QR CodeQR Code

شام میں بھوک و افلاس کا ذمہ دار کون؟

29 Jan 2023 18:18

اسلام ٹائمز: اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کا دنیا کے دوسرے بحرانوں کی طرح بھوک اور افلاس کے بحران میں بھی عالمی طاقتوں بالخصوص امریکہ کا کردار سب سے زیادہ نمایاں ہے۔ آج اگر اقوام متحدہ کیطرف سے شام میں بھوک افلاس کا انتباہ دیا جا رہا ہے تو اس میں بھی امریکہ اور اسکے حواری ملکوں کا نمایاں کردار ہے، اگر امریکہ اور اسکے علاقائی اتحادی شام میں دہشتگردوں کی حمایت اور انہیں شام لانے میں سہولتکار کا کردار ادا نہ کرتے تو یقیناً آج شام کی یہ صورتحال نہ ہوتی۔


تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام نے اعلان کیا ہے کہ شام میں بھوک و افلاس غیر معمولی سطح پر پہنچ گئی ہے۔ شام میں 2011ء میں عوامی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا، جو شامی حکومت کی مخالفت کرنے والے علاقائی مداخلت کار کھلاڑیوں کی مداخلت اور دہشت گرد گروہوں کی حمایت کرنے والے ممالک کی وجہ سے ایک دہشت گردی کی جنگ میں بدل گیا۔ اگرچہ اس کی شدت میں کمی آئی ہے، لیکن اس جنگ نے شام کے لیے بہت سے انسانی بحران پیدا کر دیئے ہیں۔ شام میں سب سے اہم انسانی بحرانوں میں سے ایک قحط و بھوک مری کا واقع ہونا ہے۔ اقوام متحدہ کی طرف سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق 12 ملین شامی یہ نہیں جانتے کہ ان کا اگلا کھانا کہاں سے ملے گا۔ 2.9 ملین افراد شدید بھوک کے خطرے سے دوچار ہیں اور شام خوراک کی عدم تحفظ کے حوالے سے دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے۔ یہ صورتحال شام میں زندگی کے قدرتی ڈھانچے کی تباہی کے نتیجے میں پیدا ہوئی۔

جنگ اور انفراسٹرکچر کی تباہی کی وجہ سے ہزاروں شامی لوگ اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، لاکھوں لوگ ملک کے اندر اور باہر بے گھر ہوئے۔ بے گھر ہونا شامی عوام میں بھوک پھیلانے کا ایک اہم عنصر بن گیا ہے۔ اس کے علاوہ دہشت گردوں کی طرف سے پیدا کی گئی دہشت کی فضا سے پیدا ہونے والے وسیع پیمانے پر عدم تحفظ نے بھی شام میں بھوک اور خوراک کے بحران کی بنیاد فراہم کی ہے۔ 2011ء کی جنگ سے پہلے، شام مغربی ایشیائی خطے میں زرعی مصنوعات کے سب سے اہم پروڈیوسر میں سے ایک تھا اور ملک کی 40% آبادی زراعت یا مویشی پالنے کا کام کرتی تھی، لیکن جنگ کے نتیجے میں زرعی زمین تباہ ہوگئی، زراعت کا امکان ختم ہوگیا اور اس ملک میں قحط پھیل گیا۔ اس کے علاوہ، جنگ کے نتیجے میں دہشت گردوں کے ذریعے جانوروں کے پالنے کا سامان اور خدمات یا تو تباہ کر دی گئیں یا چوری کر لی گئیں۔

FAO جیسے عالمی اداروں کی 2013ء کی رپورٹ کے مطابق بہت سے مویشی پالنے والے شامی شہری مویشیوں کی ویکسین کی شدید کمی کی وجہ سے اپنے مویشیوں کا کچھ حصہ چھوڑنے یا پڑوسی ممالک میں منتقل ہونے پر مجبور ہوئے۔ ان حالات کے علاوہ شام میں اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں بھی گذشتہ تین سالوں میں 12 گنا اضافہ ہوا ہے، جبکہ دوسری طرف اس ملک کے عوام کی آمدنی انتہائی کم سطح پر آگئی ہے۔ جنگ اور مغربی پابندیوں کی وجہ سے لوگوں کی خوراک خریدنے کی صلاحیت بھی کمزور پڑگئی ہے۔ ادھر شام مسلسل امریکی پابندیوں کا شکار ہے اور درحقیقت یہ پابندیاں بھی اس ملک میں بھوک کے پھیلاؤ کی ایک وجہ ہیں۔ دہشت گردوں کے ساتھ شام کی جنگ کے دوران، واشنگٹن اور یورپی ممالک نے دہشت گرد گروہوں کی حمایت کے مقصد سے اس ملک پر ظالمانہ اور ہدفی پابندیوں کی شکل میں دباؤ ڈالا، جس کا نتیجہ شامی عوام کی بھوک اور غذائی قلت میں شدت کی صورت میں ظاہر ہوا۔

اہم  اور پریشان کن نکتہ یہ ہے کہ خواتین اور بچے بھوک کے بحران کا زیادہ شکار ہیں۔ اس کے باوجود انسانی حقوق کا دعویٰ کرنے والے ممالک شام کے خلاف پابندیاں ختم کرنے پر آمادہ نہیں ہیں، جس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ انسانی حقوق ان ممالک کی خارجہ پالیسی میں مختلف مخالف ممالک پر دباؤ ڈالنے کا صرف ایک آلہ اور ہتھیار ہیں۔ دنیا میں بھوک کے لحاظ سے سب سے زیادہ برا حال جنگ زدہ ممالک یمن، جنوبی سوڈان اور شمالی نائیجیریا میں ہے۔ بدترین بحرانی کیفیت افریقی ممالک میں ہے، تاہم اقوام متحدہ کے ادارے ’’ہنگر ہاٹ اسپاٹ‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق ’’افغانستان، شام، لبنان اور ہیٹی میں بھی شدید بھوک میں مزید اضافے کا خدشہ ہے، جبکہ ایسے انتہائی خطرے سے دوچار علاقوں میں اہداف بنا کر انسانی اقدامات کی ضرورت ہے، تاکہ ان انتہائی کمزور برادریوں کو بچایا جا سکے۔‘‘

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ دنیا بھر میں سیاسی و سماجی تنازعات، کورونا وباء اور موسمیاتی تبدیلیوں کے تباہ کن اثرات مرتب ہو رہے ہیں، لاکھوں انسانوں کا خوراک سے محروم ہو جانا بھی انہی تبدیلیوں کا نتیجہ ہوگا۔ اقوام متحدہ کے اداروں ’’ورلڈ فوڈ پروگرام‘‘ اور ’’فوڈ اینڈ ایگری کلچر آرگنائزیشن‘‘ نے اپنی اس رپورٹ میں بتایا کہ عالمی سطح پر تین کروڑ چالیس لاکھ افراد پہلے ہی انتہائی غذائی قلت کا شکار ہیں، یعنی کہ وہ بھوک کی وجہ سے موت کے قریب ہیں۔ ان بدنصیب لوگوں کی تعداد میں لاکھوں افراد کا اضافہ ہونے کا خدشہ ہے۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیا کہ دنیا کے بیس سے زائد ممالک میں ’’شدید بھوک‘‘ میں خطرناک حد تک اضافہ ہوسکتا ہے۔

اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کا دنیا کے دوسرے بحرانوں کی طرح بھوک اور افلاس کے بحران میں بھی عالمی طاقتیں بالخصوص امریکہ کا کردار سب سے زیادہ نمایاں ہے۔ آج اگر اقوام متحدہ کی طرف سے شام میں بھوک افلاس کا انتباہ دیا جا رہا ہے تو اس میں بھی امریکہ اور اس کے حواری ملکوں کا نمایاں کردار ہے، اگر امریکہ اور اس کے علاقائی اتحادی شام میں دہشتگردوں کی حمایت اور انہیں شام لانے میں سہولت کار کا کردار ادا نہ کرتے تو یقیناً آج شام کی یہ صورت حال نہ ہوتی۔


خبر کا کوڈ: 1038424

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/1038424/شام-میں-بھوک-افلاس-کا-ذمہ-دار-کون

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org