1
1
Monday 13 Mar 2023 19:05

اسرائیل چار مسلم ممالک انڈونیشیا، صومالیہ، نائیجر اور موریطانیہ سے قریبی بڑھانے میں مصروف

اسرائیل چار مسلم ممالک انڈونیشیا، صومالیہ، نائیجر اور موریطانیہ سے قریبی بڑھانے میں مصروف
رپورٹ: ایس رضا

صہیونی ریاست اسرائیل کا وزیر خارجہ ایلی کوہن ابراہیمی معاہدے کو مزید وسعت دینے کی کوشش کررہا ہے اور موریطانیہ، صومالیہ، نائجیریا اور انڈونیشیا کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے کام کر رہا ہے، ایسی ہی کوششوں کے نتیجے میں 2020ء میں متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش سے اسرائیل کے تعلقات معمول پر آگئے تھے۔ اسرائیلی اخبار اسرائیل ہیوم کی طرف سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کوہن موریطانیہ، صومالیہ، نائجر اور انڈونیشیا کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے کام کر رہے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے ساتھ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن، قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان اور خصوصی ایلچی آموس ہوچسٹین بھی ان کوششوں میں مصروف ہیں تاکہ امریکہ کی ثالثی میں ہونے والے 2020ء ابراہیمی معاہدے کے دائرے کو وسعت دی جائے۔

نیتن یاہو نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ وہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی امید کر رہے ہیں۔ نیتن یاہو حکومت گزشتہ ماہ کئی افریقی ممالک بشمول چاڈ اور سوڈان کے ساتھ بات چیت کا پُل بنانے میں کامیاب رہی ہے۔ پچھلے مہینے چاڈ نے اسرائیل میں اپنا سفارت خانہ کھولا اور کوہن سوڈان جانے والے پہلے اسرائیلی وزیر خارجہ بن گئے۔ سوڈان نے 2020ء میں امریکہ کے ساتھ ابراہیمی معاہدے پر دستخط کئے تھے لیکن اسرائیل کے ساتھ اس اقدام کو حتمی شکل نہیں دی تھی۔ اسرائیل ہیوم کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ موریطانیہ کے ساتھ بات چیت صومالیہ، نائجر اور انڈونیشیا کے ساتھ رابطوں کے مقابلے میں زیادہ بہتر ہے۔ اسرائیل اور موریطانیہ نے اوسلو معاہدے کے بعد 1999ء میں سفارتی تعلقات قائم کئے تھے، جس میں نواکشوٹ میں اسرائیلی سفارت خانہ بھی شامل تھا۔

موریطانیہ نے 2008ء میں غزہ جنگ کے بعد اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات منقطع کرلئے تھے۔ اسرائیل ہیوم نے رپورٹ کیا کہ 28 فروری کو برلن میں اپنی ملاقات میں کوہن نے اپنی جرمن ہم منصب اینالینا بیربوک سے کہا کہ وہ موریطانیہ اور نائجر کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی کوششوں میں اسرائیل کی مدد کریں۔ دوسری جانب اگر دیکھا جائے تو صومالیہ کی صورتحال باقی ممالک سے بالکل مختلف ہے۔ اسرائیل اور صومالیہ کے درمیان کبھی بھی سفارتی تعلقات نہیں رہے لیکن گزشتہ برسوں میں صومالی قیادت نے متعدد مواقع پر اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے میں اپنی دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔ گزشتہ جولائی میں صومالی صدر حسن شیخ محمد کے ترجمان نے کہا تھا کہ حکومت نے اس معاملے پر پارلیمنٹ سے مشاورت کرنے کا منصوبہ بنایا ہے، بحیرہ احمر کے داخلی راستے پر اور جزیرہ نما عرب کے سامنے صومالیہ کا تزویراتی مقام اسرائیل کے لئے دلچسپی کا باعث ہے۔

نائیجر اور اسرائیل نے بھی کبھی سفارتی تعلقات برقرار نہیں رکھے۔ فرانس کو مالی اور برکینا فاسو سے باہر دھکیلنے کے بعد نائیجر جہادی گروپوں کے خلاف علاقائی لڑائی میں مغربی افواج کے لئے ایک اہم فوجی مرکز بن سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، یورینیم کے عالمی سپلائر کے طور پر، اسرائیل ایران کے اثر و رسوخ سے دور نائجر کو اپنے کیمپ میں رکھنے کا خواہاں ہے۔ 2020ء میں ابراہیمی معاہدے پر دستخط کے بعد انڈونیشیا دنیا کے سب سے بڑے مسلم ملک اور ممکنہ طور پر ان معاہدوں میں شامل ہونے کے لئے اگلے درجے کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ انڈونیشیا کے حکام متعدد مواقع پر کہہ چکے ہیں کہ جکارتہ یروشلم کے ساتھ اس وقت تک بات چیت نہیں کرے گا جب تک فلسطین کے مسئلے پر کوئی پیش رفت نہیں ہوجاتی۔ پھر بھی بلنکن نے 2021ء میں اس مسئلے کو اٹھایا اور جکارتہ میں اپنے انڈونیشی ہم منصب ریٹنو مارسودی سے ملاقات کی۔

اگرچہ دونوں ممالک سفارتی تعلقات نہیں رکھتے تاہم ان کے درمیان تجارتی تعلقات کافی حد تک قائم ہیں۔ ایک اسرائیلی تجارتی وفد نے گزشتہ جولائی میں انڈونیشیا کا دورہ کیا تھا تاکہ سرمایہ کاری، اسٹارٹ اپ وینچرز اور سماجی اثرات کے اقدامات کے ذریعے دو طرفہ رابطوں کے امکانات کو تلاش کیا جا سکے۔ اسرائیل کے قومی سلامتی کے مشیر Tzachi Hanegbi اور اسٹریٹجک امور کے وزیر رون ڈرمر گزشتہ پیر کو ملاقات کے لئے واشنگٹن میں تھے۔ جہاں انہوں نے مبینہ طور پر ایران کے خطرے اور مغربی کنارے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی پر توجہ مرکوز کی، اسرائیلی حکام نے اپنے امریکی ہم منصبوں کے ساتھ ابراہیم معاہدے میں مزید ممالک کو شامل کرنے کے لئے مشترکہ کوششوں پر بھی بات کی۔
خبر کا کوڈ : 1045759
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
یہ سب کو ملا لیں مگر محور مقاومت کی طاقت کے آگے کچھ نہیں، ان شاء اللہ بہت جلد دنیا سے ظلم و جور کا خاتمہ ہوگا اور مہدی برحقؑ کی حکومت کے سائے میں یہ دنیا عدل الہی کا مشاہدہ کرے گی۔ ان شاء اللہ
ہماری پیشکش