QR CodeQR Code

آل سعود کا اسٹریٹجک آپشن

5 Feb 2023 19:32

اسلام ٹائمز: سعودی عرب صیہونی قابضین سے فلسطینی عوام کی چوری شدہ گیس خرید کر اربوں ڈالر تل ابیب کے خزانے میں ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے، یہ رقم فلسطینیوں کو قتل کرنے کیلئے مزید ہتھیار بنانے کیلئے استعمال کی جائے گی، اس طرح گیس کا سمجھوتہ کرنیوالے ممالک فلسطینیوں کیساتھ ہونیوالے جرائم میں صیہونیوں کے برابر کے شریک اور ساتھی ہونگے۔ خلیج فارس کے عرب حکمرانوں نے القدس کی آزادی اور فلسطینی کاز سے منہ موڑ لیا ہے، وہ نارملائزیشن کیطرف گامزن ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں صہیونیوں کے جرائم کیخلاف خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ادھر فلسطینی مزاحمتی گروہوں کو بھی اس بات کا یقین ہوگیا ہے کہ انہیں ان عرب حکمرانوں سے جو اسرائیل سے سمجھوتہ کرنے پر یقین رکھتے ہیں، کسی طرح کی حمایت اور مدد کی امید نہیں رکھنی چاہیئے اور انہیں اپنی اندرونی طاقت پر بھروسہ کرکے غاصبوں کے خلاف فتوحات حاصل کرنے کیلئے اپنی جدوجہد کو جاری و ساری رکھنا ہوگا۔


ترتیب و تنظیم: علی واحدی

مقبوضہ علاقوں میں سعودی سرمایہ کاری اور عبرانی-عرب اتحاد کی تشکیل کی کوششوں کی بے نقابی کے بعد، اس بار سعودیوں نے صیہونی حکومت کے ساتھ بات چیت کے لیے توانائی کی ضرورت کو ایک بہانے کے طور پر استعمال کیا ہے، تاکہ صیہونیوں کے قدم جزیرہ نما عرب میں کھولے جاسکیں۔ اس سلسلے میں صیہونی اخبار "گلوبس" نے انکشاف کیا ہے کہ مصر اور سعودی عرب کے ممالک مقبوضہ علاقوں سے گیس خریدنے اور سعودی عرب کو منتقل کرنے کے لیے صیہونی حکومت سے مشاورت کر رہے ہیں۔ عبرانی زبان کے اس اخبار نے اعلان کیا کہ اس منصوبے میں ایک گیس پائپ لائن کی تعمیر بھی شامل ہے، جو خلیج عقبہ سے سعودی عرب تک بچھائی جائیگی اور اس سے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے "نیوم" منصوبے کی توانائی کی ضروریات کو پورا کیا جائیگا۔ اس رپورٹ کے مطابق اگرچہ مذکورہ منصوبہ ابتدائی مراحل میں ہے، لیکن یہ ریاض اور تل ابیب کے درمیان اقتصادی تعلقات کو بہت گرما سکتا ہے، خاص طور پر صیہونی سیاحوں کو دو جزائر "تیران" اور "صنافیر" میں داخلے کے اجازت نامے جاری کرنے کی خبروں نے اس موضوع کو مزید اہم بنا دیا ہے۔

گلوبز نے حال ہی میں انکشاف کیا ہے کہ بن سلمان ان دونوں جزیروں کو ہوٹلوں اور کیسینو کے ساتھ ایک عالمی شہرت یافتہ سیاحتی مقام میں تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، البتہ اس شرط کے ساتھ کہ صیہونی سیاحوں کو بھی وہاں چھٹیاں گزارنے کی اجازت ہو۔ اس رپورٹ کے مطابق "تیران" اور "صنافیر" کے جزائر میں صیہونی حکومت کے سیاحوں کو قبول کرنا سعودی عرب کی حکومت کی طرف سے اسرائیلی حکومت کے قریب ہونے کے لیے ایک نیا اور بنیادی قدم ہوگا، البتہ یہ معاملہ بتدریج ہوگا۔ صیہونی میڈیا کے مطابق سعودیوں کی جانب سے صیہونی طیاروں کی سعودی فضائی حدود سے گزرنے پر رضامندی کے بدلے تیران اور صنافیر جزائر کی ملکیت مصر سے سعودی عرب کو منتقل کر دی جائے گی۔ اس کے مطابق چونکہ مذکورہ دونوں جزائر اسرائیل اور مصر کے درمیان امن معاہدے کا حصہ ہیں، اس لیے ان کی ملکیت کی منتقلی کا فیصلہ کرنے والا مرکزی فریق تل ابیب ہے۔

بہت سے مبصرین کا خیال ہے کہ مصر سے سعودی عرب کو مذکورہ جزائر کی ملکیت کی منتقلی ریاض اور تل ابیب کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کی جانب ایک اہم قدم ہوگا اور شاید یہ معاہدہ دونوں کے درمیان مکمل سمجھوتہ کے معاہدے پر دستخط کا باعث بنے گا۔ سعودی عرب ایک ایسے عالم میں صیہونی حکومت سے گیس خریدنے کے لیے کوشاں ہے کہ اس کا پڑوسی ملک قطر دنیا کے سب سے بڑے گیس برآمد کنندگان میں سے ایک ہے، جو بلاشبہ سعودی عرب کی سالہا سال کی ضروریات پوری کرسکتا ہے، لیکن سعودی عرب قطر سے گیس نہیں خریدنا چاہتا۔ اگرچہ سعودی عرب کے قطر کے ساتھ تعلقات چار سال کی کشیدگی کے بعد دوبارہ بہتر ہوئے ہیں، لیکن ایسا لگتا ہے کہ ریاض کے حکام دوحہ کے ساتھ اپنے تعلقات میں کوئی واضح افق نہیں دیکھ رہے ہیں اور اس لیے توانائی کے معاملے میں اس ملک پر انحصار نہیں کرنا چاہتے۔ سعودی عرب زیادہ جارحانہ انداز میں کام کر رہا ہے اور قطر کے خلاف کوئی کمزور نقطہ نظر نہیں رکھنا چاہتا ہے، اس لیے اس نے اپنی گیس کی ضروریات کا کچھ حصہ فراہم کرنے کے لیے صیہونی حکومت سے رابطہ کیا ہے۔

گذشتہ ایک دہائی میں صیہونی حکومت نے گیس کے بہت سے وسائل حاصل کیے ہیں، جو کہ مقبوضہ علاقوں کو درکار گیس کی فراہمی کے لیے کافی ہیں، لیکن یہ حکومت ان وسائل کا کچھ حصہ بیرون ملک برآمد کرتی ہے اور یہ مسئلہ اسے مستقبل میں ایک سنگین چیلنج سے دوچار کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ چند ماہ قبل یورپی یونین نے صیہونیوں کے ساتھ صیہونی حکومت سے گیس خریدنے کے معاہدے پر دستخط کیے تھے اور گیس کی مصنوعات کا کچھ حصہ مصر کے راستے یورپ کو برآمد ہونا تھا اور اگر یورپیوں نے مزید گیس کا مطالبہ کیا تو یہ اسرائیل کے بس سے سے باہر ہے، کیونکہ بحیرہ روم میں واقع گیس کے نصف وسائل لبنان کے ساتھ مشترک ہیں اور لبنانی شہری صیہونی حکومت کو اپنے ذخائر لوٹنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ صیہونی حکومت کے ذخائر کا قطر کے ساتھ موازنہ نہیں کیا جا سکتا اور کیا وہ بیک وقت یورپ، سعودی عرب حتیٰ کہ مصر کی ضروریات کو بھی پورا کرسکتا ہے یا نہیں یہ ایک ایسا معاملہ ہے، جس پر بعض تجزیہ کاروں کو شک ہے۔

تعلقات کو معمول پر لانے کا معاہدہ
بن سلمان بخوبی جانتے ہیں کہ سعودی رائے عامہ اسرائیل سے تعلقات کو معمول پر لانے کے عمل کے بارے میں منفی سوچ رکھتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ توانائی کے دروازے سے اسرائیل کو داخل کرکے یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ سعودی عرب کو گیس کی ضرورت ہے اور اسے مقبوضہ علاقوں سے حاصل کرنا مجبوری ہے۔ بن سلمان اس طرح آہستہ آہستہ میدان کو نارملائزیشن کے لئے ہموار بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ صیہونی حکومت کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی اقتدار میں واپسی کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے عمل کو پہلے سے کہیں زیادہ ترجیحات پر رکھا گیا ہے اور نیتن یاہو اور تل ابیب کے دیگر حکام نے حالیہ ہفتوں میں اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ رابطے میں ہیں، وہ تعلقات بڑھانے کے لئے لائن میں لگے ہیں۔ اسرائیل نے جن دو ملکوں کے بارے میں کہا ہے کہ وہ جلد ہی اسرائیل سے اپنے تعلقات کو اناؤنس کر دیں گے، ان میں سے ایک سعودی عرب بھی ہوسکتا ہے، جو اس سمت میں دوسروں کے مقابلے میں زیادہ آگے بڑھ چکا ہے۔

حال ہی میں سعودی وزیر خارجہ نے اعلان کیا ہےکہ صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا عرب ممالک اور خطے کے مفاد میں ہے۔ سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے بھی اعتراف کیا کہ ریاض اور تل ابیب کے درمیان تعلقات عام کرنے کا وقت قریب آرہا ہے اور سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات معمول کی طرف بڑھ رہے ہیں اور عادل الجبیر کے بقول یہ ایک اسٹریٹجک آپشن ہے۔ سعودی حکام نے بارہا کہا ہے کہ قابض حکومت کے ساتھ سب کچھ معمول پر لانے کے لیے وہ تیار ہيں اور اس سلسلے میں واحد اہم مسئلہ وقت ہے۔ اس حوالے سے اسرائیل کے آئی 24 نیوز چینل نے ایک رپورٹ شائع کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ سعودی عرب بنجمن نیتن یاہو کی حکومت کے تل ابیب کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے اپنی حکومت کے کچھ اہم کام شروع کرنے اور کچھ وقت گزرنے کا انتظار کر رہا ہے۔

نیتن یاہو کو اقتدار میں آئے ایک ماہ ہوگیا ہے اور اس مختصر عرصے میں انہیں فلسطینی گروہوں کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر اندرونی مظاہروں اور تنازعات کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور ایسی مشکل صورت حال میں سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو عام کرنا ان کے کندھوں سے یہ بوجھ اتار سکتا ہے۔ تل ابیب میں انتہاء پسند کابینہ سعودی عرب سے تعلقات کو معمول پر لا کر ایران کے خلاف اتحاد بنانے اور خلیج فارس میں اس ملک کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

"نیوم" ایک بہانہ ہے
کہا جاتا ہے کہ بن سلمان اپنے خوابوں کے شہر "نیوم" کو درکار گیس کی فراہمی کو صیہونی حکومت سے ممکن بنانا چاہتے ہیں اور یہ بن سلمان کے لیے ایک طرح کا جواز بھی ہے۔ کیونکہ اس میگا سٹی کا تعمیراتی منصوبہ جس کی نقاب کشائی کو چھ سال ہوچکے ہیں، صرف الفاظ اور نعروں کی طرح رہ گیا ہے اور سعودیوں کی جانب سے اس پر عمل درآمد کے لیے کوئی موثر اقدام نہیں کیا گیا۔ اس منصوبے کے لیے 500 بلین ڈالر کے سرمائے کی ضرورت ہے، جس کے لیے بیرون ملک سے سرمایہ کاری کی جانی چاہیئے تھی، لیکن غیر ملکی سرمایہ کار اس پروگرام میں دلچسپی نہیں لے رہے ہیں۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ سعودیوں کا دعویٰ تھا کہ نیوم شہر قابل تجدید توانائی ری سائیکل سے کام کرلے گا اور اسے تیل اور گیس کی ضرورت نہیں ہوگی، لہذا اس عظیم الشان منصوبے کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے صیہونیوں سے گیس خریدنے کا کوئی جواز نہیں۔

عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب صیہونی قابضین سے فلسطینی عوام کی چوری شدہ گیس خرید کر اربوں ڈالر تل ابیب کے خزانے میں ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں، یہ رقم فلسطینیوں کو قتل کرنے کے لیے مزید ہتھیار بنانے کے لیے استعمال کی جائے گی، اس طرح گیس کا سمجھوتہ کرنے والے ممالک فلسطینیوں کے ساتھ جرائم میں صیہونیوں کے برابر کے شریک اور ساتھی ہوں گے۔ خلیج فارس کے عرب حکمرانوں نے القدس کی آزادی اور فلسطینی کاز سے منہ موڑ لیا ہے، وہ نارملائزیشن کیطرف گامزن ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں صہیونیوں کے جرائم کے خلاف خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ادھر فلسطینی مزاحمتی گروہوں کو بھی اس بات کا یقین ہوگیا ہے کہ انہیں ان عرب حکمرانوں سے جو اسرائیل سے سمجھوتہ کرنے پر یقین رکھتے ہیں، کسی طرح کی حمایت اور مدد کی امید نہیں رکھنی چاہیئے اور انہیں اپنی اندرونی طاقت پر بھروسہ کرکے غاصبوں کے خلاف فتوحات حاصل کرنے کے لئے اپنی جدوجہد کو جاری و ساری رکھنا ہوگا۔


خبر کا کوڈ: 1039742

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/1039742/آل-سعود-کا-اسٹریٹجک-آپشن

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org