QR CodeQR Code

امریکہ سے بلواسطہ بات چیت

13 Mar 2023 22:06

اسلام ٹائمز: ناصر کنعانی نے بتایا کہ ایران اور امریکہ کے درمیان قیدیوں کے تبادلے سمیت بعض معاملات پر پہلے ہی اتفاق رائے ہوچکا ہے اور گذشتہ سال مارچ میں تحریری سمجھوتے پر دستخط بھی کئے جاچکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ نے اس بات کو قبول کرلیا ہے کہ قیدیوں کے تبادلہ کے معاملات کو پابندیوں کے خاتمے کے مذاکرات سے الگ رکھا جائے اور تبادلہ انجام پائے۔ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے واضح کیا کہ تہران اس معاملے کو انسانی بنیادوں پر نمٹانے کیلئے پوری طرح آمادہ ہے اور اس حوالے سے امریکہ کی فنی مشکلات کا ہم سے کوئی تعلق نہیں۔ ناصر کنعانی نے یہ بات زور دیکر کہی کہ ایران کیلئے مذاکراتی عمل کا لازمی نتیجہ تک پہنچنا اہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران نے بارہا کہا ہے اور ثابت بھی کیا ہے کہ سفارتکاری ہی باہمی اختلافات کے حل کا بہترین راستہ ہے۔


تحریر: میر طاہر

ایران اور امریکہ کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے بائیڈن حکومت کے حکام کا منفی موقف بعض مسائل کی وجہ سے سامنے آیا ہے، جن میں ریپبلکنز کی جانب سے ایران کو کسی قسم کی رعایت دینے کی مخالفت بھی شامل ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے اتوار کے روز ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان کے بیانات کو چھوٹ قرار دیا ہے، جس میں اعلان کیا گیا تھا کہ تہران اور واشنگٹن قیدیوں کے تبادلے کے لیے ایک معاہدے پر پہنچ گئے ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان کے بیانات کو "ظالمانہ جھوٹ" تک کہا ہے، البتہ اس سے قیدیوں کے اہل خانہ اور قیدیوں کی مشکلات میں ہی اضافہ ہوگا۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے مزید کہا: "ہم ایران میں غلط طریقے سے حراست میں لیے گئے تین امریکیوں کی رہائی کے لیے مسلسل کام کر رہے ہیں اور ہم اس وقت تک باز نہیں آئیں گے، جب تک وہ اپنے پیاروں کے ساتھ دوبارہ نہیں مل جاتے۔ قابل ذکر ہے کہ نیڈ پرائس کے بیان کے ساتھ ہی وائٹ ہاؤس کی نیشنل سکیورٹی کونسل نے بھی اس ایرانی دعوے کو "جھوٹا" قرار دیا ہے۔

ادھر ایران نے امریکہ کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے پر عمل درآمد کے حوالے سے زور دیا ہے۔ ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے اعلان کیا کہ حالیہ دنوں میں ہم ایران اور امریکہ کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے ایک معاہدے پر پہنچ گئے ہیں۔ گذشتہ مارچ سے ہمارے اور امریکہ کے درمیان بالواسطہ طور پر ایک دستاویز پر دستخط ہوچکے تھے، لیکن اب اس پر عمل درآمد کی زمین تیار ہوچکی ہے۔ ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان کے بقول ہماری رائے میں سب کچھ تیار ہے اور امریکی اپنے آخری تکنیکی انتظامات کر رہے ہیں۔ اگر امریکہ کی طرف  سے سب کچھ ٹھیک رہا تو آنے والے دنوں میں ایسا ہو جائے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ ایران اور امریکہ کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے سلسلے میں بائیڈن حکومت کے حکام کا منفی موقف بعض اہم مسائل پر مبنی ہے، جسے وہ سامنے نہیں لانا چاہتے۔

بائیڈن  نے اپنی الیکشن کمپین میں ایران کے ساتھ ہونے والے ایٹمی معاہدے میں واپس آنے کی بات کی تھی۔ جنوری 2021ء میں اقتدار میں آنے کے بعد سے، بائیڈن حکومت نے، JCPOA سے امریکہ کے انخلا پر نظرثانی کے بارے میں اپنے سابقہ ​​دعووں کے باوجود، ٹرمپ انتظامیہ کی اسی مخالفانہ پالیسی کو مسلسل جاری رکھا ہے۔ بائیڈن نے ایٹمی معاہدے میں واپس آنے کے بعد ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ کو جاری رکھا بلکہ یہاں تک کہ اس نے مختلف بہانوں سے ایران کے خلاف نئی پابندیاں بھی عائد کی ہیں۔ اس وقت بھی امریکی سیاسی ڈھانچے میں مختلف پریشر گروپس کی موجودگی، بالخصوص کانگریس میں، ریپبلکنز کی جانب سے ایران کو کسی قسم کی رعایت دینے کی مخالفت کا سلسلہ جاری ہے اور بائیڈن کے لئے ایران کے ساتھ کسی قسم کی ڈیل آسان کام نہیں ہے، اس حقیقت کے باوجود کہ تہران اور واشنگٹن کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے میدان میں ایک دستاویز پر بھی دستخط ہوچکے ہیں۔ لیکن بائیڈن انتظامیہ عملاً اس پر عمل درآمد کرنے کی ہمت نہیں رکھتی اور اسی وجہ سے ایرانی وزیر خارجہ پر جھوٹ کا الزام لگا کر اس نے بنیادی طور پر اس سلسلے میں کسی بھی معاہدے کی تردید کی ہے۔

ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے پیر کے روز اعلان کیا کہ ہم قیدیوں سمیت کچھ معاملات پر پہلے ہی ایک معاہدے پر پہنچ چکے ہیں اور مارچ 2022ء میں ایک تحریری معاہدہ طے پایا تھا، جس پر امریکہ کے سرکاری نمائندے نے بھی دستخط کیے تھے۔ امریکی فریق نے ایک مرحلے پر قبول کیا کہ یہ مسئلہ پابندیوں کے خاتمے کے مذاکرات سے جڑے بغیر ہونا چاہیئے اور قیدیوں کا تبادلہ ہوگا، لیکن دوسرے مرحلے پر انھوں نے اسے جوہری مذاکراتی عمل سے جوڑ دیا۔ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ ایران کے وزیر خارجہ کے اعتماد اور وقار کو دیکھتے ہوئے یہ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ ایران اور امریکہ کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ ہوا ہے اور یہ بیان حقائق پر مبنی ہے، کیونکہ جھوٹ بولنے، وعدے توڑنے اور مذاکرات کے بعد معاہدوں کی شقوں سے انکار کی امریکیوں کی ایک طویل تاریخ ہے۔

 ایران نے ہمیشہ اپنی ذمہ داریوں کی پاسداری کی ہے، جیسا کہ اس نے پہلے jCPOA جوہری معاہدے کے حوالے سے عملی طور پر کرکے دکھایا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایسا لگتا ہے کہ امریکی ایران کے ساتھ کسی بڑے معاہدے کی تلاش میں ہیں، جس کے دائرہ کار میں وہ قیدیوں کا معاملہ بھی حل کرنے کا خواہاں ہے، کیونکہ ایک دستاویز پر دستخط کرنے کے باوجود بائیڈن انتظامیہ کی تردید قابل فہم نہیں ہے۔دوسری جانب یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ سیامک نمازی، جو ایرانی اور امریکی دوہری شہریت رکھتے ہیں اور وہ ایک سخت سکیورٹی میں موجود ایک قیدی ہے، اس نے جیل سے ایک امریکی صحافی کے ساتھ ٹیلی فون پر انٹرویو بغیر ایرانی ہم آہنگی کے کیسے دیا ہے؟، یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایران واقعی قیدیوں کے تبادلے کے لیے تیار ہے اور اس نے سیامک کو یہ سہولت فراہم کی تھی۔

حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کا دعویٰ ہے کہ قیدیوں کے تبادلے کے لیے دونوں ملکوں کے درمیان کوئی معاہدہ نہیں ہے، اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ امریکہ، ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ کی مہم کو برقرار رکھنے اور جاری رکھنے کے لیے ہر حربے کو استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتا، یہاں تک کہ اپنے شہریوں کو خوفزدہ کرنے کے لیے بھی تیار ہے۔ متضاد خبریں شائع کرنا، امید دلانا اور پھر اس سے پھر جانا، اپنے شہریوں کو ذہنی اور جذباتی طور پر اذیت میں مبتلا کرنے کے مترادف ہے۔ امریکہ کے اس انکار سے امریکی قیدیوں اور ان کے اہل خانہ پر کیا گزری ہوگی، حالانکہ انہیں پہلے امید دلائی گئی تھی۔ قیدیوں کے تبادلے کے معاملے پر امریکہ کے منفی اور غیر تعمیری موقف کے باوجود، ایران اب بھی انسانی بنیادوں پر اس پر عمل درآمد کے لیے تیار ہے۔ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے کہا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران جیسا کہ ہم نے اعلان کیا ہے، ہم اسے ایک انسانی مسئلہ کے طور پر انجام دینے کے لیے تیار ہیں۔

امریکہ کے تکنیکی مسائل کا تعلق خود امریکہ سے ہے۔ اس معاملے میں اگر امریکی فریق کا موقف حقیقت پسندانہ ہے تو قیدیوں کے تبادلے کے معاملے کو مکمل طور پر انسانی مسئلہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے پیر کے روز صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ قیدیوں کے تبادلے اور دوسرے متعلقہ مسائل پر امریکہ سے بلواسطہ بات چیت پہلے بھی ہوچکی ہے اور اب بھی جاری ہے۔ ناصر کنعانی نے بتایا کہ ایران اور امریکہ کے درمیان قیدیوں کے تبادلے سمیت بعض معاملات پر پہلے ہی اتفاق رائے ہوچکا ہے اور گذشتہ سال مارچ میں تحریری سمجھوتے پر دستخط بھی کئے جاچکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ نے اس بات کو قبول کرلیا ہے کہ قیدیوں کے تبادلہ کے معاملات کو پابندیوں کے خاتمے کے مذاکرات سے الگ رکھا جائے اور تبادلہ انجام پائے۔ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے واضح کیا کہ تہران اس معاملے کو انسانی بنیادوں پر نمٹانے کے لیے پوری طرح آمادہ ہے اور اس حوالے سے امریکہ کی فنی مشکلات کا ہم سے کوئی تعلق نہیں۔ ناصر کنعانی نے یہ بات زور دے کر کہی کہ ایران کے لیے مذاکراتی عمل کا لازمی نتیجہ تک پہنچنا اہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران نے بارہا کہا ہے اور ثابت بھی کیا ہے کہ سفارت کاری ہی باہمی اختلافات کے حل کا بہترین راستہ ہے۔


خبر کا کوڈ: 1046548

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/1046548/امریکہ-سے-بلواسطہ-بات-چیت

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org