجمہ کریں، تاکہ ہمارے جوان اس وقت کے حالات کو سمجھ سکیں اور ائمہ کی بہتر معرفت حاصل کرسکیں۔
خبر کا کوڈ : 1038300
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش