QR CodeQR Code

حریم وحی کے پاسدار۔۔۔۔۔ باب الحوائج امام موسیٰ کاظمؑ(2)

18 Feb 2023 21:46

اسلام ٹائمز: ایک روایت کی بنا پر ہارون نے امام سے کہا: لوگوں کو کیوں اس بات کی اجازت دیتے ہو کہ وہ تمہیں پیغمبر کی طرف نسبت دیں، یا تم تو رسول اللہ کے بیٹوں میں سے نہیں بلکہ علی کے فرزندوں میں سے ہو؟ امام نے اسے جواب دیا: اے خلیفہ! اگر پیغمبر زندہ ہو جائیں اور تم سے تمہاری بیٹی کا رشتہ طلب کریں تو تم انہیں رشتہ دو گے؟ ہارون نے جواب دیا: کیوں نہیں بلکہ میں عرب پر اس بات کی وجہ سے فخر و مباہات کرونگا۔ امام کاظم نے جواب دیا: لیکن پیغمبر کسی بھی حالت میں مجھ سے میری بیٹی کا رشتہ نہیں مانگیں گے، کیونکہ وہ میرے نانا ہیں۔


تحریر: ارشاد حسین ناصر

وصیت امام صادقؑ اور بعض شیعوں کی پریشانی
مآخذ میں لکھا گیا ہے کہ عباسیوں کی طرف سے مشکلات کے پیش نظر امام صادقؑ نے امام کاظمؑ کی جان کی حفاظت کی خاطر عباسی خلیفہ سمیت پانچ افراد کو اپنا وصی معرفی کیا۔ اگرچہ اپنے بعد کے لئے امام کاظمؑ کو امام کے عنوان سے اصحاب کے لئے معرفی کیا تھا، اس کے باوجود شیعوں کے لئے ابہام ایجاد کیا تھا۔ اس دور میں مؤمن طاق اور ہشام بن سالم جیسے جلیل صحابی بھی شک اور تردید کا شکار ہوگئے اور امامت کے مدعی عبد اللہ افطح کی طرف گئے اور زکات کے بارے میں اس سے سوالات کئے اور جواب سے مطمئن نہیں ہوئے اور پھر امام موسیٰ کاظمؑ کے پاس آئے اور آپ کے جوابات سے مطمئن ہوئے اور آپ کی امامت کو مان گئے۔

شیعہ گروہ بندی
پیروان اہل بیتؑ میں سے بعض شیعہ امام صادقؑ کی حیات میں ہی آپ کے بڑے بیٹے اسماعیل بن جعفر کی امامت کے قائل تھے۔ اسماعیل کا انتقال ہوا تو ان کی موت کا یقین نہین کیا اور انہیں پھر بھی امام سمجھتے رہے۔ امام صادقؑ کی شہادت کے بعد ان میں سے بعض نے اسماعیل کی حیات سے مایوس ہو کر ان کے بیٹے محمد بن اسماعیل کو امام سمجھا اور اسماعیلیہ کہلائے۔ بعض دوسرے امام صادقؑ کی شہادت کے بعد عبداللہ افطح کی طرف متوجہ ہوئے اور اس کی پیروی کی اور افطحیہ کہلائے۔ امام موسیٰ کاظمؑ کے زمانے کے دوسرے فرقوں میں ناووس نامی شخص کے پیروکاروں کا فرقہ ناووسیہ اور اور آپ کے بھائی محمد بن جعفر دیباج کی امامت کا قائل فرقہ شامل ہیں۔ امام موسیٰ کاظمؑ کی شہادت کے بعد بھی امام رضاؑ کی امامت پر اعتقاد نہ رکھنے والے افراد نے امام موسیٰ کاظمؑ کی امامت پر توقف کیا اور آپ کو مہدی اور قائم قرار دیا اور واقفیہ کہلائے۔ مہدویت اور قائمیت کے تفکر کی جڑیں بنیادی شیعہ اصولوں میں پیوست ہیں اور اس کا سرچشمہ خاندان رسالت سے منقولہ احادیث ہی ہیں، جن کی بنا پر خاندان رسالت کا ایک فرد قائم اور مہدی کے عنوان سے قیام کرکے دنیا کو عدل و انصاف کا گہوارہ بنائے گا۔

غالیوں کی سرگرمیاں
امام کاظم کے دور امامت میں غالیوں نے بھی اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ اس دور میں فرقہ بشیریہ بنا، جو محمد بن بشیر سے منسوب تھا اور یہ شخص امام موسیٰ بن جعفر کے اصحاب میں تھا۔ وہ امام کی زندگی میں امام پر جھوٹ و افترا پردازی کرتا تھا۔ امام کاظم محمد بن بشیر کو نجس سمجھتے اور اس پر لعنت کرتے تھے۔

مناظرے اور مکالمے
امام کاظم کے مناظرات اور گفتگو مختلف کتب میں مذکور ہیں، جن میں سے بعض خلفائے بنی عباس، یہودی دانشمندوں، مسیحیوں، ابو حنیفہ اور دیگران سے منقول ہیں۔ باقر شریف قرشی نے تقریباً آٹھ مناظرے اور گفتگو مناظرے کے عنوان کے تحت ذکر کی ہیں۔ امام کاظم ؑ نے مہدی عباسی کے ساتھ فدک اور قرآن میں حرمت خمر کے متعلق گفتگو کی۔ امام ؑ نے ہارون عباسی سے مناظرہ کیا، جبکہ وہ اپنے آپ کو پیامبرؐ سے منسوب کرکے اپنے آپ کو پیغمبر کا رشتہ دار سمجھتا تھا، امام کاظمؑ نے اس کے سامنے اس کی نسبت اپنی رشتہ داری کو رسول اکرم سے زیادہ نزدیک ہونے کو بیان کیا۔ موسیٰ بن جعفر نے دیگر ادیان کے علماء سے بھی مناظرے کئے، جو عام طور پر سوال و جواب کی صورت میں تھے، جن کے نتیجے میں وہ علماء مسلمان ہوگئے۔

بریہہ شیخ صدوق اور دیگر ہشام بن حکم سے منقول روایت کے مطابق مسیحی علماء میں سے بریہہ ایک گروہ کے ہمراہ ہشام کے پاس آیا اور اس نے مناظرہ کیا۔ ہشام نے کامیابی حاصل کی۔ پھر وہ سب امام صادق ؑسے ملاقات کرنے کیلئے عراق سے مدینہ آئے۔ امام صادق ؑکے گھر داخل ہوتے ہوئے ان کی ملاقات امام موسیٰ کاظمؑ سے ہوئی۔ بعض روایات کے مطابق ہشام نے امام موسیٰ کاظم ؑسے واقعہ بیان کیا اور ان عیسائیوں کی امام سے گفتگو ہوئی کہ جس کے بعد بریہہ اور اس کی بیوی مسلمان ہو کر امام کے خدمت کار ہوگئے۔ [ہشام نے ان کی بات چیت اور مسلمان ہونے کا واقعہ امام صادقؑ کے سامنے بیان کیا تو امام صادق نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ذُرِّیَّهً بَعْضُها مِن بَعْضٍ وَاللهُ سَمیِعُ عَلیِم  ُترجمہ: "جو ایک نسل ہے، جن کے بعض بعض سے ہیں (یہ اولاد ہے ایک دوسرے کی) اور خدا بڑا سننے والا، بڑا جاننے والا ہے۔۔"

ہارون عباسی
ہارون پیامبر کی قبر کے پاس آیا اور حاضرین کے سامنے رسول خدا ؐ سے اپنی رشتہ داری ظاہر کرنے کی خاطر میرے چچا کے بیٹے کہہ کر رسول اللہ کو خطاب کیا۔ امام کاظمؑ وہاں موجود تھے، آپ نے میرے بابا کہہ کر رسول خدا کو خطاب کیا۔ ایک روایت کی بنا پر ہارون نے امام سے کہا: لوگوں کو کیوں اس بات کی اجازت دیتے ہو کہ وہ تمہیں پیغمبر کی طرف نسبت دیں، یا تم تو رسول اللہ کے بیٹوں میں سے نہیں بلکہ علی کے فرزندوں میں سے ہو؟ امام نے اسے جواب دیا: اے خلیفہ! اگر پیغمبر زندہ ہو جائیں اور تم سے تمہاری بیٹی کا رشتہ طلب کریں تو تم انہیں رشتہ دو گے؟ ہارون نے جواب دیا: کیوں نہیں بلکہ میں عرب پر اس بات کی وجہ سے فخر و مباہات کروں گا۔ امام کاظم نے جواب دیا: لیکن پیغمبر کسی بھی حالت میں مجھ سے میری بیٹی کا رشتہ نہیں مانگیں گے، کیونکہ وہ میرے نانا ہیں۔

سیرت
امام موسی کاظمؑ کی خدا سے ارتباط، لوگوں اور حاکمان وقت کے روبرو ہونے کی روشیں مختلف تھیں۔ خدا سے ارتباط کی روش کو سیرت عبادی، حاکمان وقت اور لوگوں سے ارتباط کی روش کو سیاسی اور اخلاقی روش سے تعبیر کیا گیا ہے۔

عبادی سیرت
شیعہ و سنی منابع کے مطابق امام کاظم ؑبہت زیادہ اہل عبادت تھے۔ اسی وجہ سے ان کے لئے عبد صالح استعمال کیا جاتا ہے۔ بعض روایات کی بنا پر حضرت امام موسیٰ کاظمؑ اس قدر زیادہ عبادت کرتے تھے کہ زندانوں کے نگہبان بھی ان کے تحت تاثیر آجاتے۔ شیخ مفید موسیٰ بن جعفرؑ کو اپنے زمانے کے عابد ترین افراد میں سے شمار کرتے ہیں۔ ان کے بقول گریہ کی کثرت کی وجہ سے آپ کی ریش تر ہو جاتی۔ وہ عَظُمَ الذَّنْبُ مِنْ عَبْدِكَ فَلْيَحْسُنِ الْعَفْوُ مِنْ عِنْدِكَ کی دعا بہت زیادہ تکرار کرتے تھے۔ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الرَّاحَةَ عِنْدَ الْمَوْتِ وَ الْعَفْوَ عِنْدَ الْحِسَابِ کی دعا سجدے میں تکرار کرتے، یہاں تک کہ ہارون کے حکم سے جب زندان تبدیل کیا جاتا تو اس پر خدا کا شکر بجا لاتے کہ خدا کی عبادت کیلئے پہلے سے زیادہ فرصت مہیا کی ہے اور کہتے: "خدایا! میں تجھ سے عبادت کی فرصت کی دعا کرتا تھا تو نے مجھے اس کی فرصت نصیب فرمائی، پس میں تیرا شکر گزار ہوں۔"

اخلاقی سیرت
مختلف شیعہ اور سنی منابع میں امام موسیٰ کاظم کی بردباری اور سخاوت کا تذکرہ موجود ہے۔ شیخ مفید نے انہیں اپنے زمانے کے ان سخی ترین افراد میں سے شمار کیا ہے کہ جو فقیروں کیلئے خود خوراک لے کر جاتے تھے۔ اسی طرح شیخ مفید امام موسیٰ کاظم کو اپنے گھر اور دوسرے رشتہ داروں کے ساتھ صلۂ رحمی کی سب سے زیادہ سعی کرنے والا سمجھتے ہیں۔

اسیری اور قیدخانہ
امام کاظمؑ کی گرفتاری کے اسباب میں مختلف اقوال نقل ہوئے ہیں، جس سے اہل تشیع کے درمیان امامؑ کے مرتبے اور مقام و منزلت کی عکاسی ہوتی ہے۔ چنانچہ مؤرخین نے بیان کیا ہے کہ عباسی دربار کے وزیر یحیی برمکی یا پھر امامؑ کے ایک بھائی نے عباسی بادشاہ ہارون عباسی کے پاس چغل خوری اور بہتان تراشی کی تھی۔ ہارون نے امامؑ کو دو مرتبہ قید کیا، لیکن تاریخ پہلی مدتِ قید کے بارے میں خاموش ہے، جبکہ دوسری مدتِ قید سنہ 179 سے 183 ہجری تک ثبت کی گئی ہے، جو امامؑ کی شہادت پر تمام ہوئی۔ ہارون نے سنہ 179 میں امامؑ کو مدینہ سے گرفتار کیا۔ امامؑ 7 ذی الحجہ کو بصرہ میں عیسیٰ بن جعفر کے قید خانے میں قید کئے گئے؛ جہاں سے آپ کو بغداد میں فضل بن ربیع کی زندان میں منتقل کیا گیا۔ فضل بن یحیی کی زندان اور سندی بن شاہک کا زندان وہ قید خانے تھے، جن میں امامؑ نے اپنی عمر کے آخری لمحات تک اسیری کی زندگی گذاری۔

شہادت
امام کاظمؑ 25 رجب سنہ 183 ہجری کو بغداد میں واقع سندی بن شاہک کے زندان میں شہید کیا گیا۔ آپ کی شہادت کے بعد سندی نے حکم دیا کہ آپ کا جسم بے جان بغداد کے پل پر رکھ دیا جائے اور اعلان کیا جائے کہ آپ طبیعی موت پر دنیا سے رخصت ہوئے ہیں۔ آپ کی شہادت کے متعلق بیشتر تاریخ نگار مسمومیت کے قائل ہیں اور یحییٰ بن خالد اور سندی بن شاہک آپ کے قاتلوں کے طور پر جانے گئے ہیں، جبکہ بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ آپ کو ایک بچھونے میں لپیٹ دیا گیا، جس کی وجہ سے آپ کا دم گھٹ گیا اور شہید ہوگئے ہیں اور بعض دیگر نے لکھا ہے کہ ہارون کے حکم پر پگھلا ہوا سیسہ امامؑ کے گلے میں انڈیل دیا گیا، تاہم مشہور ترین قول، جو تواتر کی حد تک پہنچ گیا ہے، یہی ہے کہ یحیی برمکی نے ہارون کے حکم پر سندی بن شاہک کے ذریعے زہر آلود کھجوروں کے ذریعے امام کو شہید کروایا۔

روایت میں ہے کہ ہارون نے شیعیان آل رسولؐ کا مرکز متزلزل کرنے، اپنے اقتدار کو طول دینے اور حکومت کے استحکام کی غرض سے آپ کی شہادت کا حکم جاری کیا اور یہودی سندی بن شاہک نے 10 زہریلی کھجوریں امامؑ کو کھلا دیں اور کہا مزيد تناول کریں تو امامؑ نے فرمایا: حَسبُکَ قَد بَلَغتَ ما یَحتاجُ اِلیهِ فِیما اُمِرتَ بِهِ۔ "تیرے لئے یہی کافی ہے اور تجھے جو کام سونپا گیا تھا، اس میں تو اپنے مقصد تک پہنچ گیا۔" اس کے بعد سندی نے چند قاضیوں اور بظاہر عادل افراد کو حاضر کیا، تاکہ ان سے گواہی دلوا سکے کہ امام بالکل صحیح و سالم ہیں۔ امام کاظمؑ نے سندی کی سازش کو بھانپتے ہوئے درباری گواہوں سے کہا: "گواہی دو کہ مجھے تین دن قبل مسموم کیا گیا ہے اور اگرچہ میں بظاہر تندرست ہوں، مگر بہت جلد اس دنیا سے رخصت ہو جاؤں گا؛" راوی کہتا ہے کہ امامؑ اسی دن اس دنیا سے رخصت ہوئے۔

مدفن اور زیارت کا ثواب
امام کاظمؑ اور امام محمد تقیؑ بغداد کے کاظمین میں آپ کا حرم واقع ہے، جو حرم کاظمین سے مشہور ہے اور مسلمان بالخصوص شیعہ وہاں زیارت کرنے آتے ہیں۔ امام رضاؑ کی ایک روایت کے مطابق آپ کی قبر کی زیارت کا ثواب رسول اللہ، امام علیؑ اور امام حسینؑ کی قبر کی زیارت کے برابر ثواب ہے۔ مدح امام موسیٰ کاظم علیہ السلام میں علامہ ذیشان حیدر جوادی کلیم الہ آبادی کا کلام
کسی کو حرف باطل کا اگر انکار کرنا ہے
تو حق موسیٰ کاظم کا بھی اقرار کرنا ہے
اگر اقرار دین احمد مختار کرنا ہے
مکمل اتباع عترت اطہار کرنا ہے
اگر وصفِ کمال عترت اطہار کرنا ہے
تو پھر سولی پہ مثل میثم تمار کرنا ہے
یقیناََ ہر عمل کو باطل و پیکار کرنا ہے
خدا کو کرکے سجدہ گر بتوں سے پیار کرنا ہے
اگر کرنا ہے دل سے اتباع موسیٰ کاظم
تو زنداں میں بھی شکر ایزد غفار کرنا ہے
کھِلانے ہیں کچھ اتنے پھول تسبیح الہٰی سے
کہ زنداں میں بھی اک گلشن نیا تیار کرنا ہے
نہ ہوتا ساحلِ دجلہ پہ کیونکر روضہء کاظم
کہ اِن کو امت عاصی کا بیٹرا پار کرنا ہے

نوٹ: یہ مضمون وکی شیعہ سے اخذ کیا گیا ہے، تفصیلی مضمون، ریفرنسز کیساتھ اس ویب پورٹل پہ موجود ہے۔
https://ur.wikishia.net/view/%D8%A7%D9%85%D8%A7%D9%85_%D9%85%D9%88%D8%B3%DB%8C_%DA%A9%D8%A7%D8%B8%D9%85_%D8%B9%D9%84%DB%8C%DB%81_%D8%A7%D9%84%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85


خبر کا کوڈ: 1041807

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/1041807/حریم-وحی-کے-پاسدار-باب-الحوائج-امام-موسی-کاظم-2

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org