0
Saturday 8 Oct 2011 14:57

نیتن یاہو کا فلسفہ امن (2)

نیتن یاہو کا فلسفہ امن (2)
تحریر:سید اسد عباس تقوی 
مجھے یقین ہے کہ میری طرح سینکڑوں مسلمان نوجوان یہ بات اکثر سوچتے ہوں گے کہ آخر مسئلہ فلسطین کا حل کیا ہے۔؟ کیا یہ مسئلہ پرامن ذرائع سے حل نہیں ہو سکتا۔؟ کیا جنگیں اور تشدد ہی اس مسئلہ کا واحد حل ہے۔؟ یروشلم (امن کا گھر) جو تمام تر ابراھیمی ادیان کے پیروکاروں کی نظر میں مقدس ہے آج کیوں وجہ نزاع بنا ہوا ہے۔؟ یہ اور اس قسم کے سینکڑوں سوالات فلسطین کی تاریخ سے نابلد نوجوان نسل کے ذہنوں پر دستک دیتے رہتے ہیں، جن کا جواب دیا جانا ازحد ضروری ہے۔ ایسی صورتحال میں اگر نیتن یاہو کا بھاشن سن لیا جائے تو سوالات کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہو جاتا ہے۔
یروشلم جہاں بیت المقدس، مغربی دیوار، ماﺅنٹ ٹیمپل اور چرچ آف سکرپچر جیسے مقدس مقامات واقع ہیں، ابراھیمی ادیان کے پیروکاروں کے لیے اس خطے سے مذہبی وابستگی کا سبب ہیں۔ اس کے باوجود یروشلم کی تاریخ نسل انسانی کی تاراجیوں، غیروں کی فتوحات اور انسانوں پر ظلم و بربریت کی المناک داستانوں سے بھری پڑی ہے۔ تینوں ابراھیمی ادیان کے پیروکاروں نے تاریخ کے مختلف ادوار میں ان مقامات سے اپنی نسبت کو بہانہ بنا کر اس خطے پر سیاسی تسلط قائم کیا۔ یروشلم اپنی تاریخ میں دو مرتبہ مکمل طور پر برباد ہوا، 23 مرتبہ اس سرزمین پر قبضہ کیا گیا اور 52مرتبہ یہ بیرونی حملہ آوروں کی چیرہ دستیوں کا نشانہ بنا (2)۔
فلسطین اور اس کے مرکزی شہر یروشلم کی سرزمین پر تازہ ترین قبضہ سلطنت عثمانیہ کے زوال کے بعد برطانیہ نے کیا اور پھر یورپ، امریکہ اور روس سے صہیونی تحریک پر یہودیوں کے قافلے جوق در جوق اس سرزمین پر آ کر آباد ہونے لگے۔ 1948ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد نیتن یاہو کے بیان کردہ ابراھیم ع کے یہودی بیٹوں نے اسی باپ کے مسلمان بیٹوں کے گھروں اور زمینوں پر قبضے شروع کیے، انھیں ان کے پیاروں کی قبروں سے دور کر دیا، جن کی یاد میں آج بھی یہ خانماں برباد آس پاس کے مسلم ممالک میں یوم النکبہ مناتے ہیں۔ مغربی تاریخی اندازوں کے مطابق 1948ء کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران آج کی اسرائیلی ریاست میں آباد نو لاکھ عرب باشندوں میں سے تقریباً سات لاکھ پچاس ہزار باشندوں کو مجبور کر دیا گیا کہ وہ اپنا گھر بار ترک کر کے کسمپرسی کی زندگی گزاریں(3)۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے فلاح مہاجرین (UNRWA) کے یکم جنوری 2011ء تک کے اعداد و شمار کے مطابق لبنان، اردن، شام، مغربی کنارے اور غزہ میں پھیلے ہوئے رجسٹرڈ مہاجرین کی کل تعداد تقریبا پچاس لاکھ ہے (4)۔ جو آج بھی موجودہ اسرائیلی شہروں میں واقع اپنے گھروں کی چابیاں اٹھائے اس آس پر زندہ ہیں کہ بہت جلد ہم اپنی سرزمین پر لوٹیں گے اور اپنے اجداد کی قبور پر حاضری دیں گے۔
اقوام عالم کے رہنماﺅں کے سامنے کی جانے والی تقریر میں نیتن یاہو کو چار ہزار سال قبل رومن افواج کی جانب سے یہودیوں پر کیے جانے والے مظالم تو یاد رہے، لیکن نہیں معلوم کہ انہوں نے اپنے ہی مظلوم بزرگوں کی جانب سے فلسطینیوں پر 63 سال قبل ہونے والے مظالم کو کیوں نظر انداز کر دیا۔ یہودی قوم کی فلسطینی زمین سے چار ہزار سالہ پرانی وابستگی اور اس پر دوبارہ آباد ہونے اور ریاست قائم کرنے کے لیے منظم کوششوں کی منطق بھی ناقابل فہم ہے۔ ہم مسلمانوں میں سے نسل رسول جو حسنین شریفین ع سے چلی کو بھی سیاسی وجوہات کی بناء پر مصائب، قتل و غارت اور مہاجرت کا سامنا کرنا پڑا، اولاد رسول اپنے حقیقی مساکن مکہ اور مدینہ جو یروشلم کی مانند مقدس بھی ہیں کو ترک کرنے پر مجبور ہوئی۔ اس نسل کا ایک فرد ہونے کے حیثیت سے میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ دل میں اس سرزمین کو دیکھنے کی خواہش ضرور ہے مگر کبھی ایسا نہیں سوچا کہ ایک منظم سازش کے تحت مکہ اور مدینہ کے موجودہ باسیوں کو بے دخل کر کے وہاں اپنا مکان بناﺅں یا ریاست کے قیام کی کوشش کروں۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ایک مظلوم اور دنیا کی ستائی ہوئی قوم جو کہ توحید پرست ہونے کا دعویٰ بھی کرتی ہو، سے کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ کسی دوسری قوم پر ویسے ہی مظالم ڈھائے، جن کا شکار ان کے بزرگ رہے ہوں؟
فلسطینیوں کے سینکڑوں دیہات اور بستیاں مسمار کرنے اور ان کے باسیوں کو زبردستی بے دخل کرنے کے بعد آج نیتن یاہو اپنے قبضہ شدہ شہروں کی حفاظت کے لیے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے فورم پر امن کے ترانے گانے میں مصروف ہیں۔ دوسروں کا گھر جلا کر امن کی خواہش کرنا کون سی دانش مندی ہے۔؟ انھیں شاید لبنان کی سرزمین پر قائم فلسطینیوں کے کیمپوں صابرہ اور شتیلا میں اسرائیلی افواج کی جانب سے کیے جانے والے مظالم یاد نہیں۔ وہ آج جن اسلامی جہادی گروہوں سے پوری دنیا کو ڈرا رہے ہیں، کا اس وقت تو کوئی وجود ہی نہ تھا، اسرائیلی افواج کونسی اسلامی طاقت کو سر کرنے کے لیے لبنان میں گھسیں۔
نیتن یاہو کا ایران اور شام کی جانب سے فلسطینیوں اور لبنانیوں کی مدد کا شکوہ بھی انتہائی بے جا ہے۔ اسرائیلی ریاست اپنے قیام سے آج تک امریکی اور برطانوی ایما پر نہتے فلسطینیوں پر مظالم ڈھانے میں مصروف ہے اور یہ توقع رکھتی ہے کہ ان مظلوموں کو کسی بیدار ضمیر قوم یا گروہ کی جانب سے کوئی اخلاقی یا سفارتی کمک بھی نہ ملے۔
مذہبی اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ دین داری اور اخلاقیات سے بھی متعلق ہے۔ نیتن یاہو صاحب یاد کریں کہ فلسطینیوں کے حقوق کے لیے آج تک اقوام متحدہ سے منظور ہونے والی کتنی قراردادوں پر اسرائیلی حکومتوں نے عمل کیا۔ مغربی کنارے میں اسرائیل کے زیرتسلط بسنے والے عام شہری تو ایک طرف، صہیونی افواج نے تو اس قوم کے سب سے بڑے اور عالمی دنیا میں پہچانے جانے والے رہنما یاسر عرفات کو بھی نہیں بخشا۔ فلسطینی مہاجرین کے لیے آواز اٹھانے والے احمد یاسین، عبدالعزیز رنتیسی اور ان جیسے کئی رہنماﺅں کا قتل بھی مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کی ہی ایک مثال ہے۔ 
فریڈم فلوٹیلا کے نہتے امدادی کاروان پر اسرائیلی فوج کے حملے کا واقعہ ابھی تازہ ہے۔ اسرائیلی حکومت میں تو اتنی اخلاقی جرات بھی نہیں کہ وہ اپنے اس گھناﺅنے اقدام پر ترک حکومت اور عوام سے معافی مانگے، اس کے برعکس اس کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ اس قسم کے تمام واقعات کے بارے میں عالمی اداروں پر اثر انداز ہو کر انھیں اسرائیلی ریاست کے خلاف کسی قسم کی بھی قرارداد یا رپورٹ پیش کرنے سے باز رکھیں۔ فلسطینی بچوں کے اعضاء کی اسمگلنگ اور اس واقعہ کو مشتہر کرنے والے صحافی کی کہانی آج بھی دنیا کے ذہنوں میں تازہ ہے۔
نیتن یاہو کے قبل ازیں درج کردہ خطاب کے متعدد مقاصد میں سے ایک مقصد یہ بھی تھا کہ فلسطینی صدر محمود عباس کی جانب سے آزاد فلسطینی ریاست کے لیے اقوام متحدہ میں پیش کی جانے والی درخواست پر عمل درآمد کو دلائل اور سفارتی کوششوں سے سبوتاژ کیا جا سکے، جس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی ہوئے، تاہم صہیونی وزیراعظم اور ریاست کو اصل خطرہ تو فلسطینیوں کی مقبول تنظیم حماس سے ہے۔ اسرائیل اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ اس کے اصل دشمن حماس اور ان کے ہمنوا عام فلسطینی عوام ہیں جو اپنے مقبوضہ علاقوں کی آزادی کے لیے سروں پر کفن باندھ چکے ہیں۔ فلسطینیوں کو قربانی دینا بھی آ چکا ہے اور اس قربانی سے ثمر حاصل کرنا بھی۔ نیتن یاہو صہیونیوں کی اپنی آبائی سرزمین سے وابستگی اور اس کے حصول کے حق میں دلائل دیتے ہوئے یہ کیوں بھول گئے کہ اگر صہیونیوں کی اپنی آبائی زمین سے وابستگی کی منطق چار ہزار سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود درست ہے تو یہی منطق ان فلسطینی مہاجرین کے لیے بدرجہ اتم درست ہے، جن کے ہاتھوں سے لگائے گئے درختوں کی فصل ابھی بھی اسرائیل کے مقبوضہ علاقوں میں موجود ہے۔
فلسطینی نوجوانوں کی نسل کشی پر مامور اسرائیلی افواج اور حکومتی مشینری کے سربراہ کی حیثیت سے نیتن یاہو کو ابراھیم ع کا بیٹا ہونے کا دعویٰ بھی زیب نہیں دیتا۔ ابراھیم ع تو وہ تھے جنہوں نے نسل انسانی کی ہدایت کے لیے اپنا بیٹا خدا کی راہ میں قربان کر دیا۔ دوہری شہریت کے حامل اسرائیلی صہیونی آخر کب تک دنیا کو دھوکے میں رکھیں گے۔ آخر کب تک فلسطین کے مہاجروں کو ان کے گھروں سے دور رکھا جا سکے گا۔

حوالہ جات
1۔http://www.haaretz.com/news/prime-minister-benjamin-netanyahu-s-speech-to-the-un-general-assembly-1.7254
2۔^ "Do We Divide the Holiest Holy City?". Moment Magazine. Archived from the original on 3 June 2008. ماخوذ از وکی پیڈیا۔
3۔ http://en.wikipedia.org/wiki/Palestinian_refugee
4۔ http://www.unrwa.org/etemplate.php?id=253
خبر کا کوڈ : 104648
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش