0
Monday 6 Mar 2023 09:27

ظہور نزدیک ہے؟            

ظہور نزدیک ہے؟            
تحریر: سید تنویر حیدر

ہم صدیوں سے ہر نماز کے بعد ظہورِ امامِ زمانہ کی جو دعا تسلسل کیساتھ مانگ رہے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ وہ اب مستجاب ہونے کے قریب ہے۔ اس وقت چشمِ منتظر، افقِ عالم پر جس طرح کے نئے مناظر کو تخلیق ہوتا دیکھ رہی ہے، وہ کسی ایسے آفتابِ عالم تاب کے طلوع ہونے کی بشارت دے رہے ہیں، جو یقیناً شب گزیدہ انسانیت کیلئے روشنی کا پیغام لے کر افق کی نادیدہ گہرایوں سے اُبھرے گا۔ گردشِ زمانہ پر نظر رکھنے والے اہل نظر آج کے زمانے کو ”عصرِ ظہور“ کا عنوان دے رہے ہیں۔ رسولِ خدا اور آٸمہء اہلبیتؑ سے منسوب روایات اس نئے منظر نامے کی پہلے ہی خبر دے چکی ہیں۔ آج زیرِ زمین اور بالائے زمین لرزا دینے والی جن تبدیلیوں کو ہم اپنی چشمِ سر سے دیکھ رہے ہیں، ان کا ذکر صدیوں پہلے کر دیا گیا ہے۔ عالم انسانیت چودہویں صدی کے اختتام پر جس بڑی تبدیلی کا منتظر تھا، وہ انقلابِ اسلامی کی شکل میں منصہء شہود پر ظاہر ہوچکی ہے۔ ایران کے انقلاب نے صدیوں کا ”سٹیٹس کو“ توڑ کر ظہورِ منجیء بشریت کا راستہ ہموار کر دیا ہے۔

قادرِ مطلق نے اپنے کلام مقدس میں جہاں دنیائے ستم کیخلاف آخری قیام کرنیوالے مہدیء موعود کا مختلف پیرائے میں ذکر کیا ہے، وہاں ان کے ظہور سے قبل دنیا میں ایسی نابغہء روزگار ہستیوں کی موجودگی کا ذکر بھی کھلے انداز میں کیا ہے، جو انقلاب مہدی کے لیے زمینہ سازی کا کام کریں گی۔ اگرچہ ہمارا دھیان اس طرف کم کم ہے۔ نماز جمعہ میں ہم جس سورہء جمعہ کی تواتر سے تلاوت کرتے ہیں اور سنتے ہیں، ہم نے اسے زیادہ تر احکام نماز جمعہ کے تناظر میں ہی دیکھا ہے۔ شاید ہم نے اسے اس نظر سے کم ہی دیکھا کہ خداوند قدوس نے اس سورہ میں ایک ایسی جماعت اور گروہ کا ذکر کیا ہے، جنہیں فضیلت کے اعتبار سے رسول خدا کے اصحاب میں سے قرار دیا گیا ہے اور جو آخری زمانے میں ظہور امام زمانہ سے پہلے ظاہر ہوں گی۔ ان سے آگاہی حاصل کرکے ہم آخری زمانے کے طوفانی فتنوں میں اپنی سمت درست رکھ سکتے ہیں۔

صحیح مسلم کی جلد:4 ص:47 میں ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ”ہم رسول خدا کے پاس تھے کہ سورہ جمعہ نازل ہوٸی۔ پس حضرت نے اس کی تلاوت کی۔ یہاں تک کہ آپ اس جگہ پہنچے ”وآخرین منھم لما یلھقوابھم“ تو رسول خدا سے ایک صحابی نے پوچھا کہ وہ کون ہیں، جو ابھی تک ہم سے ملحق نہیں ہوئے ہیں۔ سلمان فارسیؓ اس وقت ہم میں موجود تھے۔ پس رسول خدا (ص) نے سلمانؓ کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا، اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، اگر ایمان ثریا پر بھی ہو تو اس کی قوم کے مرد اسے وہاں سے اتار کر لے آٸیں گے۔“ جس طرح رسول اللہ نے میدانِ غدیرِ خم میں سب کے سامنے امیرالمومنینؑ کا ہاتھ بلند کرکے اور سب کو دکھا کر اپنے بعد آنیوالے حالات میں امت کی امامت کیلئے ان کی پہچان کرواٸی، تاکہ بعد میں آنیوالے امیرالمومنین کے علاوہ کسی اور کا نام بدل کر علی نہ رکھ لیں۔

اسی طرح رسول خدا نے تمام صحابہؓ کے سامنے جنابِ سلمان فارسیؓ کے شانے پر ہاتھ رکھ کر بتایا کہ زمانہء آخر میں سلمان فارسی، جو میرے اہلبیتؑ میں سے ہے، اس کی قوم کے بعض افراد ہیں، جو زمانہء آخر کے فتنوں میں امت کی رہنماٸی کریں گے۔ آج کے مفسرین نہ جانے کیوں اس حدیث اور اس سے ملتی جلتی احادیث سے چشم پوشی کرتے ہیں۔؟ ہمیں یاد ہے کہ ہمارے گھروں میں عرصہء دراز سے  مولانا فرمان علی کی تفسیر والا قرآن پڑھا جاتا تھا۔ جس میں سورہ جمعہ کی اس آیت کی تشریح کی گئی تھی، لیکن انقلابِ اسلامی کی کامیابی کے بعد ہمارے بعض بڑے شیعہ مفسرین بھی قرآن کے حوالے سے اپنی ضخیم تفاسیر میں نہ جانے کیوں اس آیت کی تفسیر کو گول کر گٸے ہیں۔ جمعے کا اجتماع جس کی ایک سیاسی اہمیت بھی ہے، آخر اس کے لیے سورہء جمعہ کو ہی کیوں اتنی اہمیت دی گئی ہے، ہمارے علماء کو صرف رسمی طور پر ہی اس سورہ کی تلاوت نہیں کرنی چاہیئے بلکہ زمانے کے جدید تقاضوں کو سامنے رکھ کر اس سورہ کو زیادہ سے زیادہ اپنے خطابات کا موضوع بنانا چاہیئے۔

احادیث میں امام مہدیؑ کے ظہور سے قبل جہاں مختلف قسم کے واقعات اور حادثات پر روشنی ڈالی گئی ہے، وہاں ایک بہت بڑے فتنے کا ذکر بھی کیا گیا ہے اور وہ ہے ”فتنہء شام۔“ اگر آج ہم شام کی موجودہ خانہ جنگی کے علل و اسباب کا تجزیہ کریں تو ہم یہ جانیں گے کہ اس فتنے کو جنم دینے میں ترکی کا کردار نہایت اہم ہے۔ ظہور امام زمانہؑ سے قبل کے واقعات پر علامہ علی الکورانی کی تصنیف ”عصر ظہور“ ایک اہم کتاب ہے۔ جب یہ کتاب لکھی گئی، اس وقت اس فتنے میں ترکی کا وہ کردار کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا، جس کا مشاہدہ ہم آج کر رہے ہیں۔ علامہ کورانی نے ظہور امام کے ضمن میں جہاں جہاں ترکی کا نام آیا ہے، اس سے مراد انہوں نے روس کو لیا ہے، جبکہ آج یہ واضح ہوچکا ہے کہ احادیث میں جس ترکی کا ذکر کیا گیا ہے، وہ آج کا ترکی ہی ہے، جبکہ روس اب تک اسلامی تحریکوں کا سپورٹر بن کر سامنے آیا ہے۔

مستقبل میں اس کا کردار کیا ہوگا، اس کے بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ آج ہم نے دیکھ لیا ہے کہ شام میں فتنہ پیدا کرنے میں ترکی نے کس طرح اپنا منفی کردار ادا کیا ہے۔ ترکی ہی نے دنیا کے مختلف حصوں سے دہشت گردوں کو اپنی سرزمین میں جمع کرکے انہیں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے لیے استعمال کیا۔ آج ترکی کا لگایا ہوا یہ پودا تن آور درخت کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ ترکی اور شام کا حالیہ زلزلہ اس فتنے کو مزید ہوا دے رہا ہے۔ وہ یوں کہ شام کے جن علاقوں میں یہ زلزلہ آیا ہے، وہ ترکی کی سرحد سے جڑا ہوا ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے، جو بشار الاسد کے مخالفین کا مرکز ہے۔ اس علاقے کے لوگ بشار الاسد پر الزام لگا رہے ہیں کہ وہ زلزلہ زدگان کے لیے آنیوالی امداد میں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں۔ حالانکہ نام نہاد عالمی برادری نے خود بشار الاسد کی حکومت کو ہر طرح سے اپنے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے اور شام کو اپنی امدادی فہرست سے خارج کیا ہوا ہے۔

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اس زلزلے کے بعد بھی اس علاقے میں محدود قسم کی جنگی کاررواٸیاں جاری ہیں اور ساتھ ہی بشار الاسد کا تختہ الٹنے کے لیے نئی صف بندی کی جا رہی ہے۔ دہشت گرد تکفیری نئے سرے سے منظم ہو رہے ہیں۔ اسراٸیل کی انہیں لاجسٹک سپورٹ حاصل ہے۔ امریکہ بھی ان کی دامے، درہمے، سخنے، قدمے مدد کر رہا ہے۔ روایات میں ”سفیانی“ کی جس ”وادیء یابس“ سے خروج کی خبر دی گٸی ہے، وہ آج کا ادلب کا علاقہ ہے، جو اسی خطے کا مرکز ہے اور جہاں تمام دہشت گرد ایک دوسرے میں ضم ہو کر اپنی ایک نئی قیادت سامنے لاچکے ہیں، جس کا نام محمد الجولانی ہے۔ یہ حیات التحریر الشام کا امیر ہے، جس کے زیرِ تسلط صوبہ ادلب کا بیشتر علاقہ ہے۔ نیا تشکیل پانے والا یہ لشکر مستقبلِ قریب یا بعید میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے لیے دمشق پر چڑھاٸی کرسکتا ہے۔ یہی وہ وقت ہوگا، جب یمن اور ایران سے لشکر امام زمانؑہ کی نصرت کے لیے نکلیں گے۔ فتنہء شام سے جڑا جو دوسرا بڑا فتنہ ہے، وہ ”فتنہء فلسطین“ ہے۔

آج یہ فتنہ بھی آتش فشاں بن چکا ہے۔ روایات میں ہے کہ ظہور سے قبل فلسطین میں ایسے مظالم ہوں گے، جو اس سے پہلے دنیا نے دیکھے نہیں ہوں گے۔ ابھی حال ہی میں فلسطین کے مغربی کنارے کے ایک پورے گاٶں ”ہوارہ“ کو جس طرح ملیا میٹ کر دیا گیا ہے، اس کو دیکھ کر بعض انصاف پسند یہودی بھی پھٹ پڑے ہیں۔ احادیث میں ہے کہ اس زمانے میں”ترک جزیرہ میں اور اہل روم ”رملہ“ میں اتریں گے۔“ جزیرہ سے مراد جزیرة العرب ہے، جس میں شام بھی آتا ہے۔ زلزلے سے قبل صدر اردگان نے باقاعدہ اعلان کر رکھا تھا کہ وہ شام کے کرد علاقے میں اب تک کی سب سے بڑی فوجی کاررواٸی کرنے جا رہا ہے، لیکن زلزلے نے اس کے منصوبے میں رکاوٹ ڈال دی۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اپنے منصوبے سے باز آجاٸے گا۔ وہ اپنے اس جارحانہ منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے کسی وقت بھی کسی بڑی کاررواٸی کا آغاز کرسکتا ہے۔

دوسری طرف فلسطین میں اب کی بار جس نئی طرز کا انتفادہ شروع ہونے جا رہا ہے، اس کی نوعیت مختلف ہے۔ رملہ فلسطین کا شہر ہے۔ اہل روم سے مراد مسیحی ہیں، یہ امریکی فوج بھی ہوسکتی ہے اور نیٹو کی افواج بھی۔ فلسطین میں جس طرح سے مقاومتی تحریکیں مضبوط ہو رہی ہیں اور جس صورت میں اسراٸیل میں عدم استحکام ہے، مستقبل قریب میں فلسطین کی جہادی قوتیں حزب اللہ کی طرز پر میدان عمل میں آسکتی ہیں۔ ایسی صورت میں ممکن ہے کہ اسراٸیلیوں کی مدد کے لیے یا امن و اماں قاٸم رکھنے کے نام پر اس معرکے میں اہل روم بھی کود پڑیں۔ فلسطینی بھی چاہتے ہیں کہ ہمارے تحفظ کے لیے اقوام متحدہ اپنی افواج بھیجے۔ آج کل سوشل میڈیا پر ”End of Time“، شاہ نعمت اللہ کی پیشین گویاں یا اسی نوعیت کے کئی وی لاگز اور تبصرے دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ غزوہء ہند کے حوالے سے مختلف قسم کی کہانیاں عام ہیں۔ لیکن قارٸین کو چاہیئے کہ وہ اس موضوع پر آٸمہ معصومین سے منسوب روایات کا مطالعہ کریں، جو آپ کی صحیح رہنماٸی کریں گی، کیونکہ کشتیء اہلبیتؑ ہی ہر قسم کی طوفانی لہروں کے مقابلے میں سفینہء نجات ہے۔ ہمیں چاہیئے کہ اس دورِ فتن میں اپنے زمانے کے امام سے زیادہ سے زیادہ توسل اختیار کریں، کیونکہ ”ظہور نزدیک ہے۔“
خبر کا کوڈ : 1045089
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش