QR CodeQR Code

ایران سعودی مذاکرات، ایک جائزہ

31 Jan 2023 21:36

اسلام ٹائمز: مغربی حکام بارہا کہہ چکے ہیں کہ ایران کی مدد کے بغیر خطے میں معاملات کو حل کرنا ممکن نہیں ہے اور اگر سعودیوں میں ان بحرانوں سے نکلنے کا ارادہ ہے تو انہیں ایران کیساتھ معاہدہ کرنا چاہیئے اور ایران کو خطے کی اہم طاقت کے طور پر تسلیم کرنا چاہیئے۔ ایرانی اور سعودی حکام کیجانب سے مذاکرات جاری رکھنے اور سیاسی اور سکیورٹی مسائل کے حل کی کوششوں پر غور کرنے سے ایسا لگتا ہے کہ چھٹا دور، جو ممکنہ طور پر عراق میں آئندہ ہفتوں میں وزارت خارجہ کی سطح پر ہوگا، جو اس میدان میں ایک بنیادی تبدیلی کا باعث بن سکتا ہے۔


ترتیب و تنظیم: علی واحدی

ایران اور سعودی عرب کے درمیان اپریل 2021ء میں عراق میں مذاکرات کا آغاز ہوا تھا اور اس دوران دونوں ممالک کے نمائندوں نے کشیدگی کے خاتمے اور سفارتی تعلقات کی بحالی کے لیے ابھی تک ایک دوسرے کے ساتھ مذاکرات کے پانچ دور انجام دیئے ہیں۔ گو کہ سعودی فریق کی جانب سے بعض رکاوٹوں کی وجہ سے مئی 2022ء سے مذاکرات روک دیئے گئے تھے، لیکن شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ حالیہ ہفتوں میں اس میدان میں پیشرفت ہوئی ہے اور مذاکرات کا چھٹا دور جلد ہی دوبارہ شروع ہوگا۔ عراقی وزیر خارجہ فواد حسین نے کہا کہ سعودی وزیر خارجہ تہران اور ریاض کے درمیان مذاکرات کی بحالی پر بات چیت کے لیے جلد ہی عراق کا دورہ کریں گے۔ دوسری جانب ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے اپنے قطری ہم منصب کے ساتھ ایک پریس کانفرنس میں سعودی عرب کے ساتھ مذاکرات میں پیشرفت کا اعلان کیا اور کہا: "اب تک تہران اور ریاض کے درمیان عراق کے ذریعے بات چیت اور پیغامات کا تبادلہ ہوتا رہا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کے چند دور ہوچکے ہیں اور دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت کا نیا دور شروع ہونے والا ہے، جس پر اتفاق کیا گیا ہے۔

تہران اور ریاض کے درمیان مذاکرات کے نئے دور کا انعقاد ایسے عالم میں شروع ہو رہا ہے کہ گذشتہ پانچ دوروں میں جو ایک سال تک جاری رہے، مختلف دوطرفہ اور علاقائی مسائل پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ گذشتہ سال اپریل میں مذاکرات کے پہلے دور میں سعودی وفد 6 افراد پر مشتمل تھا، جس میں سعودی ولی عہد کے اعلیٰ سطح کے سلامتی کے مشیر اور سعودی عرب کی انٹیلی جنس آرگنائزیشن کے سربراہ خالد بن علی الحمیدان موجود تھے۔ ان مذاکرات میں 5 رکنی ایرانی وفد کی سربراہی اعلیٰ حکومتی عہدیدار اور پاسداران انقلاب کے نمائندوں نے کی۔ قدس فورس اور وزارت خارجہ کے نمائندے بھی اس میں موجود تھے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق مذاکرات کا ماحول مثبت اور توقعات سے بڑھ کر رہا اور ان مذاکرات میں دو طرفہ اور علاقائی امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

دونوں ممالک کے نمائندوں کے درمیان مذاکرات کے پہلے سے تیسرے دور کے بارے میں دونوں فریقین کے حکام کی جانب سے کچھ منظر عام پر نہیں لایا گیا۔ البتہ بعض ذرائع ابلاغ نے باخبر ذرائع کے حوالے سے ان مذاکرات کے عمل کے بارے میں تفصیلات بتائیں۔ ایران اور سعودی عرب کوشش کر رہے ہیں کہ ان مذاکرات کی تفصیلات اس وقت تک منظر عام پر نہ لائیں، جب تک کہ وہ سیاسی اور سکیورٹی اختلافات کو دور کرنے کے لیے کسی بنیادی حل تک نہ پہنچ جائیں۔ دوسرا دور پہلے دور کے ایک ہفتے بعد منعقد ہوا اور مذاکرات کے اختتام کے بعد عراقی حکام نے اس کی تائید کی۔ تیسرا دور، جیسا کہ عراقی ذرائع کے مطابق، اگست 2021ء میں منعقد ہوا اور دونوں ممالک کے درمیان حل نہ ہونے والے مسائل پر اس روڈ میپ کی بنیاد پر بات چیت کی گئی، جس پر پہلے اتفاق کیا گیا تھا، جس میں دونوں ممالک کے درمیان سفارتی نمائندگی کو دوبارہ فعال کرنا بھی شامل تھا۔

اسی وقت جب مذاکرات کا تیسرا دور منعقد ہوا، سعودی عرب کے شاہ سلمان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنی تقریر کے دوران اس امید کا اظہار کیا کہ ایران کے ساتھ مذاکرات کا تسلسل اعتماد سازی کی سمت میں ٹھوس نتائج کا باعث بنے گا۔ دونوں ممالک کے درمیان باہمی تعاون کے بارے میں اس وقت کے وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے بیان کیا تھا کہ گذشتہ چند مہینوں کے دوران تہران اور ریاض کے درمیان رابطے معمول پر آئے ہیں اور اس بات پر زور دیا کہ دو طرفہ امور پر اچھی بات چیت ہوئی ہے۔

چوتھا دور اور اہم موضوعات پر بات چیت
چوتھا دور، جس کی صحیح تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا، تاہم میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ بغداد میں دسمبر 2021ء میں منعقد ہوا اور اس بارے ایرانی حکام نے کچھ تفصیلات کا اعلان کیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مذاکرات کا عمل مثبت اور تعمیری تھا۔ چوتھے دور کے مذاکرات کے کچھ دیر بعد امیر عبداللہیان نے کہا کہ مذاکرات کے آخری دور میں ہم نے سعودی فریق کو عملی اور تعمیری تجاویز کا ایک سلسلہ پیش کیا اور دونوں ممالک کے وفود مستقبل قریب میں بغداد میں ملاقات کریں گے۔ وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ دونوں ممالک کے تکنیکی وفود سفارت خانوں کا دورہ کرنے کے لئے تیار ہیں اور سفارت خانے تعلقات کو معمول پر لانے کے انتظامات کے لیے تیار رہیں۔ امیر عبداللہیان کے مطابق چوتھے دور میں سعودی فریق کو عملی اور تعمیری تجاویز کا ایک پیکج پیش کیا گیا۔ ان مذاکرات کے انعقاد میں معمولی کامیابیاں بھی ملیں اور گذشتہ سال سعودی عرب نے تین ایرانی سفارت کاروں کو ویزے جاری کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی، جو جدہ میں اسلامی کانفرنس کی تنظیم میں بطور سفارت کار کام کرنے والے تھے۔

پانچویں راؤنڈ کا آغاز
پانچویں دور میں، جو کہ سیاسی اور سکیورٹی کے شعبوں میں پیش رفت کے ساتھ تھا، مذاکرات کے ماحول کی مزید تفصیلات منظر عام پر آئیں اور ایرانی حکام نے بھی اس مسئلے کا باضابطہ ذکر کیا۔ ایران اور سعودی عرب دونوں نے دو طرفہ مذاکرات کے جاری رہنے اور تعلقات میں بہتری کے ممکنہ امکانات کی امید کا اظہار کیا۔ مذاکرات کا پانچواں دور گذشتہ سال مارچ کے آخر میں ہونا تھا، لیکن اس اجلاس کے انعقاد سے قبل ہی ایران نے یکطرفہ طور پر مذاکرات کے اس دور کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا اور بعض لوگوں نے اسے سعودی عرب میں 80 شیعہ افراد کی پھانسی سے جوڑا ہے۔ عراق کی ثالثی سے اس سال مئی کے اوائل میں پانچواں دور منعقد ہوا، لیکن بعض بنیادی اختلافات کی وجہ سے سعودی فریق نے مذاکرات روک دیئے اور اب تک چھٹے دور کے انعقاد کی کوئی تاریخ طے نہیں کی گئی۔

مذاکرات کے پانچویں دور میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بحالی کے لیے ایک واضح ویژن سامنے آیا ہے۔ فریقین نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بحالی اور وزرائے خارجہ کی سطح پر مشترکہ اجلاس کے انعقاد کے امکان پر اتفاق کیا تھا۔ اس کے علاوہ باخبر ذرائع کے مطابق، خطے کے اکثر معاملات کا جائزہ لیا گیا اور اس کے علاوہ خطے اور خلیج فارس تعاون کونسل کے رکن ممالک کے درمیان دو طرفہ تعلقات اور سلامتی کے معاملات کا بھی جائزہ لیا گیا۔ پانچویں دور کے اختتام کے بعد عراقی وزیر خارجہ نے کہا کہ دونوں فریقین نے 10 شقوں پر مشتمل مفاہمت کی یادداشت پر اتفاق کیا ہے۔ فواد حسین نے اس بات پر زور دیا کہ سعودی عرب کے ساتھ ایران کے مذاکرات میں یمن میں جنگ بندی جاری رکھنے کا معاملہ بھی شامل ہے۔ اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ مذاکرات کا اگلا دور سفارتی سطح پر ہوگا۔ مذاکراتی عمل سے واقف ذرائع کے مطابق پانچویں دور میں ایران نے دارالحکومتوں میں سفارتخانے دوبارہ کھولنے کی تجویز پیش کی، تاہم سعودی فریق نے اس درخواست پر اتفاق نہیں کیا اور اس بات پر زور دیا کہ جب تک تمام معاملات پر اتفاق نہیں ہو جاتا، سفارت خانے بند رہیں گے۔

گذشتہ سال عراق میں دونوں ممالک کے حکام کے درمیان مذاکرات کے علاوہ مختلف سطحوں پر ایران اور سعودی عرب کے نمائندوں کے درمیان بات چیت ہوئی ہے اور میڈیا نے دسمبر 2021ء میں دعویٰ کیا تھا کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان اردن کے دارالحکومت میں سکیورٹی ماہرین کی ملاقات ہوئی اور فریقین نے علاقائی مسائل پر بالخصوص سلامتی اور علاقائی استحکام کو مضبوط بنانے پر تبادلہ خیال کیا۔ اس کے علاوہ، اسی وقت، امیر عبداللہیان نے پاکستان میں اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کے موقع پر اپنے سعودی ہم منصب فیصل بن فرحان سے ملاقات کی۔ حال ہی میں اردن کے دارالحکومت میں منعقدہ بغداد 2 کے حالیہ اجلاس میں دونوں ممالک کی وزارت خارجہ کے درمیان مختصر مذاکرات ہوئے اور امیر عبداللہیان نے کہا کہ اس ملاقات میں سعودی وزیر خارجہ نے ایران کے ساتھ مذاکرات جاری رکھنے کے لیے اپنے ملک کی تیاری پر اطمینان کا اظہار کیا۔

روشن افق
یہ کہتے ہوئے کہ مذاکراتی عمل درست سمت میں آگے بڑھ رہا ہے اور اس حوالے سے اگلا دور فیصلہ کن ثابت ہوسکتا ہے۔ ایرانی حکام نے بارہا کہا ہے کہ اگر سعودی فریق مذاکرات میں سنجیدہ ہو تو تمام مسائل پر افہام و تفہیم ممکن ہے، البتہ دونوں ممالک سیاسی مسائل کے علاوہ یمن اور لبنان سمیت علاقائی مسائل پر اختلاف رکھتے ہیں باہمی اتفاق تک پہنچنے کے لیے دونوں فریقوں کے درمیان دوطرفہ تعاون کی ضرورت ہے۔ سعودی عرب جو یمن میں خود ساختہ دلدل میں پھنسا ہوا ہے، اس بات کو اچھی طرح سمجھتا ہے کہ مذاکرات جتنے طویل ہوں گے، اس جنگ میں اس کے اخراجات اتنے ہی بڑھیں گے، کیونکہ تحریک انصار اللہ روز بروز مضبوط ہو رہی ہے اور صنعاء کی طرف سعودی عرب کا مخاصمانہ رویہ اور یمن کی غیر انسانی ناکہ بندی جاری رکھنے سے سعودی عرب کے مفادات کو شدید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔

پچھلے آٹھ سالوں میں سعودی حکام نے ہمیشہ ایران پر یمن کے معاملات میں مداخلت کا الزام لگایا ہے اور امریکہ کے ساتھ ملکر یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ ایران انصار اللہ کو ہتھیار بھیجتا ہے، البتہ اس دعوے کی اقوام متحدہ نے تصدیق نہیں کی ہے۔ لبنان کے بحران کے حوالے سے سعودی عرب نے مغرب کے تعاون سے لبنان کے خلاف مالی پابندیاں عائد کی ہیں، تاکہ ملک میں حزب اللہ اور ایران کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کیا جا سکے، جس کی وجہ سے گذشتہ تین سالوں میں لبنان کے معیشتی بحرانوں میں اضافہ ہوا ہے۔ مغربی حکام بارہا کہہ چکے ہیں کہ ایران کی مدد کے بغیر خطے میں معاملات کو حل کرنا ممکن نہیں ہے اور اگر سعودیوں میں ان بحرانوں سے نکلنے کا ارادہ ہے تو انہیں ایران کے ساتھ معاہدہ کرنا چاہیئے اور ایران کو خطے کی اہم طاقت کے طور پر تسلیم کرنا چاہیئے۔ ایرانی اور سعودی حکام کی جانب سے مذاکرات جاری رکھنے اور سیاسی اور سکیورٹی مسائل کے حل کی کوششوں پر غور کرنے سے ایسا لگتا ہے کہ چھٹا دور، جو ممکنہ طور پر عراق میں آئندہ ہفتوں میں وزارت خارجہ کی سطح پر ہوگا، جو اس میدان میں ایک بنیادی تبدیلی کا باعث بن سکتا ہے۔


خبر کا کوڈ: 1038889

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/1038889/ایران-سعودی-مذاکرات-ایک-جائزہ

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org