2
Wednesday 15 Feb 2023 22:20

باب الحوائج حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام

باب الحوائج حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام
تحریر: ظہیر عباس
جامعۃ المصطفیٰ قم
Zaheerabasjut@gmail.com


نام: موسیٰ بن جعفر علیہ السلام
کنیت: ابوالحسن اول، ابو ابراہیم، ابو علی
ولادت: 128 ہجری
مدت امامت: 35 سال
شہادت 25 رجب 183 ہجری
مدفن کاظمین عراق
القاب: امین، باب الحوائج، زاھر، زین المجتہدین، سید، صالح، طیب، عالم، عبد الصالح، قائد العسکر، کاظم، مامون، نفس زکیہ، وفی

کسی شخصیت سے لوگ ہمیشہ دو کاموں کی وجہ سے محبت کرتے ہیں، انسان کی عزت و منزلت کو دیکھ کر لوگ ہمیشہ اس شخص کا قرب حاصل کرنے کے خواہاں رہتے ہیں، دنیا میں مقام و منزلت اور آخرت کے لیے بندگی خدا کا باعث بنتا ہے، لوگوں کا محبت کرنا جیسا کہ اس ظاہری دنیا میں نظر دوڑائیں تو ہزاروں لوگ ہمیں ایسے ملیں گے، جن کے پاس ظاہری دنیا کی منزلت و کرسی ہوتی ہے، جس کی وجہ سے لاکھوں لوگ ان سے محبت کرتے ہیں، جیسا کہ اس مادی معاشرے میں اکثریت تاجر، سیاست دان، بیوروکریٹس وغیرہ وغیرہ سے لوگ اس لیے قربت چاہتے ہیں کہ معاشرے کے سامنے ان کی اپنی عزت و حوصلہ افزائی ہو کہ اس کا فلاں جنرل، فلاں سیاست دان یا فلاں شخصیت دوست یا رشتہ دار ہے۔

میں قربان جاؤں اس عظیم انسان پر، جس کی شخصیت یہ ہے کہ وہ جانشین پیامبر اسلام (ص) و جانشین حضرت علی علیہ السلام حضرت امام حسین علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں، اس دنیا میں حجت خدا ہیں، دنیا میں جن کے لاکھوں کروڑوں پیرو کار ہیں، جن کو شیعہ و اہل سنت لاکھوں لوگ باب الحوائج کے لقب سے پکارتے ہیں۔  دنیا میں ایسا اعلیٰ مقام پایا کہ لاکھوں لوگ باب الحوائج یعنی دعا قبول ہونے کا دروازہ کہتے ہیں، جن کے در سے لاکھوں بے آسرا و بے کس لوگوں کی مرادیں پوری ہوتی ہیں، جن کے در سے علم و حکمت کے چشمے جاری ہوتے ہیں، جن کی دہلیز سے دنیا کے تمام سوالی اپنی مرادیں حاصل کرکے جاتے ہیں، اس گھرانے کے فرد ہیں، جنہوں نے جاہلیت کے عروج پر علم کے نور سے تمام جہاں کو روشنی کی بخشی۔

خدا کے نزدیک اتنے ہیں کہ اگر کوئی شخص ان کی زندگی میں انہیں اذیت دیتا یے تو اسے اپنے نورانی کردار و حکمت کے ساتھ اس کی تربیت کرتے ہیں۔ ایک شخص مدینہ منورہ میں خلفاء کی اولاد میں سے آپ کی شان میں گستاخی کرتا ہے، جب اس کو موقع ملتا حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کو اذیت دیتا تھا۔ ایک دفعہ امام علیہ السلام کے پاس چند اور لوگ موجود تھے، یہ گستاخی کرتا ہے تو لوگوں نے امام علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا اے آقا و مولا آپ اجازت دیں، ہم اس کو قتل کر دیتے ہیں، امام علیہ السلام نے ان کو سختی سے منع فرمایا۔ ایک دن امام علیہ السلام سوال کرتے ہیں کہ کئی دنوں سے اس شخص کو نہیں دیکھا وہ کہاں ہے۔؟

لوگوں نے جواب دیا کہ وہ مدینہ سے باہر کھیتی باڑی میں مصروف یے۔ امام عالی مقام اس سے ملاقات کرنے مدینہ منورہ سے باہر تشریف لے گئے، جہاں زراعت کے کاموں میں مصروف تھا، جب امام علیہ السلام وہاں پہنچتے ہیں تو دیکھتے ہی وہ شخص امام علیہ السلام سے سخت ناراض ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ میری فصلوں سے نہ گزرو، فضل خراب ہو رہی ہے۔ امام علیہ السلام اس کے الفاظ کی پرواہ کیے بغیر آگے بڑھ کر اس کے ساتھ محبت و شفقت سے پیش آتے ہیں اور کافی دینار اس کو ہدیہ دے کر فرماتے ہیں یہ آپ کے لیے اور آپ کی فصل بھی ٹھیک ہو جائے گی، اللہ اس میں برکت عطاء کرے گا۔ اس شخص نے امام علیہ السلام سے چاہا کہ آپ اسے معاف کر دیں، جو گستاخیاں کیا کرتا تھا۔ چند دنوں بعد یہی شخص مدینہ منورہ میں مسجد کے اندر داخل ہوتا کہ ناگہاں اس کی نظر حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام پر پڑتی ہے اور کہتا ہے "اللَّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ" اس کے بعد شروع کرتا ہے، امام علیہ السلام کی تعریف و لبوں پر دعائیہ کلمات جاری کرتا ہے۔

خداوند عالم کی بندگی کرتے ہوئے حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام اس طرح لوگوں کی خدمت کرتے تھے کہ رات کی تاریکی میں لوگوں کے گھروں میں کھانے پینے کی اشیاء پہنچایا کرتے تھے، تاکہ اس معاشرے میں کوئی فقیر و مسکین رات کو بھوکا نہ سوئے۔ فقراء و مساکین کی ہر طرح سے مدد کیا کرتے تھے۔ روایات میں ملتا ہے کہ حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے ایک ہزار غلاموں کو خرید کر آزاد کیا تھا، مثلاً اس طرح آج کے دور میں فقراء و مساکین قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں، ان کا قرض ادا کرنا ہمارے لیے سیرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام ہے۔  آج کے اس دور میں بھی ہم اگر سیرت معصومین علیہ السلام اپناتے ہوئے تھوڑی سی کوشش کریں تو کئی حق دار فقراء و مساکین کا حق ادا ہوسکتا ہے، جس سے وہ لوگ معاشرے میں عزت و وقار کی زندگی بسر کرسکتے ہیں۔

بدون شک و تردید جب بندہ اپنے مالک کی بارگاہ میں محو گفتگو ہوتا ہے، اس وقت پروردگار عالم کے فرشتے عرش الہیٰ پر فخر و مباہات کرتے ہیں اور جب خداوند کریم کی بارگاہ میں وقت کے امام، حجت خدا، جانشین پیامبر اسلام (ص)، لوگوں میں سے سب سے افضل انسان، معرفت و علم و حکمت کی بلندیوں کے ساتھ سجدہ ریز ہوتا ہے، تب مخلوقات خدا کے لیے رحمت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔ حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کہ عبادت کا یہ عالم تھا کہ وقت کا دشمن فاسق و فاجر شخص بھی آپ کی عبادت و سجود کو دیکھ کر انگشت بدنداں ہوگیا۔ ہارون الرشید سخت گیر و ظالم ترین دشمن تھا، جب آپ علیہ السلام کو ہارون کے قید خانے میں قید کر دیا گیا تو اس وقت ہارون نے قید خانے کا ایک خفیہ سوراخ اپنے محل کی جانب رکھا ہوا تھا، تاکہ قید خانے مناظر سے آگاہ رہے۔

حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی قید کے دوران کئی دنوں تک ہارون مخفیانہ طور پر اس سوراخ سے دیکھتا رہا کہ ایک کپڑا ہے، جو ہمیشہ ایک جگہ پر پڑا ہوتا ہے، ہارون قید خانے کے مسئول ربیع جس کا نام تھا، اس سے سوال کرتا ہے کہ میں کئی دنوں سے یہ کپڑا دیکھ رہا ہوں، یہ کیوں یہاں پڑا رہتا ہے۔ ہارون کو ربیع جواب دیتا ہے کہ یہ آپ کے قیدی ہیں، یہ کپڑا نہیں بلکہ حجت خدا شعیوں کے ساتویں امام موسیٰ کاظم علیہ السلام ہیں، جب سورج طلوع کرتا ہے تو سجدے میں سر رکھتے ہیں اور ظہر تک خداوند عالم کی بارگاہ میں سجدہ کرتے ہیں۔ ہارون نے جب ربیع کا جواب سنا تو حیران و پریشان ہوا، ناخواستہ اس کی زبان سے یہ الفاظ جاری ہوئے کہ یہ شخص بنی ہاشم کے رہبروں میں سے ہے۔ حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام اکثر و بیشتر دن کو روزہ دار ہوتے تھے، ان کی یہ روش تھی کہ نماز مغرب کے بعد افطار کیا کرتے تھے۔ امام علیہ السلام کی زندگی میں بہت کم راتیں ایسی ہوں گی کہ جن میں آپ نے ساری رات عبادت نہ کی ہو۔ امام علیہ السلام بہترین آواز کے ساتھ قرآن کریم کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔

حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی زندگی کا مختصر سا مطالعہ کرنے سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ امام علیہ السلام نے زندگی کے ہر شعبے میں انسانیت کی خدمت کی اور پروردگار عالم کی بندگی کی۔ ہمیں امام علیہ السلام کی سیرت پر چلتے ہوئے فقراء و مساکین کی خدمت کرنے میں دنیا کے باقی طبقات سے بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیئے اور اسی طرح بندگی باری تعالیٰ میں ہمیشہ سیرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اسلام کے باقی فرقوں کی نسبت ہمیں عبادت میں پہل کرنی چاہیئے، حبکہ ہمیں زندگی کے ہر معاملے میں امام عالی مقام کو یاد کرتے ہوئے تمام امور کو ادا کرنا چاہیئے، تاکہ اس میں خدا کی رضا و امام علیہ السلام کی خوشنودی شامل حال ہو، جس سے ہمارے امور دنیوی و اخروی میں ہمیشہ کے لیے برکت برقرار رہے۔
خبر کا کوڈ : 1041608
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش