0
Saturday 11 Feb 2023 13:24

عربی کلچر اور ہمارا کلچر

عربی کلچر اور ہمارا کلچر
تحریر: ڈاکٹر انصار مدنی

سرد راتوں میں اکثر موقع ملتا ہے کہ ہم برقی بیٹھکوں کا حصہ بنیں، اس عہد کے ماں باپ اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ ہمارے بچے ہماری زیرِ تربیت زندگی گزار رہے ہیں۔ شاید ان کی یہ غلط فہمی چند منٹوں میں دور ہوسکتی ہے، اگر وہ اپنی اولاد کی برقی بیٹھک کے دوستوں کا حسب نسب معلوم کریں تو کل ہی کی بات ہے کہ جب ہم نے اس قسم کی ایک برقی بیٹھک میں یہ لکھ دیا کہ "مرنے کے بعد والی زندگی‘‘۔ آپ اپنے آپ سے پوچھیں کہ آپ کا مونس و غم خوار کون ہوگا؟ جب لوگ آپ کے مرنے کے بعد آپ کا نرم و ملائم جسم مٹی، آگ یا کہیں اور تنہا چھوڑ کر چلے جائیں گے؟ اگر آپ یہ سوچتے ہوں گے کہ مرنے کے بعد کیسا خوف؟ کیسی تکلیف؟ تو پھر ذرا اس بات کی وجہ تو تلاش کریں کہ جب آپ نرم گرم بستر پر سوتے ہیں تو پھر آپ بذریعہ خواب جو تکلیف محسوس کرتے ہیں نہ وہ تکلیف آپ برابر میں سونے والے کو دکھا سکتے ہیں؟ اور نہ اس تکلیف کی شدت سے دوسرے کی آنکھ کھلتی ہے؟ نہ اس تکلیف سے آپ اپنی جان چھڑا سکتے ہیں؟۔

بلکل اسی طرح مرنے کے بعد آپ کو تکلیف ہوگی، اذیت ملے گی، افسوس ہوگا۔ اس بات کو یوں سمجھ لیجیے کہ جب آپ اس دنیا میں تمام جسمانی آسائشوں کے ہوتے ہوئے بھی اپنے آپ کو بذریعہ خواب انتہائی تکلیف دہ کیفیات سے گزرتے ہوئے محسوس کرتے ہیں بلکہ بعض اوقات ان تکلیف دہ کیفیات کی وجہ سے انسان کو ہاٹ اٹیک آتا ہے، یہ خواب درحقیقت ہمیں اس بات کا اشارہ دیتے ہیں کہ تمہارا قادر و قیوم پروردگار تمہیں بار بار مہلت دے رہا ہے اور مرنے کے بعد والی زندگی کے بارے میں سوچنے کا موقع بھی دے رہا ہے۔ اس لیے اہلِ خرد یہ کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد والی زندگی کو سمجھنے کے لئے یہ خواب مقدمہ ہیں۔ فَاعْتَبِـرُوْا يَآ اُولِى الْاَبْصَارِ۔ آگے سے جواب ملتا ہے کہ "ہم جینا چاہتے ہیں یہ عربی کلچر کی باتیں چھوڑ دیں" یعنی ہم اگر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے، مرنے کے بعد والی زندگی پر سوچنے، قیامت کے دن حساب کتاب دینے، جنت میں آسائشوں، جہنم میں پریشانیوں، مصیبتوں اور سزاؤں کا ذکر کریں تو ہمیں یہ کہہ کر روک دیا جاتا ہے کہ "یار بس کریں یہ عربی کلچر ہم پر مسلط نہ کریں ہم اپنے کلچر میں رہنا چاہتے ہیں"۔

اب سوال یہ بنتا ہے صاحب کہ آپ ہمیں ہمارا کلچر بتادیں۔ ہمارا کلچر کیا ہے؟ کیا ہم بت پرست ہیں؟ آتش پرست ہیں؟ گاؤ ماتا کے ماننے والے ہیں؟ زمین پرست ہیں؟ یا ان تمام پرستوں کے علاوہ بھی ہماری کوئی پہچان ہے؟ فی الحال اس طرف سے خاموشی ہے۔ اگر اس حوالے سے کوئی جواب سامنے آئے گا تو ہم جواب الجواب آپ کی خدمتِ عالیہ میں پیش کریں گے تاکہ آپ بھی اس حوالے سے یہ سوچیں کہ ہم کن چکروں میں پڑے ہوئے ہیں جبکہ دین بیزار، مذہب بیزار، خاندان بیزار، وطن بیزار، اخلاقیات بیزار، حفظ مراتب بیزار لوگ ہماری نسلوں کے لاشعور میں کس قسم کی ترجیحات ڈال رہے ہیں؟ اس حوالے سے آپ سے درخواست ہے کہ برائے مہربانی اپنی اولاد کے ذہنوں میں پنپنے والے سوالات کا جواب دینے کا ماحول پیدا کریں، آپ کی اولاد پہلے مرحلے میں آپ سے سوال و جواب کرے، آپ انہیں اپنا دوست بنائیں بصورتِ دیگر وہ اپنی کنفیوژن دور کرنے کے لئے برقی بیٹھکوں کا سہارا لے گی، ان کی زیرِ تربیت شخصیت سازی کے مراحل طے کرے گی اور آپ اس غلط فہمی کا شکار رہیں گے کہ میرا بیٹا، میری بیٹی اپنے ماں باپ کا مان، اعتماد کبھی نہیں توڑ سکتی۔ تمہیں کیا معلوم کہ وہ ان تمام باتوں کو دقیانوسی خیالات کا حامل سمجھتی ہے۔ فَاعْتَبِـرُوْا يَآ اُولِى الْاَبْصَارِ۔
خبر کا کوڈ : 1039393
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش