QR CodeQR Code

مغربی کنارہ، قدس شریف، جنین اور فلسطینی مجاہدین کی مسلسل کاروائیاں

2 Feb 2023 22:56

اسلام ٹائمز: مغربی کنارے میں صیہونی رژیم سے ٹکراو پیدا کرنے میں سب سے زیادہ کردار نابلس کا تھا۔ نابلس 85 مربع کلومیٹر رقبے پر مشتمل علاقہ ہے جس کی آبادی ڈیڑھ لاکھ ہے۔ یہ مغربی کنارے کا مرکز تصور کیا جاتا ہے۔ گذشتہ ہفتے جب مغربی کنارے کے شمال میں واقع جنین میں مسلح جھڑپیں شروع ہوئیں تو وہ فوراً نابلس تک آ پہنچیں۔ یوں یہ شہر غاصب صیہونی فورسز اور فلسطینی مجاہدین کے درمیان مسلح ٹکرا کا مرکز بن گیا۔ گذشتہ دو ماہ کے دوران مغربی کنارے میں فلسطینی مجاہدین اور صیہونی فورسز کے درمیان ٹکراو میں 31 فلسطینی شہید یو چکے ہیں جن میں سے 19 کا تعلق نابلس سے ہے۔ نابلس شمال میں جنین، مغرب میں قدس شریف، جنوب میں الخلیل کے ہمراہ پورے فلسطین کا 18 فیصد علاقہ ہے جو غاصب صیہونی رژیم کے خلاف آتش فشان بن چکا ہے۔


تحریر: ڈاکٹر سعداللہ زارعی
 
مقبوضہ بیت المقدس کے قصبے نبی یعقوب میں 21 سالہ فلسطینی نوجوان خیری اللقم کی فدائی کاروائی نے غاصب صیہونی رژیم کے ستون متزلزل کر ڈالے ہیں۔ خیری اللقم فتح کی ایک بٹالین میں شامل تھا۔ اس نے مقبوضہ بیت المقدس میں غاصب صیہونیوں کے خلاف کامیاب کاروائی کی جس میں کم از کم دس صیہونی ہلاک اور تقریباً 15 زخمی ہو گئے۔ اس کے ساتھ ہی مزاحمتی تنظیم حماس کی القسام بٹالینز نے پہلی بار غاصب صیہونی جنگی طیاروں کی جانب زمین سے ہوا میں مار کرنے والا میزائل فائر کیا۔ یوں غزہ میں اسلامی مزاحمت کے فضائی دفاعی نظام کو متعارف کروایا گیا۔ اسی طرح اسلامک جہاد نے غزہ کے قریب یہودی بستیوں پر چند راکٹ داغ کر جنین میں ایک اسپتال پر صیہونی فورسز کے وحشیانہ حملے کا جواب دیا۔ اس دوران تل ابیب، حیفا اور نقب میں ہزاروں صیہونی موجودہ حکومت کے خلاف احتجاج کرنے میں مصروف تھے۔ اس بارے میں چند اہم نکات درج ذیل ہیں:
 
1)۔ تنظیم آزادی فلسطین یا پی ایل او سے وابستہ فتح تنظیم کے ایک رکن مجاہد نے فدائی کاروائی انجام دی ہے۔ یاد رہے پی ایل او نے 1991ء کے اوسلو معاہدے اور 1993ء کے میڈریڈ معاہدے کی روشنی میں صرف مغربی کنارے میں پرامن موجودگی کا حق حاصل کیا تھا۔ اس تنظیم کے رکن کی جانب سے فدائی کاروائی انجام دینے سے ظاہر ہوتا ہے کہ فلسطین کے تمام جہادی گروہ ایک پیج پر آ چکے ہیں۔ شہید خیری اللقم کی کاروائی نے غاصب صیہونی رژیم اور یہودی بستیوں کو وسعت دینے پر مبنی اس کی پالیسی پر کاری ضرب لگانے کے علاوہ فتح تحریک اور صیہونی رژیم کے درمیان گذشتہ معاہدوں کو بھی باطل قرار دے دیا ہے۔ فلسطین اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس نے گذشتہ سال اعلان کیا تھا کہ وہ اگرچہ بنجمن نیتن یاہو کو امن کا خواہاں نہیں سمجھتے لیکن ان کے پاس اس سے تعاون کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔
 
البتہ محمود عباس نے بارہا اپنے عمل سے ثابت کیا ہے کہ بہت جلدی صیہونی رژیم سے سازباز پر تیار ہو جاتے ہیں جیسا کہ گذشتہ چند ہفتوں کے دوران دو اعلی سطحی امریکی عہدیداروں سے مذاکرات میں بھی انہوں نے متزلزل موقف اختیار کیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت میں محمود عباس نے اعتراض کے طور پر چھ ماہ تک فلسطین اتھارٹی اور غاصب صیہونی رژیم کے درمیان سکیورٹی تعلقات منقطع کر رکھے تھے۔ درحقیقت فلسطین اتھارٹی اور محمود عباس فلسطینیوں میں زیادہ محبوبیت کے حامل نہیں ہیں۔ حال ہی میں انجام پانے والے ایک سروے میں ان کی محبوبیت 10 فیصد سے بھی کم تھی۔ لہذا ان کا عمل فلسطینیوں پر زیادہ اثرانداز نہیں ہوتا۔ ابھی فتح تنظیم کے ہی ایک رکن کی جانب سے دس صیہونیوں کو ہلاک کرنے کے عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ محمود عباس خود اپنے افراد پر کنٹرول بھی کھو بیٹھے ہیں۔
 
2)۔ فلسطینی مجاہدین غاصب صیہونی رژیم سے فوجی ٹکراو میں وسعت لانے کی کوشش کر رہے تھے جبکہ صیہونی فوج فوجی ٹکراو میں وسعت لانے سے گریزاں تھی اور یہ انتہائی درجہ اہمیت کا حامل نکتہ ہے۔ غاصب صیہونی رژیم نے غزہ میں اسلامک جہاد کی جانب سے عسقلان پر کئی راکٹ فائر کئے جانے کے جواب میں صرف علامتی اقدامات انجام دیے۔ صیہونی جنگی طیارے جمعہ کی رات 12 گھنٹے تاخیر سے غزہ پر حملہ ور ہوئے اور المغازی کیمپ پر 15 راکٹ داغے لیکن انہوں نے یہ راکٹ ایسے داغے کہ کوئی فلسطینی شہری زخمی یا جاں بحق نہ ہو۔ لہذا اس میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ اس دوران مغربی کنارے، بیت المقدس اور جنین کے کئی علاقوں میں فلسطینی مجاہدین اور صیہونی فورسز میں شدید لڑائی جاری تھی۔ ان جھڑپوں میں بھی صیہونی فوج نے اس بات کا خاص خیال رکھا کہ کوئی فلسطینی شہید نہ ہونے پائے۔
 
3)۔ جنین، نابلس، قدس شریف اور الخلیل میں حالیہ جھڑپوں نے مغربی کنارے کی صورتحال واضح کر دی ہے۔ مغربی کنارے میں صیہونی رژیم سے ٹکراو پیدا کرنے میں سب سے زیادہ کردار نابلس کا تھا۔ نابلس 85 مربع کلومیٹر رقبے پر مشتمل علاقہ ہے جس کی آبادی ڈیڑھ لاکھ ہے۔ یہ مغربی کنارے کا مرکز تصور کیا جاتا ہے۔ گذشتہ ہفتے جب مغربی کنارے کے شمال میں واقع جنین میں مسلح جھڑپیں شروع ہوئیں تو وہ فوراً نابلس تک آ پہنچیں۔ یوں یہ شہر غاصب صیہونی فورسز اور فلسطینی مجاہدین کے درمیان مسلح ٹکرا کا مرکز بن گیا۔ گذشتہ دو ماہ کے دوران مغربی کنارے میں فلسطینی مجاہدین اور صیہونی فورسز کے درمیان ٹکراو میں 31 فلسطینی شہید یو چکے ہیں جن میں سے 19 کا تعلق نابلس سے ہے۔ نابلس شمال میں جنین، مغرب میں قدس شریف، جنوب میں الخلیل کے ہمراہ پورے فلسطین کا 18 فیصد علاقہ ہے جو غاصب صیہونی رژیم کے خلاف آتش فشان بن چکا ہے۔
 
خود اسرائیلی حکام اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ فوج کی نصف سے زیادہ تعداد اور تقریبا تمام کمانڈوز اس 18 فیصد علاقے میں تعینات ہیں۔ فطری امر ہے کہ غاصب صیہونی رژیم اس وقت فلسطین کے جنوبی، شمالی اور مرکزی علاقوں میں حالات کنٹرول سے باہر ہو جانے کے بارے میں شدید خوف و ہراس کا شکار ہے۔
4)۔ غاصب صیہونی رژیم اپنے بانی بن گوریون کے نظریے کی روشنی میں اپنی بقا کی خطر خود کو درپیش بحران خطے میں پھیلانے کے درپے ہے۔ جیسا کہ حال ہی میں ایران کے شہر اصفہان میں ایک دفاعی مرکز کو تخریب کاری کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس نظریے کی تاریخ بھی منسوخ ہو چکی ہے۔ اگر بن گوریون زندہ ہوتا تو تو نیتن یاہو اور بن گویر کو کہتا کہ ایسی فوج جو مغربی کنارے میں کافی حد تک اسلحہ سے محروم نوجوانوں پر غلبہ نہیں پاسکتی اس کیلئے باہر موجود خطرات کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔


خبر کا کوڈ: 1039217

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/1039217/مغربی-کنارہ-قدس-شریف-جنین-اور-فلسطینی-مجاہدین-کی-مسلسل-کاروائیاں

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org