0
Friday 7 Oct 2011 21:19

فیصلہ ہمیں کرنا ہے!

فیصلہ ہمیں کرنا ہے!
تحریر:سیدہ ثمرین بخاری 
پاکستان میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں رہی، جن کو ہمیشہ یہ خوش فہمی رہی ہے کہ امریکہ ہمارا دوست ہے۔ لیکن وہ تمام افراد یہ دعویٰ کرتے ہوئے تاریخی حقیقت فراموش کر دیتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ امریکہ نے ہمشہ اپنے مفادات کا خیال رکھا۔ اور جب کسی مُلک سے وابستہ اپنے مقاصد حاصل کر لئے تو اس مُلک کو اپنی دوستوں کی فہرست سے ایسے ہی نکالا جیسے کوئی مکھن میں سے بال نکال باہر کرے۔ امریکہ کا کسی مُلک کی حمایت کرنا ہو یا اس سے دوستی کا دعویٰ، اس کے پیچھے مفاد صرف امریکہ کا ہی پوشیدہ ہوتا ہے اور مقصد اور مفاد بر آتے ہی آنکھیں پھرنے والوں بلکہ قتل کرنے والوں میں امریکہ ہی پیش پیش ہوتا ہے۔ پھر وہ اُسامہ ہو، صدام حُسین ہو یا حُسنی مبارک، جب تک ان سب کی زندگیاں یا ان کا عروج امریکہ کے مفاد میں تھا یہ لوگ سلامت رہے اور جب ان کی موت یا ان کی حکمرانی کے زوال میں امریکہ کے مقاصد کی کامیابی تھی، تب ان لوگوں کے بدترین انجام کو دُنیا نے دیکھا۔ امریکی دوستی کی تاریخ خون سے لکھی گئی ہے۔ چہرے اور کردار بدلتے رہے، مگر ان کرداروں کو سٹیج کرنے والا دماغ ہر بار ایک ہی تھا ’’امریکہ‘‘۔ اس دفعہ پھر ایک ڈرامہ تیار ہے اور اس بار امریکہ کے تیار کردہ سٹیج پر کردار ’’ہم‘‘ ہیں اور ڈرامے کا مقام ہمارا پیارا مُلک پاکستان ہے۔
موجودہ حالات آنے والے وقت کا نظارہ پیش کر رہے ہیں۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ افغانستان میں جو کُچھ ہونا تھا، وہ ہو چُکا، اب اس کے بعد ہمارا نمبر ہے۔ اور اس سلسلے میں امریکہ نے تیور دیکھانا شروع کر دیئے ہیں۔ روز نت نئے بیانات اور اُن میں چھپی ہوئی دھمکیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ سمجھنے والے خوب سمجھتے ہیں کہ امریکہ کی طرف سے حقانی نیٹ ورک کا جو شوشا چھوڑا گیا ہے وہ بے سبب نہیں ہے۔ اس لئے کہ افغانستان میں اپنی بدترین ناکامی کو چھپانے کے لئے امریکہ کو کوئی ایسا کھیل ہر صورت پیش کرنا ہے، جس کے پیچھے امریکہ اپنی ناکامی کی داستان کو پوشیدہ رکھ سکے۔ اس لئے کہ امریکی عوام کا دھیان بٹانے کے لئے عراق اور افغانستان کے بعد ایک اور سپر ڈرامہ درکار ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ افغانستان سمیت دُنیا بھر میں امریکہ کی ناکامی پر امریکی عوام کی جانب سے بھی بہت تیزی سے شدید قسم کے سوالات اُٹھائے جا رہے ہیں اور ان سوالوں کا جواب صاحب بہادر امریکہ کے حکمرانوں کے پاس ہے نہیں۔ اس لئے امریکی عوام کے سامنے جواب دہی سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ اُن کے سوالوں سے بھرے ذہنوں کو ایک بار پھر مداری کے تماشے میں اُلجھا دیا جائے، اور مداری یعنی امریکہ کو دوستی اور امداد کی ڈگڈگی پر نچانے کے لئے پاکستان سے بہتر بندر ملنا ’’مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے‘‘۔ اس تماشے سے امریکی حکومت جواب دینے سے بچ جائے گی اور امریکی عوام بھی اپنی قابل حکومت کی شاندار کارکردگی سے مطمئن رہے گی۔
پاکستان یوں بھی امریکہ کے لئے ایک ایسا قربانی کا بکرا ہے، جس کی بروقت قربانی امریکہ کی ہر طرح کی بھوک مٹا سکتی ہے۔ جیسا کہ اب سب کے علم میں ہے کہ پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ یہ وسائل سونے، کوئلے اور تیل گیس ہر صورت میں یہاں موجود ہیں اور سب جانتے ہیں کہ عراق پر فوج کشی کی بھی اصل وجہ کیا تھی۔ اس وقت امریکہ پاکستان کو نشانہ بنا کر ایک تیر سے کئی شکار کرنے کے چکر میں ہے اور اپنے اس منصوبے کو عملی شکل دینے کے حوالے سے امریکہ کی کارکردگی کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔ سب اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ بلوچستان قدرتی وسائل کے اعتبار سے کس قدر اہمیت کا حامل ہے اور وہاں پر امریکہ کی کارگزاریاں کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ اسی منصوبہ بندی کے نتیجے میں نواب اکبر بگٹی جیسے اہم ترین بلوچ رہنما مارے گئے۔
اور امریکہ نے اس آگ کو اس وقت مزید ہوا دی، جب امریکی غلاموں نے اکبر بگٹی کی موت سے غم زدہ بلوچ قوم کو اس بات پر اُکسایا کہ وہ حکومت پاکستان، جو اُن کی طرف ہمیشہ جانبداری کا سلوک روا رکھتی رہی ہے اور اُن کے بہت سے بنیادی حقوق کو غضب کئے ہوئے ہے، سے علیحدگی اختیار کر لیں۔ مگر ہمدرد اور غیرت مند بلوچوں نے جو پاکستان کی سالمیت کی حفاظت ہر دور میں کرتے رہے ہیں، انہوں نے اور پاکستان فوج نے اس سازش کو کسی حد تک ناکام بنا دیا۔ لیکن اس کے باوجود بھی بلوچستان کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک میں کمی واقع نہیں ہوئی۔ وہاں آج بھی خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے اور خوف کا راج چار سو پھیلا ہوا ہے۔ جبکہ کہا جاتا ہے کہ جو چیز جس قدر قیمتی ہو اس کی حفاظت بھی اتنی ہی زیادہ کی جاتی ہے۔ مگر بلوچوں کی حق تلفی کر کے ہماری حکومت مسلسل ایک بہت بڑی غلطی کئے جا رہی ہے، جس کے نتایج بہت برے نکل سکتے ہیں۔ بیشک بلوچستان کو پاکستان سے علیحدہ کرنے کی امریکہ سازش وقتی طور پر ناکام ہو گئی، مگر امریکہ کی یہ ناکامی ہماری حکومت اور ہمارے لوگوں کی طرف سے کی گئی چھوٹی سی غلطی کی منتظر ہے اور بدنصیبی سے ہم وہ لوگ ہیں جو غلطی جان بوجھ کر کرتے ہیں۔ یوں تو امریکہ پاکستان میں داخل ہو ہی چُکا ہے اور موجودہ حالات تیزی سے امریکہ کے پاکستان میں داخلے کی راہ ہموار کئے جا رہے ہیں۔
ایک طرف امریکی سازش نے پاکستان کو دہشت گردی کی جنگ میں اس بری طرح اُلجھایا کہ آج پاکستان خود حالت جنگ میں ہے، اور دوسری طرف ہماری فوج کو عوام کی نظروں سے گرانے کی کوششیں دن رات جاری ہیں۔ لیکن شکر ہے کہ پاکستانی عوام جانتی ہے کہ پاک فوج نے برے سے برے وقت میں اس وطن کی حفاظت کو اپنی اولین ترجیح بنائے رکھا اور بدترین حالات میں عوام کی مدد کے لئے ہمیشہ موجود رہے، اس لئے آج بھی پاکستانی عوام کے دلوں میں پاک فوج کی عزت اور وقار قائم ہے، اور پاکستانی عوام جانتی ہے کہ پاک فوج اس مُلک کی سالمیت کی ضامن ہے۔ اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ پاک فوج کو عوام کی نظروں سے گرانے کا دُشمن کا یہ منصوبہ کامیاب نہیں ہو سکا۔ 
لیکن دُشمن کی ہمارے خلاف منصوبہ بندی کی وجہ سے روز ہی نجانے کتنی معصوم جانیں لقمہ اجل بن رہی ہیں۔ کہیں دھماکے تو کہیں گولیوں کی بارش، پاکستان کا کوئی شہر ایسا نہیں جو دہشتگردی کی نام نہاد جنگ کے نیتیجے میں خون سے لال نہ ہو گیا ہو، کراچی جیسے حسین شہر کی فضا میں موت کی سسکیوں کے سوا کُچھ سنائی نہیں دے رہا۔ اپنوں کی لاشیں شمار کرتے کرتے لوگ تھک گئے ہیں مگر ظالموں کے ظُلم میں کوئی کمی نہیں آ رہی۔ جو لوگ دھماکوں اور گولیوں سے بچ نکلتے ہیں اُن کو سیلاب، کبھی زلزلے اور اب تو ایک اور عذاب ڈینگی کی صورت میں نازل ہو چکا ہے نگل رہا ہے۔ دُشمن نے ہم کو ہر طرف سے گھیرے میں لے رکھا ہے، مگر ہم نے ہوش کے ناخن نہیں لئے، اپنے راستے سیدھے نہیں کئے، اور ہماری ان ہی غفلتوں اور کوتائیوں کے سبب آسمان سے بارش رُکنے کا نام نہیں لیتی، تو کبھی زمین تھرتھرانے لگتی ہے۔ ہمیں سمجھنا چاہئے کہ ہم نے اگر ابھی بھی اپنا قبلہ درست نہ کیا تو خدا جانے ہمارا کیا حال ہو گا۔؟
خدا نے پاکستان کی صورت میں ہمیں ایک بہترین انعام دیا، مگر ہم نے خدا کے اس تُحفے کی قدر و قیمت کبھی سمجھی ہی نہیں۔ ہم نے پاکستان کی سلامتی کو امریکہ کی خوشی اور رضا مندی سے مشروط کر دیا۔ ہمیں سمجھایا جاتا رہا کہ ہمیں ہر حال میں امریکہ کو راضی رکھنا ہے اور اس کا ساتھ ہر قیمت پر دینا ہو گا، اس لئے کہ امریکہ پاکستان کی ضرورت ہے۔ مگر حقیقت اس کے برعکس ہے، اس کی طرف عوام کا دھیان کبھی جانے ہی نہیں دیا گیا، ایسی سچائی جو ہمارے قائد نے بہت سالوں پہلے ہی عیاں کر دی تھی۔ ہمارے قائد نے امریکہ کی معروف صحافی مارگریٹ بروک وائیٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’یہ سچ ہے کہ امریکہ اور پاکستان کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے، مگر امریکہ کو پاکستان کی زیادہ ضرورت ہے، اس لئے کہ پاکستان اپنے مُحل وقوع کے اعتبار سے دُنیا کا محور ہے۔‘‘ 
یہ بات سچ ہے کہ ہم میں سے بہت سے ہیں جو بہت کُچھ جانتے بھی ہیں اور بہت کُچھ کر بھی سکتے ہیں، اس وطن کے لئے، اس مُلک کی عوام کے لئے، مگر افسوس اس بات کا ہے کہ اس مُلک کے بااثر طبقے نے ہمیشہ اپنے مفادات کو اہمیت دی، مفادات کی اس جنگ کے نتیجے میں آج پاکستان ناکامی کے دہانے پر پہنچ چُکا ہے۔ امریکی غُلامی کی ضرورت اس مُلک کی عوام کو نہیں بلکہ اس مُلک کے حکمرانوں کو ہے۔ سب نے اپنی حکومتی مدت بڑھانے کے لئے اس مُلک کے وقار و حمیت کا سودا کیا۔ اور ہر گزرتے دن کے ساتھ امریکی غلامی کے پٹے کو عوام کی زخمی گردنوں پر مزید کستے جا رہے ہیں۔ 
امریکی دوستی کا دم بھرنے والے ایک بار امریکہ کے دوستوں کی تاریخ پر نظر ڈالیں، تو جان جائیں گے کہ امریکہ اپنے مقاصد کے حصول کے بعد اپنے نام نہاد دوستوں کو وہاں مارتا ہے، جہاں اُن کے منہ میں پانی ڈالنے والا بھی کوئی نہیں ہوتا اور دوستی کی آڑ میں جب امریکہ وار کرتا ہے تو صدام حُسین جیسے حکمران کو عید کے دن پھانسی کی سزا سُنائی جاتی ہے۔ ہمارے حکمران اپنے ذاتی مفادات کے حصول میں اندھے ہو کر یہ حقیقت فراموش کر بیٹھے ہیں کہ امریکہ سے دوستی ان کی ذاتی عقل مندی یا خوبیوں کی وجہ سے نہیں ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کی ان سے دوستی کا سبب ہی پاکستان ہے، امریکہ نے ان لوگوں کو اپنے وقتی دوستوں کی فہرست میں اس لئے شامل کیا کہ یہ لوگ پاکستانی ہیں اور امریکہ کو پاکستان اپنے تمام تر قدرتی وسائل کے ساتھ مطلوب ہے۔ امریکہ کی مثال مداری کی طرح ہے اور بچارے کم عقل ہمارے حکمرانوں کو امریکہ دوست اس لئے کہتا ہے، کیونکہ امریکہ کو پاکستان میں اپنی ڈگڈگی پر ناچنے کے لئے چند بندر درکار ہیں اور جس دن مداری کا یہ تماشا اختتام پذیر ہو گا، مداری امریکہ اپنی دوستی کی ڈگڈگی پر ناچتے ان تمام بندر نما دوستوں کو کُتے کی موت مارنے میں ایک دن کا وقت بھی نہیں لگائے گا۔
یہ حققت عیاں ہے کہ پاکستان اس وقت امریکہ کے مفادات و مقاصد کی اولین فہرست میں شامل ہے اور امریکہ نے اپنے مطلوب کی طرف قدم بڑھانا تیز کر دیئے ہیں۔ پاکستان پر الزامات کی بارش اسی سلسلے کی کڑی ہے، یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ امریکہ جب کسی مُلک میں داخل ہونا چاہتا ہے تو شروعات الزامات سے ہی کرتا ہے، پھر عراق ہو یا افغانستان، اور اب کے باری ہماری ہے، اور امریکہ پاکستان میں داخل ہونے والے راستے پر چل کر نہیں بلکہ دوڑ کر آگے بڑھ رہا ہے۔ اسی سلسلے کی کڑی ہے کہ سابق چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی مائیک مولن نے براہ راست اور دو ٹوک الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ’’پاکستان افغانستان میں دہشتگردی کروا رہا ہے اور کابل پر حملہ ’’ آئی ایس آئی‘‘ کی مدد سے ہوا اور اس مقصد کے لئے ’’حقانی نیٹ ورک‘‘ کو استعمال کیا گیا ہے۔‘‘ امریکہ کی طرف سے پاکستان پر عائد کئے جانے والے الزامات کی تیزی خطرے کی ایسی گھنٹی ہے جو مسلسل بج کر ہمیں ہوشیار کر رہی ہے۔ تاکہ ہم ہوش میں آئیں، خود کو پہچانیں اور اس مُلک کی قدروقیمت سمجھیں، اس کی حفاظت کے لئے اپنے باہمی اختلافات کو بھلا کر اُٹھ کھڑے ہوں۔ ہم میں سے ہر ایک آج تک اپنے لئے جیتا رہا۔ اسی خود غرضی نے آج ہمیں یہ دن دیکھائے ہیں۔
ہم لوگوں نے قیامِ پاکستان سے آج تک صرف اپنے مفادات کو اہمیت دی اور اس کا انجام ہمارے سامنے ہے، ہم لوگوں نے کبھی من حیث القوم اس مُلک کی بقا اور اس کی ترقی کے لئے زحمت نہیں کی۔ 64 سال ہم نے برباد کر دیئے، لیکن آج ہمارے پاس ضائع کرنے کے لئے مزید ایک لمحہ بھی نہیں ہے۔ دُشمن ہمارے گھر کے دروازے پر گھات لگائے بیٹھا ہے اور ہماری حالت ابھی تک اس اس ہاتھ جیسی ہے جس کی ساری اُنگلیاں سلامت ہوں مگر جُدا جُدا ہوں۔ آج اس ہاتھ کی پانچوں اُنگلیوں کو متحد ہونے کی ضرورت ہے، تاکہ یہ ایک مُٹھی کی صورت نظر آئیں۔ ہمیں ہر حال میں پاکستان اور اپنی بقاء کی خاطر متحد ہونا ہے، اس لئے کے دُنیا کی بڑی سے بڑی فوج 18کروڑ عوام کو شکست نہیں پائے گی۔ ہمیں اپنے وطن کی عزت کے لئے خود کو وقف کرنے کی قسم کھانی ہو گی اور یہ عزم کرنا ہو گا کہ اس مُلک کی سلامتی اور عزت کے عوض ملنے والی امداد سے بھوکے مر جانا پسند کریں گے۔ بقول اقبال:
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آیے ہو پرواز میں کوتاہی

یہ وقت بہت مشکل بہت کڑا ہے، لیکن ایسے حالات سے لڑنا ہی غیرت مند قوموں کی نشانی ہے، اس لئے کہ جب قوموں پر ایسے وقت آتے ہیں تو ہی قوموں کی قسمت کا فیصلہ ہوتا ہے۔ 
حضرت علی ع کا فرمان ہے کہ ’’اپنے سے پہلے والوں سے عبرت حاصل کرو، اس سے پہلے کے اپنے سے بعد والوں کے لئے عبرت بن جاو ‘‘۔  یہ بات تو یقینی ہے کہ پاکستانی قوم کو دُنیا کے لئے مثال بننا ہے۔ ہمیں من حیث القوم فقط یہ طے کرنا ہے کہ ہمیں عزت کی مثال بننا ہے یا عبرت کی۔ فیصلہ آپ پر ہے!
خبر کا کوڈ : 104472
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش