QR CodeQR Code

دہشت گرد کون؟

29 Jan 2023 23:26

اسلام ٹائمز: دہشت گردی سے جنگ کا دعویدار امریکہ، دہشت گردی کے خلاف نبرد آزما حقیقی ہیرو یعنی جنرل قاسم سلیمانی کو شہید کر دیتا ہے اور عالمی امن اور سلامتی کی حمایت کا دعوی کرنے والے یورپی ممالک دہشت گردی کے خلاف مصروف سپاہ پاسداران کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کرتے ہیں۔ کیوں؟ مغرب کے محققین اور دنیا میں امن، سلامتی اور استحکام کے حقیقی طالبین کو اس بنیادی سوال کا جواب دینا چاہئے کہ کیوں امریکہ اور یورپی یونین، داعش جیسے تکفیری دہشت گرد گروہ کے خلاف شجاعانہ اقدامات انجام دینے کے باوجود سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کو دہشت گرد تنظیم کے طور پر پیش کرتے ہیں؟ کیا اس کے علاوہ اس سوال کا کوئی جواب ہے کہ امریکی اور یورپی حکمران اپنے دعووں کے برعکس، خود دہشت گرد حکومتیں ہیں اور منافقین، کوملہ، ڈیموکریٹ اور داعش جیسے دہشت گرد گروہوں کے اصل حامی ہیں؟


تحریر: یداللہ جوانی
 
یورپی یونین کی پارلیمنٹ نے حال ہی میں ایک دشمنانہ اور نامعقول اقدام انجام دیتے ہوئے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ایران کا نام دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں ڈال دینے کی پیشکش پر مبنی بل کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ ساتھ ہی اسلامی جمہوریہ ایران کے اس سرکاری ادارے کے خلاف شدید پروپیگنڈہ بھی شروع کر دیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گرد تنظیموں اور گروہوں کے خلاف جنگ ضروری ہے کیونکہ دہشت گردی ایک خطرناک عمل ہے جو دنیا کی مختلف اقوام اور خودمختار اور عوامی حکومتوں کی سلامتی، استحکام اور امن و امان کو نقصان پہنچاتا ہے۔ لیکن بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دہشت گرد کون ہیں اور دہشت گرد تنظیمیں اور گروہ کون سے ہیں اور کون سی حکومتیں اور ممالک گذشتہ چند عشروں سے دہشت گردی اور دہشت گردوں کی حمایت کرتے چلے آ رہے ہیں؟
 
دہشت گردی کو پہچاننے کا معیار کیا ہے اور ایک تنظیم یا گروہ کو کیونکر دہشت گرد قرار دیا جا سکتا ہے؟ کچھ عرصہ قبل امریکی حکومت نے اور حال ہی میں یورپی یونین کی پارلیمنٹ نے سپاہ پاسداران کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں ڈالنے کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ ان کے اس اقدام کا کیا معیار ہے؟ کیا بین الاقوامی قانون کی روشنی میں اس قسم کے اقدامات قابل قبول ہیں اور عالمی امن اور سلامتی کو فروغ دینے میں مددگار ہیں؟ یا ایسی خطرناک بدعت ہیں جن کے عالمی امن اور سلامتی، خاص طور پر مغربی ایشیا جیسے اسٹریٹجک خطے کیلئے زیادہ خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں؟ یقیناً بین الاقوامی قوانین اور مقررات کی روشنی میں نہ ہی امریکہ اور نہ ہی یورپی یونین کی پارلیمنٹ، دہشت گرد تنظیموں کو متعارف کروانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اقوام متحدہ کے منشور کی شق 39 کے مطابق کسی تنظیم یا گروہ کو دہشت گرد قرار دینے کا اختیار سلامتی کونسل کو حاصل ہے۔
 
اسی طرح اقوام متحدہ کے منشور کی شق 2 کے ساتویں حصے کی رو سے رکن حکومتوں کی جانب سے یکطرفہ طور پر کسی تنظیم یا گروہ کو دہشت گرد قرار دیے جانے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ ہم دہشت گردی کی جو بھی تعریف کر لیں، اسلامی انقلاب کے نتیجے میں تشکیل پانے والی سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی اس کے زمرے میں نہیں آتی۔ وہ ایسا انقلاب جو سو فیصد عوامی تھا اور سپاہ پاسداران کو ایران کے آئین میں ملک کے دفاعی ادارے کی حیثیت دی گئی ہے۔ دوسری طرف منافقین کی تنظیم (مجاہدین خلق) ہے جس نے نئے تشکیل پانے والے ایرانی نظام اور ایرانی قوم کے خلاف مسلحانہ کاروائیاں شروع کر دیں اور تقریباً 17 ہزار بیگناہ انسانوں کا قتل عام کیا۔ یہ تنظیم یقیناً ایک دہشت گرد تنظیم ہے۔ دیگر گروہ جیسے کوملہ اور ڈیموکریٹ ہیں جنہوں نے علیحدگی پسندی کی تحریک چلائی اور اس دوران کردستان میں بے شمار شہریوں کی ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں کے ذریعے جان لی۔ یہ بھی دہشت گرد گروہ ہیں۔
 
گذشتہ چند سالوں کے دوران خطے میں داعش جیسے خطرناک دہشت گرد گروہ تشکیل پائے جنہوں نے پوری دنیا کا امن و امان خطرے میں ڈال دیا لہذا کوئی بھی داعش جیسے گروہ کا دہشت گرد ہونے میں شک نہیں کرتا۔ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ایران نے گذشتہ 43 سال کے دوران ہمیشہ خطرناک قسم کے دہشت گرد گروہوں جیسے منافقین، کوملہ، ڈیموکریٹ اور داعش کے خلاف جنگ کی ہے۔ امریکہ اور یورپی یونین ان دہشت گرد گروہوں کے بارے میں کیا موقف رکھتے ہیں؟ اگر سپاہ پاسداران، قدس فورس اور شہید قاسم سلیمانی نے اپنے شجاعانہ اقدامات کے ذریعے تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کا خاتمہ نہ کر دیا ہوتا تو خطے اور دنیا کے امن اور سلامتی کی موجودہ صورتحال کیا ہوتی؟ جی ہاں، سپاہ پاسداران حقیقی معنوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کا علمبردار رہی ہے اور اس جنگ میں بڑی تعداد میں شہداء بھی دے چکی ہے۔
 
دوسری طرف دہشت گردی سے جنگ کا دعویدار امریکہ، دہشت گردی کے خلاف نبرد آزما حقیقی ہیرو یعنی جنرل قاسم سلیمانی کو شہید کر دیتا ہے اور عالمی امن اور سلامتی کی حمایت کا دعوی کرنے والے یورپی ممالک دہشت گردی کے خلاف مصروف سپاہ پاسداران کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کرتے ہیں۔ کیوں؟ مغرب کے محققین اور دنیا میں امن، سلامتی اور استحکام کے حقیقی طالبین کو اس بنیادی سوال کا جواب دینا چاہئے کہ کیوں امریکہ اور یورپی یونین، داعش جیسے تکفیری دہشت گرد گروہ کے خلاف شجاعانہ اقدامات انجام دینے کے باوجود سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کو دہشت گرد تنظیم کے طور پر پیش کرتے ہیں؟ کیا اس کے علاوہ اس سوال کا کوئی جواب ہے کہ امریکی اور یورپی حکمران اپنے دعووں کے برعکس، خود دہشت گرد حکومتیں ہیں اور منافقین، کوملہ، ڈیموکریٹ اور داعش جیسے دہشت گرد گروہوں کے اصل حامی ہیں؟
 
یورپی حکومتیں اگر حقیقت پسند ہیں تو انہیں ماضی سے عبرت حاصل کرنی چاہئے اور اپنے عوام کے مفادات کو مزید امریکہ، غاصب صیہونی رژیم اور دہشت گردوں کا ساتھ دینے میں قربان نہیں کرنا چاہئے۔ البتہ یہ حقیقت بھی واضح ہے کہ امریکہ اور یورپ کی مشترکہ پریشانی مغربی تہذیب و تمدن کا زوال اور عالمی سطح پر طاقت کا توازن مغربی ایشیا کی جانب منتقل ہونا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تیسرے ہزارے کیلئے امریکہ کا یونی پولر ورلڈ آرڈر تشکیل دینے کا منصوبہ مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے۔ اس منصوبے میں یورپ بھی مکمل طور پر امریکہ کے ساتھ شامل تھا۔ وہ خیال کر رہے تھے کہ امریکہ اگلے سو سال کیلئے دنیا کی قیادت اپنے ہاتھ میں لے لے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا اور یہ منصوبہ پوری طرح شکست کھا چکا ہے۔ لہذا یورپی ممالک بھی مستقبل کے بارے میں شدید پریشان ہیں۔


خبر کا کوڈ: 1038451

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/1038451/دہشت-گرد-کون

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org