1
Tuesday 7 Feb 2023 04:47
(مسئلے دو لیکن وجہ ایک)

کشمیر کی غلامی اور پاکستان کا بحران

کشمیر کی غلامی اور پاکستان کا بحران
تحریر: نذر حافی

چند سال پہلے کی بات ہے۔ ایک کانفرنس میں ملّتِ کشمیر کی ذہانت و فطانت پر مجھے ایک مقالہ پڑھنے کا موقع ملا۔ کانفرنس ہال میں ہمارے کچھ اساتذہ بھی موجود تھے۔ ان میں سے ایک بڑے نامور اور گرامی القدر استاد نے کانفرنس کے بعد جہاں میری بہت حوصلہ افزائی کی، وہیں مسکراتے ہوئے میرے کان میں یہ سرگوشی بھی کی کہ اتنی ذہین قوم کی گردن میں غلامی کا طوق کیوں ہے۔؟ میں نے برجستہ کہا کہ اُستاد فقط ذہین ہونا کافی نہیں ہے بلکہ ذہانت کو استعمال کرنا بھی ضروری ہے۔اُستاد بھی بڑے کمال کے آدمی تھے، فوراً بولے کہ پھر آپ بھی فقط کشمیریوں کے ذہین اور محنتی ہونے پر مقالے نہ پڑھیں، بلکہ وہ مسئلہ ڈھونڈیں جس نے ان کی ذہانت کو زنگ آلود کر دیا ہے۔ بات دماغ سے گزری اور دل میں اتر گئی! دماغ نے کہا تحقیق ہمیشہ مسئلہ محور ہوتی ہے۔ ہمیں کشمیر کے مسئلے کی درست شناخت ہونی چاہیئے۔ آخر ایسی کیا شئے ہے کہ جس نے کشمیریوں کی ذہانت اور عقلمندی کے باوجود اُن کی ساری تدبیریں ناکام بنا دی ہیں۔

مسئلہ کشمیر پر نگاہ رکھنے والی متعدد شخصیات سے انٹرویوز لینے اور مسلسل مطالعات کے بعد مجھے یہ احساس ہوا کہ بعض مسائل ایک ناسور کی مانند ہوتے ہیں، جو وقت کے ساتھ ساتھ اپنی شکل تبدیل کرتے اور بڑھتے رہتے ہیں اور انہی مسائل میں سے ایک مسئلہ "مسئلہ کشمیر" بھی ہے۔ اس وقت یہ مسئلہ صرف پاکستان و ہند کے درمیان ایک سرحدی تنازعہ نہیں ہے، بلکہ بات اس سے کافی آگے جا چکی ہے۔ چین بھی اس مسئلے کا ایک طاقتور مگر انتہائی خاموش اور عقلمند فریق ہے۔ چاہنے والے یہ چاہتے ہیں کہ کشمیر کو ایک روٹی کی طرح آپس میں تقسیم کر لیا جائے۔ ایسا کرنے میں اقوامِ متحدہ کی قراردادیں آڑے آتی ہیں۔ اگرچہ ان قراردادوں کا بظاہر کوئی فائدہ نظر نہیں آتا، لیکن حقیقتِ حال یہ ہے کہ دنیا میں قانونی طور پر انہی قراردادوں نے ہی اس مسئلے کو آج تک زندہ رکھا ہوا ہے۔ چنانچہ اپنی کمزور گرفت کے باعث جہاں اقوامِ متحدہ اپنی قراردادوں پر عملدرآمد کرانے میں ناکام ہے، وہیں کشمیر کو روٹی کی طرح تقسیم کرنے کا خواب دیکھنے والے بھی خوفزدہ ہیں۔

بہر حال یہ سوال بہت اہم ہے کہ ایسی محنتی، لائق اور شاندار تہذیب و تمدّن کی حامل قوم کی گردن میں غلامی کا طوق کیوں ہے؟ علامہ اقبال کی بات تو سچ ہے کہ "غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں" لیکن سوال یہی ہے کہ یہ ذہین و فطین قوم کیوں کر غلام بنی۔؟ بہر حال کسی بھی قوم کی عزّت کو خاک میں ملانے کیلئے ایک بیوقوف ہی کافی ہوتا ہے۔ آج ہمیں اُسی بیوقوف کو ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔ جو لوگ کشمیر کی تاریخ اور تمدّن کے بارے میں جانتے ہیں، انہیں بخوبی معلوم ہے  کہ مغلوں کے حملے سے پہلے کشمیر کبھی بھی مذہبی تناو اور دینی فسادات کی لپیٹ میں نہیں آیا تھا۔ حتّی کہ کشمیر میں اسلام کا ظہور بھی مکمل صلح آمیز، تہذیبی مکالمے اور تمدّنی مذاکرے کا مرہونِ منّت ہے۔ جو لوگ کشمیر کے پہلے مسلمان ہونے والے بادشاہ رِنچَن شاه کے بارے میں جانتے ہیں، وہی اس کی تصدیق بھی کر پائیں گے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ کشمیر میں اسلام کی ترویج خراسان کے ایک عظیم مبلغ سید شرف الدین موسوی المعروف بلبل شاہ نے شروع کی۔ وہ رنچن شاہ کے دور حکومت میں ۷۲۴ قمری بمطابق ۱۳۲۴ عیسوی میں تبلیغِ اسلام کی غرض سے کشمیر آئے۔ رنچن آبائی طور پر بدھ مت تھا۔ ایک بادشاہ ہونے کے ناطے وہ تحقیق و جستجو کا خوگر تھا۔ اس لیے وہ ہندوستان کے مختلف مذاہب اور فرقوں کے ماننے والوں کو اپنے دربار میں علمی مکالمے و مباحثے اور مناظرےکی دعوت دیا کرتا تھا۔ مذہبی مناظروں کیلئے بلبل شاہ نے بھی بادشاہ کے دربار میں آنا جانا شروع کیا۔بادشاہ اُن کی معقول گفتگو اور منطقی دلائل سے انتہائی مرعوب ہوا۔ اُس نے بُلبل شاہ کے تصوّر روحانیت کو بھی دوسروں سے زیادہ موثر اور جامع پایا۔ وہ اتنا متاثر ہوا کہ مسلمان ہوگیا۔ ظاہر ہے کہ جب ریاست کا بادشاہ مسلمان ہوا تو لوگوں نے بھی جوق در جوق مسلمان ہونا شروع کر دیا۔

محققین کا کہنا ہے کہ بلبل شاہ نے ہندو سماج کی ذات پات کے مقابلے میں پہلی بار کشمیر کے اندر انسانی مساوات کے کلچر کو متعارف کرایا۔ بعد ازاں اسی طرح مبلغین ِاسلام کشمیر جاتے رہے اور کشمیر میں اسلام بغیر کسی تعصّب کے پھلتا پھولتا رہا۔ اسلام کے آنے کے بعد ایک سماجی ارتقاء کے طور پر کشمیری تہذیب نے بہت ترقی کی اور سلطان زین العابدین بڈشاہ (عظیم بادشاہ) جیسے افراد کو اپنی آغوش میں پروان چڑھایا۔ متعدد کشمیری خاندان اسی مسالمت اور ارتقاع کے طور پر برسرِ اقتدار آتے رہے۔ اسی طرح ۱۵۶۱ء میں چک خاندان بھی بغیر کسی مذہبی یا مسلکی کارڈ کے برسرِ اقتدار آیا اور اُس نے ۱۵۸۶ء تک کشمیر پر حکومت کی۔ چک خاندان کا جدِّ اعلیٰ " کاجی چک" ۹۲۷ھ، ۹۲۸ھ  اور ۹۲۹ ھ میں مغلوں کو تین بڑی شکستیں دے چکا تھا۔ یہ چک خاندان کا پہلا فرد تھا، جو ۹۲۴ ھ میں کشمیر کے وزیراعظم کے منصب تک پہنچا تھا اور بعد ازاں رفتہ رفتہ ۹۶۲ ھ  میں سارے کشمیر پر چک خاندان کی حکومت قائم ہوگئی۔

اب مغلوں کی ساری توجہ کشمیر پر تھی۔ انہیں یہ تجربہ ہوگیا تھا کہ چک خاندان کے ہوتے ہوئے کشمیر ناقابلِ تسخیر ہے۔ چنانچہ انہوں نے کشمیر میں وہی کیا، جو استعماری طاقتیں ہمیشہ ایسے موقعوں پر کیا  کرتی ہیں۔ اپنے وظیفہ خور کشمیری مُلّاوں کے ذریعے ریاستِ کشمیر میں شیعہ و سُنّی کی تیلی سُلگانی شروع کر دی۔ محلّاتی سازشیں شروع کی گئیں اور ۱۵۴۰ء میں منگول کمانڈر مرزا محمد حیدر دوغلات بیگ نے کشمیر پر پے در پے حملے کئے۔ کشمیر کے مقامی مذہبی جنونیوں نے میر جعفر اور میر صادق کا کردار ادا کرتے ہوئے کشمیر کو بڑے آرام سے گویا تھالی میں رکھ کر مرزا محمد حیدر دوغلات بیگ کی بارگاہ میں پیش کر دیا۔ حملہ آور کمانڈر کو کشمیر کے شکست خوردہ حکمران طبقے یعنی چک خاندان سے مسلسل کھٹکا تھا۔

اسی طرح جنہوں نے مرزا محمد حیدر دوغلات بیگ کو دعوت دی تھی، وہ بھی یہ جانتے تھے کہ اب اگر چک خاندان کو دوبارہ برسرِ اقتدار آنے کا موقع ملا تو دشمن کے سہولتکاروں کے ساتھ وہی کیا جائے گا، جو غدّاروں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ چنانچہ چک خاندان کے شیعہ ہونے کا اور شیعہ کے کافر ہونے کا نعرہ لگا کر سرکاری سرپرستی میں ایسے مظالم ڈھائے گئے کہ قیامت مچا دی گئی۔ کشمیر میں انہوں نے اتنا ظلم کیا کہ شاید ہی دنیا کے کسی خطے میں آج تک اتنے وسیع پیمانے پر شیعہ کُشی کی گئی ہو،  نیز شیعہ املاک اور اہل تشیع کی عزت و ناموس کو اس بے دردی سے پامال کیا گیا ہو۔ اب جو قتلِ عام شروع ہوا تو دیگر غیر سُنّی فرقے جیسے صوفیاء وغیرہ بھی اس کی لپیٹ میں آئے۔

جیسا کہ مغل کمانڈر مرزا حیدر دوغلات (کشمیر کے مذہبی جنونیوں کی دعوت پر کشمیر پر حملہ کرنے والا) اپنی کتاب ”تاریخ رشیدی "میں رقم طراز ہے کہ "کشمیر کے ان لوگوں میں سے جو اس کفر میں مبتلا تھے، بہت سوں کو میں بخوشی یا زبردستی سے صحیح عقیدے پر واپس لایا اور اکثر کو میں نے قتل کر دیا۔ کچھ نے تصوف میں پناہ لیو لیکن وہ صحیح صوفی نہیں، صرف نام کے صوفی ہیں۔" ۱۵۵۰ء میں مولوی قاضی ابراہیم اور قاضی عبدالغفور کی ایما پر مرزا حیدر دغلات نے اہلِ تشیع کا مکمل صفایا کرنے کی ٹھانی۔ اسی کی سرپرستی میں میر شمس الدین عراقی کی قبر کھود کر میت کو آگ لگا دی گئی، نیز میر دانیال و  میر شمس الدین عراقی کے بیٹے سمیت سینکڑوں برجستہ شیعہ و صوفی شخصیات کو تہہ تیغ کیا گیا۔

مصدقہ تاریخی دستاویزات کے مطابق آج کے سنکیانگ اُس دور کے کاشغر اور خوتان کے منطقے میں اہل تشیع کو "غالچہ" یعنی غلام کہا جاتا تھا اور اُن کی خواتین کو کنیزوں اور لونڈیوں کے طور پر فروخت کیا جاتا تھا۔ یہ ظُلم و ستم اتنے بڑے پیمانے پر ہوا کہ دس سال کے بعد چک خاندان نے تنگ آمد بجنگ آمد کے مقولے کو سچ کر دکھایا اور بالآخر تاریخِ کشمیر میں مرزا حیدر دغلات کے خلاف اپنی کشمیری شجاعت کا لوہا منواتے ہوئے اُسے ایک مرتبہ پھر عبرتناک شکست دے کر کشمیر کو آزاد کروا لیا۔ مرزا حیدر دغلات چک خاندان کا سامنا نہ کرسکا اور ۱۵۵۱ء میں قتل ہوا۔ آج بھی اُس کی قبر سری نگر کے ایک معروف قبرستان گورستانِ شاہی میں موجود ہے۔ مرزا محمد حیدر نے بزورِ طاقت پہلی مرتبہ کشمیر پر۱۵۴۰ء سے ۱۵۵۱ء تک یعنی گیارہ سال حکومت کی۔ یہ تاریخ میں کشمیریوں کا پہلا دورِ غُلامی ہے۔

مرزا کے قتل کے بعد چک خاندان دوبارہ برسرِ اقتدار آگیا، لیکن اب فرقہ واریّت ایک تناور درخت بن چکی تھی۔ مولوی حضرات، مُغل بادشاہ کو ظلِ الٰہی اور خلیفۃ اللہ کہہ رہے تھے اور کشمیر کے چک بادشاہ کو کافر اور شیعہ کہہ کر انہوں نے ایک ہمہ گیر بغاوت کا آغاز کر رکھا تھا۔ دوسری طرف چک خاندان بنیادی طور پر سیاسی جوڑ توڑ کے بجائے علم و ہُنر کا رسیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ سلطان زین العابدین بڈشاہ کے بعد چک خاندان کے دورِ حکومت کو تاریخِ کشمیر کا سنہرا دور کہا جاتا ہے۔ اس دور میں  موسیقی، طبابت، شعر و شاعری، فنِ خطاطی خصوصاً خط نستعلیق، سکولوں کی تعلیم بالاخص بچیوں کی تعلیم، عوام کیلئے سفری سہولتوں، لنگر خانوں اور رفاہی و عمومی خدمات کا جال بچھایا گیا۔ ایک طرف علم و ہنر کی شمعیں روشن ہو رہی تھیں اور دوسری طرف میر جعفر و میر صادق کشمیر کی کشتی میں سوراخ کرنے میں مصروف تھے۔ جب سارا انتظام ہوگیا تو اکبر بادشاہ نے کشمیری حکمران یوسف شاہ چک کو دھوکے سے "بہار" بلا کر قید کر لیا۔

ایسے ہوتے ہیں مذہبی جنونیوں کے ظِلِّ الہیٰ۔ یہ ہے وہ مکارانہ ذہنیت، جو بھائی کو بھائی سے لڑواتی ہے۔ یوسف شاہ کی گرفتاری کے بعد کشمیری ملّاوں نے مغل فوجیوں کیلئے راستہ پہلے ہی ہموار کیا ہوا تھا۔ وہ کشمیر جسے محمود غزنوی بھی فتح نہیں کرسکا تھا، اُسے اِن غدّار جنونیوں نے دوسری مرتبہ پھر مُغلوں کی غلامی میں دے دیا۔ یہ کشمیریوں کا دوسرا دورِ غلامی تھا۔ وہی یوسف شاہ چک جسے  مذہبی جنونی انتہائی تنگ نظر اور متعصّب کہتے ہیں، وہ اتنا روشن فکر اور وسیع القلب تھا کہ اُس کے عہد کو کشمیری تہذیب و ثقافت کا زرّین عہد کہا جاتا ہے اور اُس کی بیوی حبّہ خاتون کو کشمیر کی سب سے مقبول شاعرہ اور ایک ثقافتی شخصیت ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اُس کی عظمت کے اعتراف میں مغلپورہ، لاہور (پاکستان) میں ایک انڈر پاس کا نام اسی طرح کشمیر میں گوریز میں واقع اہرام کی شکل والے ایک پہاڑ کا نام، نیز انڈین کوسٹ گارڈ نے بھی اپنے ایک جہاز کا نام حبہ خاتون کے نام پر رکھا ہے۔ اس کے علاوہ اس خاتون کی شخصیت پر کئی دانشوروں نے قلم فرسائی کی ہے۔  ہندوستان کی طرف سے اس پر ٹی وی ڈرامے اور فلمیں بھی بنائی گئیں اور کشمیری زبان و اداب میں اسے فصاحت و بلاغت کی ایک میزان اور کسوٹی کا درجہ حاصل ہے۔

بہرحال ہم چونکہ کسی کو یہ بتانا نہیں چاہتے کہ کشمیر کی غلامی کا اصلی ذمہ دار کون ہے، لہذا ہم چک حکمرانوں کو گالیاں دے کر بات کو چھپا دیتے ہیں۔ مذہبی جنونیوں نے سب سے پہلے کشمیر کا سودا کیا اور ان کی وجہ سے دو مرتبہ کشمیر مغلوں کی غلامی میں گیا۔ اس دو مرتبہ کی غلامی کی مجموعی مدت ایک سو ساٹھ سال بنتی ہے۔ ایک سو ساٹھ سال کی غُلامی کا مزہ چکھنے کے بعد تیسری مرتبہ ان جنونیوں کو ایک مرتبہ پھر آقا بدلنے کی خواہش ہوئی۔ چنانچہ ۱۷۵۳ء کے لگ بھگ احمد شاہ درانی نے انہی جنونیوں کو اعتماد میں لے کر کشمیر پر قبضہ کیا اور پھر اگلے چھیاسٹھ برس تک کشمیریوں کو افغانیوں کی غُلامی میں دے دیا گیا۔ مغلوں کے بعد افغانیوں نے کشمیر کے حُسن کو  خاک میں ملایا۔ یہ کشمیریوں کا تیسرا دورِ غُلامی تھا۔ ظاہر ہے کہ باہر سے آئے ہوئے لوگوں کو کشمیری تہذیب و تمدّن اور کشمیری عوام سے کیا ہمدردی ہوسکتی تھی۔ چنانچہ کشمیر کو جی بھر کر غارت کیا گیا۔

کشمیر کے درّو دیوار یہ گواہی دیتے ہیں کہ ریاستِ کشمیر کے ساتھ غدّاری کا راستہ خود مسلمان جنونیوں نے کھولا اور کشمیر کو دوسروں کی غلامی میں دینے کا سودا بھی خود انہی جنونیوں نے کیا۔ جب کشمیر کے باشندوں نے دیکھا کہ اب نسل درنسل غلامی کا طوق ہماری گردن میں رہے گا تو جس طرح کشمیر کے مسلمانوں نے مغل بادشاہوں کو حملے کی دعوت دی تھی، اُنہی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے کشمیر کے ہندووں و سکھّوں نے پنجاب کے سکھ حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ سے ساز باز کی اور ۱۸۱۹ء میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے افغانیوں کو شکست دے کر  کشمیر کو بزورِ شمشیر اپنا غلام بنا لیا۔ چنانچہ غلام ذہنیت نے جس طرح چک خاندان اور اہل تشیع کو کشمیر میں کچلا تھا، اب سکھوں کو موقع ملا تو انہوں نے بھی چونکہ نام نہاد مسلمانوں سے حکومت چھینی تھی، چنانچہ اب انہوں نے مسلمانوں پر ایسا شب خون مارا کہ مغلوں اور افغانوں کے مظالم بھی پیچھے رہ گئے۔ کشمیر کی تاریخ میں ایسی سفّاکیت اور درندگی کے بانی چونکہ خود مسلمان تھے، لہذا ہم مسلمانوں کے بجائے سکھوں کو بُرا بھلا کہہ کر آگے بڑھ جانا ضروری سمجھتے ہیں۔

وہ حال جو مغلوں کے زمانے میں کشمیر کے شیعوں کا تھا، اب سارے کشمیریوں کا وہی تھا۔ اس زمانے کے ایک مغربی سیّاح اور تاریخ نویس مور کرافٹ کا کہنا ہے کہ "ان دنوں کشمیر میں بیگار عام ہے، لوگوں کو جانوروں کی طرح باندھ کر اُن سے کام لیا جاتا ہے اور کسی کو پائی پیسہ ادا نہیں کیا جاتا۔ لوگوں کو پکڑ لیا جاتا ہے اور رسیوں سے باندھ کر ہانکا جاتا ہے، یوں لگتا ہے جیسے جانوروں  کو ہانکا جاتا ہے۔ گاؤں کے گاؤں خالی پڑے اور سنسان ہیں۔ بہت سارے لوگ خوف کے مارے بھاگ گئے ہیں، فصل پکنے پر دس میں سے نو حصے حکومت لے جاتی ہے اور کسان کے پاس صرف ایک حصہ رہ جاتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ

مذہبی جنونیوں نے ریاست کشمیر کا جو بیڑہ غرق کیا تھا، اب سب مل کر اُس کی سزا بھگت رہے تھے۔ آپ پنجابیوں کیلئے رنجیت سنگھ کو سیکولر کہنا چاہتے ہیں تو کہہ لیں، لیکن کشمیریوں کیلئے وہ ہرگز سیکولر نہیں تھا۔ اُس کیلئے کشمیر میں غیر مُسلم ہی قابلِ اعتماد تھے۔ چنانچہ اُس نے مسلمانوں کو نکیل ڈالنے کیلئے جموں کے تین ہندو ڈوگرہ بھائیوں گلاب سنگھ، دھیان سنگھ اور سچیت سنگھ کے درمیان ریاست جمّوں و کشمیر کو تقسیم کر دیا۔ اُس نے بہت سوچ سمجھ کر گلاب سنگھ کو جموں، سچیت سنگھ کو رام نگر اور دھیان سنگھ کو بھمبر و پونچھ دے دیا۔ اب یہ کشمیریوں کی غلامی کا تیسرا دور تھا۔ یہ تیسرا دور ستائیس برس پر چھایا ہوا ہے۔شاباش دینی چاہیئے اُن مسلمان جنونیوں کو کہ جنہوں نے ریاستِ کشمیر میں فرقہ واریت کا آغاز کیا اور ان کی کارستانیوں کی وجہ سے مغلوں اور افغانیوں کی غلامی کرنے کے بعد اب مسلمان نسل در نسل غلام ابنِ غلام پیدا ہوتے رہے اور رفتہ رفتہ سکھوں و ہندووں کے غُلام بنتے گئے۔

دوسری طرف پنجاب میں رنجیت سنگھ کی مضبوط حکومت انگریزوں کو بھی کھٹک رہی تھی۔ انہوں نے پٹھان اور بلوچ سرداروں کو رنجیت سنگھ کے مقابلے میں لائے۔ سردار میر بلوچ نے رنجیت سنگھ کو ایک جرگے میں بلایا اور وہیں اُسے قتل کروا دیا۔ رنجیت سنگھ ایسی صورتحال کیلئے تیار نہیں تھا۔ اس کے بدلے میں انگریزوں نے ساہی وال سے سندھ کی حدود تک کے علاقے بطورِ انعام بلوچ قوم کی ملکیت قرار دے دیئے۔ رنجیت سنگھ کے بعد پنجاب کی ریاست کسی پکے ہوئے پھل کی مانند انگریزوں کی گود میں گرنے لگی۔ برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی اس صورتحال پر نگاہ رکھے ہوئے تھی۔ ۱۸۳۹ء میں رنجیت سنگھ کے قتل نے گلاب سنگھ کو چوکنّا کر دیا۔ اُس نے بروقت انگریزوں سے مراسم بڑھائے اور ۱۸۴۶ء؁ میں جب دوسری اینگلو سکھ جنگ کے نتیجے میں سکھ سلطنت کا خاتمہ ہوا اور پنجاب و موجودہ پختونخوا برطانوی ہند میں شامل ہوگیا تو  فروری۱۸۴۶ء میں معاہدہ امرتسر کے تحت سات لاکھ کے آبادی والے کشمیر کو ۷۵ لاکھ نانک شاہی کے عوض گلاب سنگھ کی غلامی میں دے دیا گیا۔ یوں کشمیر میں نومبر ۱۸۴۶ء میں ڈوگرہ راج کے آغاز کے ساتھ ہی کشمیریوں کے چوتھے دورِ غلامی کی ابتدا ہوئی۔ یہ چوتھا دورِ غُلامی اگست ۱۹۴۷ء تک یعنی ایک سو سال پر محیط ہے۔

اس چوتھے دور میں مسلمانوں کے ساتھ جو ہُوا، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ بھمبر، پونچھ، میرپور، راجوری اور کشتواڑ وغیرہ میں مسلمان حکمرانوں کو گرفتار کرکے کسی کو کنویں میں ڈالا گیا، کسی کی آنکھیں نکلوائی گئیں اور کسی کو سامنے کھڑا کر کے اُس کی کھال اتروائی گئی۔ کسی مسلمان کی جان سے زیادہ بھیڑ بکری کی قیمت تھی۔ باقی عزّت و ناموس کی بات تو پوچھیں ہی نہیں۔ یہ چوتھا دور جسے ہم سے گذشتہ ایک دو نسل نے دیکھا ہے، ۱۹۴۷ء میں مہاراجہ ہری سنگھ کی حکومت کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ یہاں پر ۱۹۴۷ء کے بعد کشمیریوں کے پانچویں دورِ غلامی کی ابتدا ہوئی۔ جب تقسیمِ ہند کے فارمولے کے تحت نیم خود مختار ریاستوں کو پاکستان یا بھارت میں شامل ہونے کا اختیار دیا گیا تو مہاراجہ ہری سنگھ نے وہی کیا، جس کی بنیاد کشمیر کے نام نہاد مسلمان مذہبی جنونیوں نے رکھی تھی۔ اُنہوں نے چک حکمرانوں کے مذہبی عناد کی وجہ سے مغلوں کو کشمیر پر قبضے کی دعوت دی تھی اور مہاراجہ ہری سنگھ نے پاکستان سے مذہبی عناد کی وجہ سے ہندوستان کو کشمیر پر قبضے کی دعوت دی۔

مہاراجہ نے کوئی نیا کام نہیں کیا تھا۔ یہی کشمیر کے غداروں کی پرانی رسم تھی، جو مہاراجہ نے بھی نبھائی۔ اس وقت کشمیر پچہتر سال سے غلامی کا پانچواں دور کاٹ رہا ہے۔ ان گذشتہ پچہتر سالوں میں وہ کون سا ظلم ہے، جو کشمیریوں پر نہیں ہوا؟ لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف دکھ اور غم کی اندوہناک داستانیں بکھری ہوئی ہیں۔ بارڈر کے دونوں طرف منقسم خاندانوں کے لوگ پچہتر سالوں سے دوبارہ اپنے عزیزوں سے نہیں مل سکے۔ ان پچہتر سالوں میں مسلے ہوئے جذبات اور کچلی ہوئی انسانیت کا نوحہ ناقابلِ بیان ہے۔ یہ وہی جانتے ہیں، جن پر بیت رہی ہے، جو نسل درنسل محاصرے میں ہیں، جو ہر لقمہ اپنے اشکوں سے تر کرکے کھاتے ہیں اور صبح و شام اپنا خونِ جگر پیتے ہیں۔

آج ۷ فروری ۲۰۲۳ء کو کشمیر کی نئی نسل کیلئے  مسئلہ کشمیر پر یہ تجزیہ ایک خاص مقصد کے تحت مرتّب کر رہا ہوں۔ مقصد یہ ہے کہ اب شاید کچھ عرصے میں کشمیر کی غُلامی کی تاریخ کا تجزیہ و تحلیل کرنے کو جُرم قرار دے دیا جائے۔ چونکہ وقت کے ساتھ ساتھ مذہبی جنونیت اپنے عروج کو پہنچ چکی ہے۔ بعید نہیں کہ آنے والے وقت میں ہولوکاسٹ کی مانند کشمیر کی غلامی کی تاریخ پر تحقیق کرنے پر بھی پابندی لگ جائے۔ اس وقت پاکستان جو کہ کشمیر کا وکیل ہے، جو کشمیر کو اپنی شہ رگ مانتا ہے، اسی کی صورتحال دیکھ لیجئے۔ اس میں مذہبی جنونی دوسروں کے بچوں کا نصابِ تعلیم بھی اپنی مرضی سے طے کرتے ہیں، ان کیلئے نیا نویلا درود شریف بھی خود سے گھڑ کر لاتے ہیں۔ ان کے عقائد کے خلاف اُن سے اقرار لیتے ہیں کہ جو لوگ آلِ رسولؐ کے دشمن اور قاتل ہیں، انہیں بھی رضی اللہ کہو۔۔۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہم نے کشمیر کی تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا اور ہم ماضی کی طرح آج بھی مذہبی جنونیت کے گھوڑے پر سوار ہیں۔ کیا آپ نے کبھی یہ سوچا کہ پاکستان کیوں مسلسل بحران میں ہے!؟ جی ہاں جس مذہبی جنونی پن کی سزا گذشتہ ساڑھے تین سو برس سے کشمیریوں کو مل رہی ہے، وہی جنونی پن ضیاء الحق سے لے کر آج تک پاکستان پر سوار ہے۔ جب ایسا ہے تو پھر ایسا تو ہوگا۔۔۔۔ بحران در بحران۔۔۔ غلامی در غلامی۔۔۔
خبر کا کوڈ : 1039994
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش