1
Monday 6 Feb 2023 23:58

آزادی اظہار کا امریکی انداز

آزادی اظہار کا امریکی انداز
تحریر: سیروس فتح اللہ
 
حال ہی میں امریکی کانگریس نے مسلمان رکن الہان عمر کو فارن افیئرز کمیٹی سے باہر نکال دیا ہے۔ یہ اقدام اس حقیقت کو بیان کرتا ہے کہ امریکہ کی جانب سے انسانی حقوق کا دعوی محض ایک جھوٹ ہے جس کا واحد استعمال مخالف ممالک کے خلاف کیا جاتا ہے جبکہ اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کیلئے یہ قانون لاگو نہیں ہوتا۔ الہان عمر صومالیہ نژاد امریکی شہری ہیں جو 2015ء میں امریکہ کے ایوان نمائندگان کی رکنیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئیں۔ وہ ہمیشہ سے ہی امریکی کانگریس میں فلسطینی شہریوں کے حق میں آواز اٹھاتی آئی ہیں اور اسرائیلی ظلم و ستم کی مذمت کرتی آئی ہیں۔ اسی وجہ سے گذشتہ ہفتے امریکی کانگریس میں ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے اراکین نے ان پر یہود دشمنی کا الزام عائد کر دیا تھا۔
 
اس الزام کے تناظر میں الہان عمر کو فارن افیئرز کمیٹی سے نکال باہر کرنے کا مطالبہ پیش کر دیا گیا۔ الہان عمر کا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے۔ ان کا قصور صرف اتنا تھا کہ انہوں نے غاصب صیہونی رژیم کے ظالمانہ اقدامات پر تنقید کی تھی۔ اس وجہ سے امریکہ میں یہودی لابی ان سے سخت ناراض تھی اور انہیں اسی بات کی سزا دی گئی ہے۔ الہان عمر کی جانب سے غاصب صیہونی رژیم پر تنقید نے اس قدر صیہونی لابی کو پریشان کیا کہ کانگریس کے نئے سربراہ کوئین مک کارٹی نے انہیں کانگریس سے بھی نکال باہر کرنے کی دھمکی دے ڈالی۔ یاد رہے مک کارٹی کے صیہونی لابی سے انتہائی قریبی اور گہرے تعلقات ہیں۔ براعظم افریقہ سے مہاجرت کرنے والی الہان عمر نے ہمیشہ سے فلسطینیوں کی حمایت کی ہے اور صیہونی جرائم کی مذمت کی ہے۔
 
انہوں نے تقریباً تین سال پہلے فلسطینیوں کے خلاف شدت پسندی پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ غزہ پر قبضے اور انسانی بحران کی موجودہ صورتحال عدم استحکام پیدا کر رہی ہے۔ الہان عمر نے خود پر لگائے گئے یہود دشمنی کے الزام کو سختی سے مسترد کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی نسل پرست صیہونی رژیم کے مجرمانہ اقدامات کی مذمت کا یہود دشمنی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جب 2021ء میں غاصب صیہونی رژیم نے غزہ کی پٹی کو فوجی جارحیت کا نشانہ بنایا اور سیف القدس معرکے کا آغاز ہوا، تب بھی الہان عمر نے غزہ کی پٹی میں جنگ بندی میں تاخیر کرنے پر عالمی اداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ انہوں نے مقبوضہ فلسطین میں جنگ بندی میں تاخیر کو بے گناہ بچوں کے قتل عام اور انسانی بحران کا اصل سبب قرار دیا تھا۔
 
الہان عمر کئی بار امریکی صدر جو بائیڈن سے غاصب صیہونی رژیم کے ظالمانہ اقدامات کی روک تھام کیلئے موثر اقدامات انجام دینے کا مطالبہ بھی کر چکی ہیں۔ گذشتہ برس جب مقبوضہ فلسطین میں الجزیرہ نیوز چینل کی خاتون رپورٹر صیہونی فورسز کی گولی کا نشانہ بن کر شہید ہو گئیں تو الہان عمر نے اپنے ٹویٹر پیغام میں لکھا تھا: "شیرین ابوعاقلہ ایک رپورٹر کی حیثیت سے موجود تھیں اور اسرائیلی فوج کیلئے ان کی یہ حیثیت واضح ہونے کے باوجود انہیں قتل کر دیا گیا۔ ہم سالانہ 3.8 ارب ڈالر اسرائیل کی غیر مشروط فوجی مدد کرتے ہیں۔ ہم اسے اس قسم کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر جوابدہ ہونے پر مجبور کرنے کیلئے کیا کر سکتے ہیں؟ اسرائیل کو حقیقی طور پر جوابدہ کرنے کیلئے کس چیز کی ضرورت ہے؟"
 
الہان عمر نے حال ہی میں امریکی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ غاصب صیہونی رژیم کی مالی امداد بند کر دے۔ اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم امریکی کانگریس میں الہان عمر کی موجودگی کو اپنے لئے خطرہ تصور کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک الہان عمر کو مقبوضہ فلسطین کے دورے کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔ گذشتہ کچھ عرصے میں کانگریس میں موجود اسرائیل کے حامی اراکین نے بارہا الہان عمر کو دھمکیاں بھی دی ہیں۔ لیکن ان تمام مشکلات کے باوجود وہ اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹیں اور انہوں نے ہمیشہ صیہونیوں کے ظلم و ستم کا شکار فلسطینیوں کے حقوق کا دفاع کیا ہے۔ الہان عمر گذشتہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انسانی حقوق سے متعلق پالیسیوں کی بھی شدید مخالف تھیں۔ انہوں نے کئی بار ٹرمپ حکومت کی جانب سے سعودی عرب کو اسلحہ فروخت کرنے پر شدید تنقید کی۔
 
الہان عمر کئی بار اس موقف کا اظہار کر چکی ہیں کہ سعودی عرب دنیا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے ممالک کے زمرے میں آتا ہے۔ انہوں نے سعودی عرب کو یمن میں غذائی قلت اور وبائی امراض کے پھیلاو کا ذمہ دار قرار دے کر امریکی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اسے اسلحہ فروخت نہ کرے۔ کانگریس کے ادارے فارن افیئرز کمیٹی سے الہان عمر کو نکال باہر کرنا اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ امریکی حکمرانوں اور سیاست دانوں کی نظر میں جو شخص بھی غاصب صیہونی رژیم پر تنقید کرے گا اسے اس کا تاوان ادا کرنا پڑے گا۔ ریپبلکن پارٹی فارن افیئرز کمیٹی سے الہان عمر کو باہر نکال کر صیہونی لابی کو خوش کرنے کے درپے ہے تاکہ 2024ء کے صدارتی الیکشن میں صیہونی لابی کی حمایت حاصل کر سکے۔
خبر کا کوڈ : 1039915
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش