0
Tuesday 14 Mar 2023 18:08

15 مارچ اسلامو فوبیا کیخلاف عالمی دن

15 مارچ اسلامو فوبیا کیخلاف عالمی دن
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

پاکستان کی درخواست اور اسلامی تعاون تنظیم کی تین سال کی کوششوں کے بعد، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 2022ء میں ایک قرارداد کے ذریعے تنظیم کے کیلنڈر میں 15 مارچ کو اسلام مخالف جنگ یعنی اسلام و فوبیا سے مقابلے  کے دن کے طور پر منانے کی منظوری دی ہے۔ عالم اسلام بالخصوص نیوزی لینڈ کے مسلمانوں کے لیے 15 مارچ  2019ء کا دن ایک تلخ اور ناقابل فراموش دن ہے۔ 15 مارچ 2019ء کو نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں ایک مسلح شخص نے دو مساجد کے نمازیوں پر متعدد ہتھیاروں سے حملہ کرکے 51 افراد کو قتل کر دیا۔ ایک ایسا حملہ جسے اس ملک کی جدید تاریخ کا سب سے بڑا قتل عام کہا جاتا ہے۔ 15 مارچ 2019ء کی دہشت گردانہ کارروائی نام نہاد لبرل مغربی ممالک میں مسلمانوں کے خلاف سب سے بڑی دہشت گردانہ کارروائیوں میں سے ایک ہے۔ اگر یہ واقعہ عیسائیوں یا یہودیوں کے خلاف ہوا ہوتا تو اس ظالمانہ قتل عام کا ذکر کیے بغیر کوئی دن نہ گزرتا اور  اس سانحہ پر کئی دستاویزی فلمیں اور فکشن فلمیں بن چکی ہوتیں۔ لیکن مغربی حکومتیں اپنے ملک میں اسلام دشمنی کے رجحان کو قبول کرنے کو بھی تیار نہیں ہیں اور وہ آزادی اظہار کی آڑ میں اپنے ملک میں اسلام مخالف اقدامات کو چھپاتے ہیں۔

مغرب میں اسلام دشمنی کا رجحان مغرب میں عام رجحانات میں سے ایک ہے اور آج بہت سے مغربی ممالک میں انتہائی دائیں بازو کے اسلام مخالف عناصر اقتدار میں آچکے ہیں۔ بہت سی اعتدال پسند دائیں اور بائیں بازو کی جماعتیں بھی انتہائی دائیں بازو کے اسلام مخالف نعروں اور پروگراموں سے متاثر ہوچکی ہیں۔ اسلام دشمنی کا تعلق چونکہ امیگریشن مخالفت سے بھی ہے، اس لئے اس کی طرف عام شہری کی توجہ بھی رہتی ہے۔ یورپ میں زیادہ تر مسلمان تارکین وطن اور افریقی اور مشرق وسطیٰ کے ممالک سے آئے ہیں اور اہل مغرب، تارکین وطن شہریوں اور مسلمانوں کو ایک ہی صف میں کھڑا کرتے ہیں۔ فرانس کے ایک مفکر اور فرانسیسی نیشنل سینٹر فار سائنٹیفک ریسرچ کے سینئر محقق Francois Burgat کہتے ہیں: "فرانس اور یورپ میں اسلامو فوبیا کا رجحان خطرناک حد تک پہنچ چکا ہے اور اگر ماضی میں یہ انتہائی دائیں بازو کے لیے مخصوص تھا، تو آج تمام حکومتیں اسے پھیلانے میں مصروف ہیں  اور "حقیقت میں اب یہ ایک حکومتی رجحان بن گیا ہے۔"

اس حوالے سے گذشتہ سال جون میں 41 سے زیادہ یورپی سول سوسائٹی کی تنظیموں نے یورپی یونین پر اسلام فوبیا کے خلاف لڑنے میں ناکام ہونے کا الزام عائد کیا تھا اور اس یونین کو لکھے گئے خط میں اسلامو فوبیا کے خلاف لڑنے کے لیے ایک رابطہ کار کی تقرری کا مطالبہ کیا تھا۔ ان تنظیموں نے ایک خط پر دستخط اور شائع کرکے یورپی یونین کے اداروں کی جانب سے اسلامو فوبیا کے خلاف لڑنے کے لیے کوئی اقدام نہ کرنے پر اپنی تشویش کا اظہار کیا۔ ایک محفوظ اور پرامن ملک نیوزی لینڈ میں 15 مارچ 2019ء کی دہشت گردی کی کارروائی اتنی ظالمانہ اور بڑی تھی کہ سیاسی اور میڈیا کے حلقے اسے آسانی سے نظر انداز نہیں کرسکتے تھے۔ نیوزی لینڈ دنیا کے ان ملکوں میں سے ہے، جس کا بظاہر کوئی دشمن نہیں ہے اور سکیورٹی کے لحاظ سے ہمیشہ محفوظ ترین ممالک میں شامل ہے۔ نیوزی لینڈ کے گھروں میں اکثر تالے نہیں ہوتے، گھروں پر گارڈز نہیں ہوتے اور گھر کے ارد گرد باڑ اتنی مختصر ہوتی ہے کہ آپ لوگوں کے گھروں میں آسانی سے داخل ہوسکتے ہیں۔ نیوزی لینڈ کے بیشتر شہروں میں عوامی جگہ بہت محفوظ ہے اور چوری بہت کم ہوتی ہے۔ لیکن بظاہر محفوظ نظر آنے والے اس ملک میں مسلمانوں کے لیے حالات غیر محفوظ ہونا ایک سوال ہے۔

2019ء کی دہشت گردی نے سب کو حیران کر دیا تھا۔ حملے سے قبل اسلام مخالف دہشت گرد نے سوشل نیٹ ورک پر کھلے عام کہا کہ اس نے اس کام کے لیے نیوزی لینڈ کا انتخاب کیا، کیونکہ وہاں سخت سکیورٹی نہیں ہے اور اسے کارروائی کی زیادہ آزادی ہوگی۔ اس جرم کی ابتدائی تصاویر سب سے پہلے اسلام مخالف اس دہشت گرد نے دکھائی تھیں۔ 28 سالہ نسل پرست دہشت گرد آسٹریلوی شہری تھا اور بینٹن ہیریسن ٹیرنٹ نامی دائیں بازو کی متبادل پارٹی کا رکن تھا۔ اس نے بڑے سکون سے دو مساجد میں مسلمان نمازیوں پر حملہ کیا اور ان پر گولیاں برسائیں۔ صحافی رچرڈ پیریز پینا نے نیویارک ٹائمز میں 15 مارچ کی اپنی رپورٹ میں لکھا: "زخمی خود کو محفوظ جگہ پر لے جانے یا زمین پر لیٹنے کی کوشش کر رہے تھے، جبکہ دوسروں نے بھاگنے یا مرنے والوں کے پیچھے چھپنے کی کوشش کی، بندوق بردار نے کسی کو معاف نہیں کیا۔ اسے عورتوں اور لڑکیوں پر کسی پر کوئی رحم نہیں آیا اور ایک کے بعد ایک میگزین زمین پر پڑے بے جان اور بے حرکت لاشوں پر خالی کر دیئے۔

اس اسلام دشمن دہشت گرد نے اس عظیم جرم کا پورا منظر فلمایا اور اسے اپنے فیس بک پیج پر آن لائن دکھایا۔ یہ فلم سوشل نیٹ ورکس پر دکھائے جانے والے سب سے زیادہ چونکا دینے والے مناظر میں سے ایک تھی۔ نیویارک ٹائمز کا رپورٹر لکھتا ہے: "یہ خوف و دہشت ایک ایسے دور میں ڈیزائن کیا گیا تھا، جہاں سوشل میڈیا مکمل طور پر نسل پرستی سے منسلک ہے۔ یہ قتل عام، جو بظاہر سفید فام انتہاء پسندوں کی نفرت سے مربوط  تھا اور انہوں نے اسے فیس بک پر لائیو دکھایا اور اسے سائبر اسپیس پر "وائرل" بھی کیا۔ نیویارک ٹائمز کے رپورٹر نے مزید کہا کہ اس حملے نے "دنیا کے سب سے محفوظ ترقی یافتہ ممالک میں سے ایک میں سکیورٹی کا ستیاناس کر دیا۔" اس رپورٹ کے مطابق، "ایک شخص جو مسجد کے دروازے پر کھڑا تھا، اس نے حملہ آور کو دیکھ کر السلام علیکم کہا، لیکن سلامتی کی دعا کرنے والے اس شخص کو زمین پر گرنے میں زیادہ دیر نہیں لگی، کیونکہ حملہ آور نے اسے گولی مار دی تھی۔

پاکستان کی درخواست پر اسلامی تعاون تنظیم کی تین سال کی کوششوں کے بعد، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 2022ء میں ایک قرارداد کے ذریعے تنظیم کے کیلنڈر میں 15 مارچ کو اسلام مخالف جنگ یعنی اسلام و فوبیا سے مقابلے کے دن کے طور پر منانے کی منظوری دی۔ لیکن مغربی حکومتیں واضح طور پر اس کی حمایت کرنے کو تیار نہیں تھیں۔ اقوام متحدہ میں فرانس کے مستقل نمائندے نکولس ڈی ریویئر نے قرارداد کو "غیر مطمئن" اور "مسئلہ" قرار دیا اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اراکین سے کہا: "اسلامو فوبیا کی اصطلاح آزادی مذہب یا عقیدے کے خلاف ہے اور بین الاقوامی سطح پر اس کی کوئی متفقہ تعریف نہیں ہے۔ اسلامو فوبیا کے اس قانون کا دفاع مشکل ہوگا، کیونکہ فرانس سمیت دیگر ملکوں میں اسے آزادی اظہار کے خلاف کہا جا سکتا ہے۔" فرانسیسی حکومت کا یہ موقف دراصل اسلام دشمن دہشت گردوں کی کھلی حمایت ہے۔

اقوام متحدہ میں مستقل مبصر کا درجہ رکھنے والے 27 یورپی ممالک پر مشتمل یورپی یونین کے نمائندے نے بھی اقوام متحدہ میں فرانس کے مستقل نمائندے کے خدشات کو دہرایا۔ مسلمانوں کی زندگیوں پر ان کے مذہبی عقائد کی بنیاد پر پابندیاں عائد کرنے میں فرانس مغربی ممالک میں سرفہرست ہے۔ درحقیقت اسلام دشمنی مغرب میں جڑ پکڑ چکی ہے اور آزادی اظہار کا مقصد صرف امتیازی سلوک اور نسل پرستی کو چھپانے اور مسلمانوں کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیوں کی حمایت کرنا ہے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے چند سال قبل پیرس میں دہشت گردی کے واقعات کے بعد مغربی نوجوانوں کے نام اپنے خطوط میں  فرمایا تھا۔ یہ بات درست ہے کہ آج دہشت گردی ہمارا اور آپ کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ لیکن آپ لوگوں کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ جس بدامنی اور اضطراب کا حالیہ واقعات کے دوران آپ لوگوں کو سامنا کرنا  پڑا ہے، ان مشکلات میں اور برسہا برس سے عراق، یمن، شام اور افغانستان کے لوگوں نے جو مشکلات برداشت کی ہیں، ان میں دو اہم فرق پائے جاتے ہیں۔

پہلا فرق یہ ہے کہ اسلامی دنیا مختلف زاویوں سے نہایت ویسع اور بڑے پیمانے پر اور ایک بہت لمبے عرصے تک تشدد کی بھینٹ چڑھی ہے۔ دوسرے یہ کہ افسوس کہ اس تشدد کی ہمیشہ بعض بڑی طاقتوں کی جانب سے مختلف اور موثر انداز میں حمایت کی جاتی رہی ہے۔ آج شاید ہی کوئی ایسا فرد ہوگا، جو القاعدہ، طالبان اور ان سے وابستہ منحوس گروہوں کو وجود میں لانے، ان کی تقویت اور ان کو مسلح کرنے کے سلسلے میں امریکہ کے کردار سے آگاہ نہ ہو۔ اس براہ راست حمایت کے علاوہ تکفیری دہشت گردی کے جانے پہچانے حامی پسماندہ ترین سیاسی نظام کے حامل ہونے کے باوجود ہمیشہ یورپ کے اتحادیوں کی صف میں کھڑے ہوتے ہیں اور یہ ایسی حالت میں ہے کہ جب خطے میں آگے کی جانب گامزن جمہوریت سے جنم لینے والے ترقی یافتہ اور روشن ترین نظریات کو بڑی بے رحمی کے ساتھ کچلا جاتا ہے۔ اسلامی دنیا میں بیداری کی تحریک کے ساتھ یورپ کا دوہرا رویہ یورپی پالیسیوں میں پائے جانے والے تضادات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔" بہرحال آج مغربی سیاست دانوں کے غصے اور نفرت کے شعلے ان ہتھیاروں کی آگ سے واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں، جو اسلام اور دنیا کے مظلوم اور بے دفاع مسلمانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ نیوزی لینڈ میں 15 مارچ 2019ء کو ہونے والا دہشت گردی کا واقعہ مغربی حکومتوں کی تارکین وطن اور اسلام دشمن پالیسیوں کا براہ راست نتیجہ ہے۔
خبر کا کوڈ : 1046727
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش