0
Sunday 5 Feb 2023 21:14

ایران میں انٹرنیشنل کشمیر کانفرنس

ایران میں انٹرنیشنل کشمیر کانفرنس
تحریر: منظوم ولایتی

آج 5 فروری ہے۔ اِس دن کو پوری دنیا میں "یومِ یکجہتی کشمیر" کے عنوان سے جانا جاتا ہے۔ یہ "یومِ یکجہتی کشمیر" ایک بڑے ویژن کی بات ہے، اس لئے یہ ہر آدمی کی سمجھ میں نہیں آسکتی۔ بالکل ایسے ہی جیسے پی ایچ ڈی ایک اعلیٰ درجے کی تعلیمی ڈگری ہے۔ یہ بہت اہم تعلیمی ڈگری ہے، لیکن پرائمری کے بچے کی سمجھ سے باہر ہے کہ پی ایچ ڈی کرنے سے کیا ہوتا ہے۔ "یومِ یکجہتی کشمیر" کے حوالے سے  گلگت بلتستان کے بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ کشمیریوں سے ہم کیوں ہمدردی و یکجہتی کا اظہار کریں، جبکہ خود ہمارے حقوق کے حصول میں کشمیری سب سے بڑی رکاوٹ ہیں؟ میرے ساتھ بھی کل کچھ ایسا ہی ہوا۔ میں ان دنوں ایران میں ہی ہوں۔ گذشتہ روز تین بجے ایران کے ایک انتہائی مشہور اور اہم شہر قم المقدس میں انٹرنیشنل کشمیر کانفرنس منعقد ہوئی۔ جب میں پہنچا تو یہ کانفرنس  مدرسہ حجتیہ کے شہید مطہری کانفرنس ہال میں جاری تھی۔ جانے سے پہلے  کسی عزیز نے ظہرانے کی دعوت دی۔ ہم نے کہا بھائی ہمیں سیمینار میں جانا ہے، کہنے لگے کھانا تیار ہے، بس دس منٹ میں کھانا تناول فرمائیے اور تشریف لے جایئے۔

بس کیا کرتا، بادل نخواستہ چلا گیا۔ اُن صاحب کے ہاں پہنچا تو ایک دو احباب اور بھی تھے۔ جلدی جلدی کھانا کھا کر راقم نے کشمیر کے متعلق سیمینار کا کہہ کر رخصتی چاہی تو ایک صاحب فرمانے لگے کہ جی کشمیری تو گلگت بلتستان کے حقوق میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ اُن کے حق میں آواز بالکل آواز نہیں اٹھانی چاہیئے۔ راقم نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کے اندر نہتے انسانوں پر ہندو بنیئے مظالم ڈھا رہے ہیں۔ ہمیں ہر مظلوم کی حمایت کرنی چاہیئے۔ بہرحال میں اتنا کہہ کر اٹھ کھڑا ہوا اور سیمینار کی طرف نکل گیا۔ راستے میں مطہری کانفرنس ہال کی طرف جاتے ہوئے بار بار میرے ذہن میں یہ سوال دستک دیتا رہا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ہم لوگ مظلوم انسانوں کے حق میں آواز بلند کرنے کو اپنی دینی و شرعی ذمہ داری نہیں سمجھتے بلکہ جو لوگ مظلوموں کی آواز بنتے ہیں، ہم اُن کی بھی مخالفت کرنے پر اتر آتے ہیں۔؟

ایک صاحب نے اپنے تئیں کشمیریوں کی حمایت نہ کرنے کی دلیل دیتے ہوئے فرمایا کہ آپ کو تو پتہ ہے کہ کشمیری ایک پڑھی لکھی قوم ہیں، وہ اگر آزاد ہونگے تو ہم پر حکومت کریں گے۔ مجھے بہت ہنسی آئی، میں نے بظاہر تو ان کی بزرگی کا خیال رکھا، مگر دل تو یہی کہہ رہا تھا کہ جب اپنے ہی لیڈر نالائق ہوں اور اپنے حقوق کی جنگ نہ لڑ سکیں تو اِس میں کشمیریوں کا کیا گناہ۔!! عجیب مخمصہ ہے! ایک طرف تو کچھ لوگ علیؑ ولی کا قول "کونا للظالم خصما وللمظلوم عونا" کو کوڈ کرتے تھکتے نہیں اور دوسری طرف اپنی اور اپنے بڑوں کی نالائقی کو چھپانے کیلئے مظلوم انسانوں سے متعلق رشتے کا پاس رکھنے سے بھی گریزاں ہیں۔ این چہ بوالعجبی است!! یاد رہے قومیت کا یہی نظریہ دیوبند کے شیخ الاسلام حسین احمد مدنی کا بھی تھا، جس پر علامہ اقبال نے خطِ بطلان کھینچتے ہوئے فرمایا تھا:
سرود برسر منبر کہ ملت از وطن است
چہ بی خبر از مقام محمد عربی است
بہ مصطفیٰ برسان خویش را کہ دین ہمہ اوست
اگر بی او نرسیدی تمام بولہبی است


ایسے نام نہاد روشن فکر حضرات سے بھی ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے، جو علاقائیت اور لسانیت کے نام پر بنی نوعِ انسان کے درمیان تفریق کرتے ہیں۔ یاد رکھیے! ہماری اپنی کمزوریاں موجب ہیں کہ ہم مسلوب الحقوق یا محروم الحقوق ہیں، ہمیں اپنے حقوق کیلئے اپنی قانونی جنگ آئین پاکستان کے تحت اُن قوتوں کے خلاف لڑنی ہے، جو ہمیں عقب ماندہ اور پسماندہ رکھنا چاہتی ہیں اور وہی قوتیں کشمیر کی آزادی کے راستے میں بھی رکاوٹ ہیں۔ ہمیں جس طرح اپنے حقوق کی جنگ لڑنی ہے، اسی طرح مظلوم کشمیریوں کی سفارتی و اخلاقی جنگ لڑنا بھی ہم پر واجب ہے۔ چونکہ ہماری جنگ اندرونِ خانہ دو بھائیوں کی مانند ہے، جبکہ کشمیری عالمی استعمار کے چنگل میں دبوچے ہوئے ہیں۔ وہ اتنے مظلوم ہیں کہ اب ہمیں ہی اُن کی آواز بننے کی ضرورت ہے۔ راقم الحروف کی دینی و اخلاقی اور اجتماعی لحاظ سے یہ نظر ہے کہ باقی اختلافِ رائے کا دروازہ ہمیشہ کی طرح آج بھی کھلا ہے۔

ہاں تو میں ذکر رہا تھا ایران میں انٹرنیشنل کشمیر کانفرنس کا۔ کانفرنس ہال میں  افریقہ، ایران، پاکستان،گلگت بلتستان اور مقبوضہ کشمیر کی برجستہ شخصیات نے خطاب فرمایا اور کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کی، انہوں نے مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں حل کیے جانے پر زور دیا۔ کانفرنس کا ماحول دیکھ کر سپورٹ کشمیر انٹرنیشنل فورم اور صدائے کشمیر فورم کے منتظمین  خصوصاً فورم کے سربراہ ڈاکٹر نذر حافی صاحب کو بے ساختہ داد دینے کو دل چاہا۔ خصوصاً کانفرنس ہال میں گونجتا ہوا یہ نعرہ بہت ہی مسحور کُن تھا۔ "کشمیریوں سے رشتہ کیا، لا الہ الا اللہ"
خبر کا کوڈ : 1039744
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش