1
Thursday 9 Feb 2023 21:45

حضرت زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا، فاتح شام

حضرت زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا، فاتح شام
تحریر: ظفر اقبال (قم المقدس)

شام وہ علاقہ تھا جس کو فتح کرنے کے لئے امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور امام حسن مجتبٰی علیہ السلام نے جہاد فرمایا۔ امیر المومنین علیہ السلام کی دور حکومت میں ایک کام جو کامل نہ ہوسکا اور امیر المومنین کے ساتھیوں کی سستی اور دشمن کی مکاری اور چالاکی کی وجہ سے نامکمل رہا وہ فتح شام تھا۔ جنگ صفین کے دوران لشکر اسلام منافقین کے مقابلے میں کامیابی کے قریب تھا اور مالک اشتر امیر شام کے خیمے کے ایک قدم کے فاصلے پر تھے، اس وقت اپنوں کی بے بصیرتی اور دشمنوں کی مکاری کی وجہ سے اس فتنے کا مکمل طور پر خاتمہ نہ ہوسکا۔ امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی شہادت کے بعد امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام نے بھی لشکر کو شام کی فتح کے لئے آمادہ فرمایا لیکن یہاں بھی لشکریوں کی سستی اور دشمنوں کی مکاری نے اپنا کردار ادا کیا اور یہ شام کا علاقہ فتح نہ ہو سکا۔

اس صورتحال میں شام وہ جگہ تھی جہاں بنو امیہ نے اہل بیتؑ سے نفرت کا بیج اہل شام کے دلوں میں کاشت کردیا تھا اور وہ لوگ حقیقت اسلام سے بلکل ناواقف تھے، ان کے نزدیک دین وہی تھا جو بنو امیہ نے پیش کیا تھا۔ اس وجہ سے شام امیر المومنینؑ کے دشمنوں اور مخالفین کے اجتماع کی جگہ تھی، شام اہل بیتؑ اور ان کے پیروکاروں کے لئے جلاوطنی کی جگہ تھی۔ 61 ہجری میں دشمن نے حماقت کی اور وہ ماحول جس کو بنانے کے لئے چالیس سال محنت کی گئی، منبر و محراب خریدے گئے، قلم کی قیمت لگائی گئی اور باطل کو حق کے روپ میں پیش کیا گیا، اب اس علی ابن ابی طالبؑ کی بیٹی اور امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی بہن اس شام کو ایسے فتح فرماتی ہیں کہ آپ کے ہاتھ میں رسن تھے، سر پر چادر نہیں تھی، بھائی کا سر سامنے تھا، یتیمان آل محمدؑ ساتھ تھے، دل غموں سے چور تھا اور دشمنوں کے بھیڑ میں علیؑ کی علی بیٹیؑ نے اپنے خطبوں سے شامی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور ہمیشہ کے لئے یزیدیت کو نابود کردیا اور اس جملے کو سچا ثابت فرمایا کہ اے یزید تو سن لے تو نہ ہمارا ذکر ختم کرسکتا ہے اور نہ ہی ہمارے دین کو روک سکتا ہے۔

آج ہم سب نے دیکھا ہے کہ شام میں صفحہ پلٹ گیا ہے، برسوں پہلے جب میں نے پہلی بار حضرت زینبؑ کے مزار پر قدم رکھا تو مزار میں ایک شامی نوجوان کو دیکھا جو میرے پیچھے آ رہا تھا، میں نے اس سے پوچھا کہ تمہارا کیا کام ہے؟  اس نے مجھے ایک کارڈ دکھایا اور کہا کہ میں سنی علماء میں سے ہوں لیکن میں روزانہ شہر کے مضافات میں زینب کبری سلام اللہ علیہا کی زیارت کے لئے آتا ہوں۔ کیا یہ معمولی سی بات ہے؟ کیا یہ تبدیلی معجزہ نہیں؟  ایک ایسا شہر جو اہل بیتؑ کے دشمنوں کا گڑھ تھا، اب دشمنوں کے حماقت اور علیؑ کی بیٹی کی شجاعت کی وجہ سے امیر المومنین کے دوستوں کا شہر بن گیا ہے۔ وہاں پر میں نے حضرت زینب کبریؑ کا یہ معجزہ اپنی آنکھوں سے دیکھا، جس نے یزید سے کہا، یزید، خدا کی قسم، تو ہم اہل بیتؑ کی یاد کو ختم نہیں کر سکتا۔

حضرت زینب کبریؑ کی زندگی ہمارے لئے اسواہ کاملہ ہے آپ کے فضائل و کمالات کے درک کرنے سےہم  عاجز ہیں۔ آپ کا اسم گرامی زینبؑ یعنی باپ کی زینت رکھا گیا۔ جب امام حسین علیہ السلام نے بیعت سے انکار فرمایا اور دشمنوں کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملانے کے لئے جب مدینہ منورہ کو چھوڑنا چاہتے ہیں تو علی ابن ابی طالب کی بیٹی اپنے امام وقت کے ساتھ اس جہاد میں شامل ہوجاتی ہیں اور کربلا میں امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد جب دشمن اس حقیقت کو چھپانا چاہتا تھا تو حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے ایسا جہاد فرمایا کہ جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی، جس نے اسلام کی خاطر سب قربانیاں دی تھیں۔ اب اس مکتب کو زندہ رہنا ہے اور اس کی زندگی اسلام کی زندگی ہے اور اس معاشرے میں جہاں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرزند کو قربۃ الی اللہ کی نیت کرکے شہید کیا جاتا ہے، اُس معاشرے میں مکتب کربلا کو زندہ کرنا اور وہ افراد جو ظاہراً کربلا میں فتح کا جشن منانے والے تھے ان کو رسوا کرنا، یہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا جہاد تھا کہ پوری انسانیت کو اس جہاد کا احسان مند ہونا چاہیئے۔

اس لئے کہ کربلا کربلا میں ہی دفن ہوجاتی اگر علیؑ کی بیٹی کا جہاد نہ ہوتا، اس ہستی نے ان مصائب کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور پورے وجود سے لمس کیا کہ جن کو ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔ اس ہستی کو ام المصائبؑ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ اس ہستی کے مصائب بے شمار ہیں، بچپن میں اپنے جد امجد رسول خداؐ کی جدائی اور ان کی رحلت کے بعد امت کا درد، حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کی بےحرمتی اور مادر گرامی کی بچپن میں شہادت، اس کے بعد کوفہ میں امیر المومنینؑ کی شہادت اور امام حسن مجتبیٰ کا تیروں سے چھلنی جنازہ اور پھر تیروں پر جنازہ دیکھا لیکن اس اسوہ صبر و استقامت نے کبھی ہمت نہیں ہاری اور اللہ کی بارگاہ میں عبادت و بندگی کے اس مقام پر فائز تھیں کہ امام حسین علیہ السلام اپنی بہن سے التماس دعا کی درخواست فرماتے ہیں۔ امیر المومنین کا ایک ہمسایہ کہتا ہے بیس سال میں ان کا ہمسایہ رہا ہوں لیکن کبھی بھی نہ ان آواز سنی ہے اور نہ ہی کبھی ان کے قد مبارک پر نظر پڑی ہے لیکن افسوس کہ شام غریباں کے بعد علی کی اس بیٹی کو سب نے دیکھا اور یہی امام سجاد علیہ السلام کا درد تھا۔

 السلام علی قلب الزینب الصبور
خبر کا کوڈ : 1040104
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش