QR CodeQR Code

امریکی ریاستیں اور عوامی مظاہروں میں شدت

29 Jan 2023 21:30

اسلام ٹائمز: حالیہ برسوں میں "بلیک لائیوز میٹر موومنٹ" امریکی سیاسی اور سماجی میدان میں ایک بڑی تحریک بن کر سامنے آئی ہے۔ وہ احتجاج جو اکثر پولیس کی بربریت کیخلاف شروع ہوتے ہیں، ان میں امریکی سیاسی، معاشی اور قانونی ڈھانچے میں منظم نسل پرستی پر تنقید ہوتی ہے۔ 2015ء میں، بالٹی مور میں پولیس کی حراست میں فریڈی گرے کی موت کے بعد اسکی آخری رسومات کے بعد پرتشدد مظاہرے ہوئے۔ امریکی ماہرین اور تجزیہ کاروں کے نقطہ نظر سے حالیہ برسوں میں سیاہ فاموں کے بڑھتے ہوئے احتجاج 1968ء کے ماحول اور واقعات کی یاد تازہ کر رہے ہیں، جب مارٹن لوتھر کنگ کی قیادت میں سیاہ فام امریکہ میں نسل پرستی اور نسل پرستی کیخلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔


ترتیب و تنظیم: علی واحدی

اکثر امریکی ریاستوں میں پولیس کے بے دریغ تشدد اور پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں شہریوں کے قتل کے واقعے کو مسلسل دہرائے جانے کے خلاف مظاہرین سڑکوں پر آگئے ہیں اور انہوں نے اپنے مطالبات تسلیم ہونے تک ریلیاں جاری رکھنے پر اصرار کیا ہے۔ سات جنوری کو امریکی ریاست ٹینیسی کے شہر، میمفس میں پولیس افسران، ٹائر نکولس کی کار کو لاپرواہی سے ڈرائیونگ کرنے کے شک میں روکتے ہیں۔ جائے وقوعہ سے حاصل کی گئی ویڈیو میں کئی پولیس افسران کو، سیاہ فام نکولس کو  مرچ کے اسپرے، سٹین گنز، لاٹھیوں، گھونسوں اور لاتوں سے پرتشدد طریقے سے مارتے ہوئے گرفتار کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ اس کے بعد نکولس کو ان کے زخموں کی وجہ سے ہسپتال میں داخل کرایا گیا اور تین دن بعد اس کی موت ہوگئی۔ اس واقعے کے منظر عام پر آنے اور عوامی غم و غصے کو جنم دینے کے بعد میمفس کے پانچ پولیس افسران کو برطرف کر دیا گیا ہے اور انہیں سیکنڈ ڈگری قتل جیسے مجرمانہ الزامات کا سامنا ہے۔

یہ واقعہ مینیسوٹا کے مینی پولیس شہر میں ایک 46 سالہ افریقی نژاد امریکی شخص جارج فلائیڈ کے پولیس کے ہاتھوں قتل کے تقریباً تین سال بعد پیش آیا، جس نے امریکی پولیس کی بربریت اور نسل پرستی کے خلاف کئی مہینوں تک ملک گیر احتجاج کو جنم دیا۔ اب، میمفس پولیس کی جانب سے نکولس کے ساتھ وحشیانہ سلوک کی ویڈیوز، سوشل نیٹ ورکس اور ٹیلی ویژن پر عام ہیں۔ 1991ء میں لاس اینجلس پولیس کے ہاتھوں روڈنی کنگ کی وحشیانہ پٹائی، جو حملے میں بچ گئے  تھے، لیکن سال 2012ء میں موت کا شکار ہوگئے تھے، ان کی موت کا موجودہ واقعے سے موازنہ کیا جا رہا ہے۔

احتجاج کا دائرہ وسیع
جمعے سے امریکہ کی بیشتر ریاستوں میں ملک گیر مظاہرے شروع ہوگئے ہیں، جس کی وجہ سے بعض شہروں میں حکومت نیشنل گارڈ کو بلانے پر مجبور ہوگئی ہے۔ میمفس میں، جہاں نکولس کی موت ہوئی، مظاہرین کا ایک گروپ سڑکوں اور پل کو بلاک کرنے سے پہلے شہر کے ایک پارک میں جمع ہوا۔ انہوں نے "انصاف نہیں، امن نہیں" کے نعرے لگائے اور بعد میں تقریباً تین گھنٹے تک پل کو بلاک کیا۔ میمفس کے دوسرے حصوں میں، لوگ چرچوں یا چھوٹے گروپوں میں جمع ہوئے، تاکہ تقاریر کرکے سنجیدہ انداز سے احتجاج کریں اور اپنے غم و غصہ کا اظہار کریں۔ نیویارک میں، مظاہرین ٹائمز اسکوائر میں جمع ہوئے، جبکہ لاس اینجلس کے مرکز میں مظاہرین اس وقت مشتعل ہوگئے، جب مظاہرین کا ایک چھوٹا گروپ لاس اینجلس کے پولیس ہیڈ کوارٹر کے سامنے جمع ہوا، پولیس نے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا شدید استعمال کیا، جس کے نتیجے میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔
 

دیگر پرامن مظاہرے واشنگٹن ڈی سی، سیٹل، ڈیٹرائٹ اور اٹلانٹا کے علاوہ کئی دوسرے شہروں میں بھی ہوئے۔ شکاگو میں، سرد موسم کے باوجود، مظاہرین  الینوائے شہر کے ایک پولیس اسٹیشن کے قریب جمع ہوئے،  وہ نعرے لگا رہے تھے  "میمفس سے شکاگو تک، ان قاتل پولیس والوں کو ہٹ جانا چاہیئے۔" مظاہرین کے ہاتھوں میں کتبے تھے، جن پر لکھا تھا ۔ "Tyree Nichols کو انصاف دو" اور "پولیس کے قتل کا خاتمہ کرو۔" ڈیلاس، ٹیکساس میں ایک ریلی میں، نیکسٹ جنریشن ایکشن نیٹ ورک کے بانی ڈومینک الیگزینڈر نے نکولس کی موت کو "زندگی اور انسانیت کی مکمل توہین" قرار دیا۔ الیگزینڈر نے کہا، "پولیس کلچر ہی ان افسران کو ایسا بنا دیتا ہے کہ وہ ہماری جان لے سکتے ہیں۔" ہم امن اور سکون چاہتے ہیں اور انصاف کے حصول کے لیے جو کچھ بھی کرنا پڑے گا، وہ کریں گے، تاکہ ہمارے بچوں کو ان غنڈوں کا سامنا نہ کرنا پڑے، جن سے ہم اس وقت نمٹ رہے ہیں۔
 
 ڈیٹرائٹ، مشی گن میں، لوگوں نے بینرز اور کتبے اٹھا رکھے تھے، جن پر لکھا تھا: "پولیس کے قتل کے خلاف یونینز کا اتحاد" اور "نسل پرست پولیس کے نظام اور تشدد کا خاتمہ ہونا چاہیئے۔" اگرچہ امریکی صدر جو بائیڈن نے نکولس کے ساتھ پولیس مقابلے کی ویڈیو کو خوفناک قرار دے کر عوام کے غصے کو کم کرنے کی کوشش کی، لیکن بائیڈن کی اس تقریر کے بعد، جس میں مظاہرین سے کہا گیا کہ "تشدد یا تباہی کا راستہ اختیار نہ کریں"، لوگوں نے وائٹ ہاؤس کے باہر احتجاج کیا۔ زیادہ تر ریاستوں میں مقامی اور وفاقی حکام آنے والے دنوں میں بڑے عوامی مظاہروں کا سامنا کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ جارجیا کے گورنر برائن کیمپ نے اس ہفتے ہنگامی حالت کا اعلان کیا اور احتجاج کو روکنے کے لیے نیشنل گارڈ کے ارکان کو اٹلانٹا بلایا ہے۔

 جمعہ کو بھی، وائٹ ہاؤس کے حکام نے لاس اینجلس، فلاڈیلفیا اور شکاگو  سمیت ایک درجن سے زیادہ بڑے شہروں کے میئروں سے بات کی اور انہیں وفاقی امداد پر قائل کرنے کی کوشش کی۔ دوسری طرف منتظمین اس ہفتے کے آخر میں امریکہ بھر میں مارچ اور مظاہروں کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ سیاہ اور رنگین فاموں کے خلاف امریکی پولیس کے منظم تشدد کو ثابت کرنے والے اعداد و شمار حیران کن ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ کے جاری تجزیئے کے مطابق امریکی پولیس نے گذشتہ 6 سالوں میں سالانہ ایک ہزار سے زائد افراد کو گولی مار کر ہلاک کیا ہے۔ یہ اعداد و شمار تحقیق کے بعد یہ ظاہر کرتے ہیں کہ شہریوں پر پولیس فائرنگ کی اصل تعداد رپورٹ کیے گئے واقعات سے کہیں زیادہ ہے۔ 2014ء میں فرگوسن میں پولیس کے ہاتھوں ایک غیر مسلح سیاہ فام شخص مائیکل براؤن کے مارے جانے کے بعد، تحقیقات سے پتا چلا کہ پولیس کے ہاتھوں ہلاکتوں میں سے نصف سے بھی کم کی اطلاع ایف بی آئی کو دی گئی۔

حالیہ برسوں میں ان غلط اعداد و شمار میں اضافہ ہوا ہے، اسی طرح 2021ء تک ایف بی آئی کے ڈیٹا بیس میں صرف ایک تہائی ہلاکتیں ریکارڈ کی جا سکیں۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ مقامی پولیس کے محکموں کو وفاقی حکومت کو ان واقعات کی اطلاع دینی ضروری نہیں ہے۔ یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ مہلک پولیس فائرنگ کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، اس لیے 2022ء کا سال امریکی پولیس کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے افراد کے لحاظ سے سب سے مہلک سال تھا۔ دریں اثناء، ایسے واقعات کے دہرائے جانے کے باوجود، امریکی حکام ہمیشہ عوامی غصے کو کم کرنے کے لیے مظاہروں کے دوران پولیس کے کام پر کنٹرول اور نگرانی بڑھانے کا وعدہ کرتے ہیں، لیکن ان وعدوں پر عمل درآمد کرنے میں اعداد و شمار ان کی نااہلی کو ثابت کرتے ہیں۔

اگرچہ پولیس کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے تمام افراد میں سے نصف سفید فام ہیں، لیکن اس بات پر غور کرتے ہوئے کہ سیاہ فام امریکی اقلیت ہیں، سیاہ فاموں کے مارے جانے کی تعداد اس نسبت سے بہت زیادہ ہے۔ سیاہ فام امریکی آبادی کا تقریباً 14 فیصد ہیں اور سفید فام امریکیوں کے مقابلے میں دوگنا سے زیادہ پولیس کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں۔ ہسپانوی امریکی بھی بڑی تعداد میں پولیس کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں۔ میپنگ پولیس وائلنس کے مطابق، گذشتہ سال ریاستہائے متحدہ امریکہ میں پولیس نے 1,186 افراد کو ہلاک کیا۔ 2022ء میں پولیس کے ہاتھوں مارے جانے والوں میں افریقی امریکی 26 فیصد تھے، حالانکہ یہ آبادی کا صرف 13 فیصد ہیں۔

امریکی سیاہ فام تحریک کی بنیاد پرستی
حالیہ برسوں میں، بلیک لائیوز میٹر موومنٹ امریکی سیاسی اور سماجی میدان میں ایک بڑی تحریک بن کر سامنے آئی ہے۔ وہ احتجاج جو اکثر پولیس کی بربریت کے خلاف شروع ہوتے ہیں، ان میں امریکی سیاسی، معاشی اور قانونی ڈھانچے میں منظم نسل پرستی پر تنقید ہوتی ہے۔ 2015ء میں، بالٹی مور میں پولیس کی حراست میں فریڈی گرے کی موت کے بعد اس کی آخری رسومات کے بعد پرتشدد مظاہرے ہوئے۔ امریکی ماہرین اور تجزیہ کاروں کے نقطہ نظر سے حالیہ برسوں میں سیاہ فاموں کے بڑھتے ہوئے احتجاج 1968ء کے ماحول اور واقعات کی یاد تازہ کر رہے ہیں، جب مارٹن لوتھر کنگ کی قیادت میں سیاہ فام امریکہ میں نسل پرستی اور نسل پرستی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔

 آج سیاہ فام، امریکی سفید فاموں سے زیادہ معاشی طور پر پسماندہ ہیں۔ جیسا کہ 1968ء میں صورت حال تھی، آج بہت سے لوگ نسلی تعصب محسوس کرتے ہیں اور یہ تعصب پولیس کے ہاتھوں سیاہ فاموں کے قتل میں ظاہر ہوتا ہے۔ 4 اپریل 1968ء کو مارٹن لوتھر کنگ کے قتل کے بعد، تقریباً 110 امریکی شہروں کو سڑکوں پر سب سے بڑے فسادات کا سامنا کرنا پڑا، خاص طور پر بالٹی مور، واشنگٹن، کنساس سٹی اور شکاگو؛ ڈیٹرائٹ میں فسادات ہوئے، جس میں 43 افراد ہلاک ہوئے اور حکومت صرف 82 ویں اور 101 ویں ایئر بورن ڈویژن کی مدد سے صورتحال پر قابو پانے میں کامیاب ہوئی۔ پرتشدد مظاہروں کی ایک اور لہر 1992ء میں ان پولیس افسران کی رہائی کے بعد ہوئی، جنہوں نے روڈنی کنگ کی گرفتاری کے دوران ضرورت سے زیادہ طاقت کا استعمال کیا تھا۔


خبر کا کوڈ: 1038448

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/1038448/امریکی-ریاستیں-اور-عوامی-مظاہروں-میں-شدت

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org