1
Tuesday 14 Mar 2023 22:12

جارجیا کی سرزمین پر مغرب کا خطرناک کھیل

جارجیا کی سرزمین پر مغرب کا خطرناک کھیل
تحریر: علی احمدی
 
گذشتہ چند دنوں کے دوران جارجیا میں شدت پسندانہ مظاہرے عالمی میڈیا کی پہلی سرخی بنے رہے ہیں۔ اس بارے میں یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ ان مظاہروں کے حقیقی اسباب کیا ہیں اور ان کا یورپی یونین میں جارجیا کی رکنیت نیز یوکرین جنگ سے کیا تعلق ہے؟ یہ مسئلہ اس وقت شروع ہوا جب منگل 7 مارچ کے دن جارجیا کی پارلیمنٹ میں "بیرونی اثرورسوخ" سے متعلق متنازعہ بل پیش کیا گیا۔ اس کے بعد وسیع پیمانے پر مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا اور کئی مواقع پر پولیس سے جھڑپیں بھی ہوئیں۔ پولیس نے آنسو گیس اور پانی پھینکنے والی گنوں کا استعمال کیا اور دسیوں مظاہرین کو گرفتار بھی کر لیا۔ ان واقعات میں 50 پولیس اہلکار زخمی بھی ہو گئے ہیں۔ آخرکار جمعہ 10 مارچ کے دن حکمران جماعت نے یہ بل واپس لے لیا۔
 
"بیرونی اثرورسوخ" سے متعلق بل کیا ہے؟
جیسا کہ بیان ہوا جارجیا میں عوامی احتجاج اس وقت شروع ہوا جب پارلیمنٹ میں بیرونی اثرورسوخ سے متعلق بل پیش کیا گیا۔ اس بل کی روشنی میں تمام ایسی کمپنیاں، ذرائع ابلاغ اور تنظیمیں جو اپنے بجٹ کا 20 فیصد حصہ غیر ملکی فنڈ کی صورت میں حاصل کرتی ہیں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ عدلیہ کے تحت تشکیل دیے گئے ایک مخصوص ادارے میں اپنا اندراج کروائیں۔ اس بل کے مخالفین کا دعوی ہے کہ اس کی نوعیت "آمرانہ" ہے اور اس کا مقصد میڈیا کو دبا کر انہیں حکومت کے خلاف تنقید سے روکنا ہے۔ مخالفین اسے "روسی بل" کا نام دیتے ہیں اور دعوی کرتے ہیں کہ وہ روس میں جاری ایسے قوانین سے ملتا جلتا ہے جن کا مقصد سول سوسائٹی کو دبانا ہے۔
 
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مغربی حکمران کیوں کھلم کھلا اس بل کے مخالفین کی حمایت کر رہے ہیں اور اس بل کو روس سے جوڑنے کی کوشش میں مصروف ہیں؟ اس سوال کا جواب پانے کیلئے جارجیا کے یورپی یونین سے الحاق کے مسئلے پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ بل کے مخالفین کا کہنا ہے کہ یہ بل ملک کو آمریت کی جانب لے جائے گا جس کے نتیجے میں یورپی یونین سے الحاق کا امکان کم ہو جائے گا۔ یورپی یونین میں رکنیت معطل ہو جانے کی تشویش جارجیائی اور مغربی حکمرانوں کے بیانات میں واضح تھی۔ جارجیا کے صدر سالومہ زورابشویلی، جو اس بل کے مخالفین میں سے ہیں نے کہا ہے کہ میڈیا کی آزادی محدود کرنے پر مشتمل اس بل کی منظوری یورپی یونین سے جارجیا کے الحاق کی امید پر پانی پھیر دے گی۔
 
دوسری طرف یورپی یونین کے سیکرٹری خارجہ امور جاسپ بوریل نے بھی اس بل کو اپنے بقول یورپی یونین کی اقدار سے متضاد قرار دیا ہے اور کہا ہے: "یورپی یونین نے جارجیا سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جمہوریت کے فروغ، قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق سے متعلق اپنی ذمہ داریوں کا پابند رہے اور عوام کے پرامن احتجاج کے حق کا احترام کرے۔" یورپی یونین سے جارجیا کے الحاق کا مسئلہ جرمنی کے نائب صدر اور وزیر اقتصاد رابرٹ ہابک کے بیانات میں بھی واضح تھا۔ انہوں نے برلن میں آئی بی ٹی نمایش کے موقع پر جارجیا کے وزیراعظم اراکلے گاریباشویلے کے ہمراہ صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا: "یورپ آپ کیلئے بانہیں پھیلائے ہوئے ہے اور میں جانتا ہوں کہ یورپ کی جانب بہت زیادہ جھکاو رکھتے ہیں۔"
 
یوکرین بحران اور دوبارہ الحاق کا وعدہ
اکثر یورپی کھلاڑی برسلز حکام کے وعدوں کی امید پر گذشتہ کئی سالوں سے یورپی یونین کے بند دروازوں کے پیچھے انتظار میں کھڑے ہیں۔ جارجیا، قفقاز خطے میں روس کے جنوب مغرب میں واقع ہے۔ گذشتہ برس 3 مارچ کے دن اور یوکرین کے خلاف روس کے فوجی آپریشن کے ایک ہفتہ بعد جارجیا نے یورپی یونین میں رکنیت کی درخواست دی تھی۔ یورپی یونین نے جارجیا کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے اس کی قبولی کو سیاسی اور عدلیہ اصلاحات سے مشروط کر دیا تھا۔ اس وقت سے یورپی کونسل یہ اعلان کرتی آئی ہے کہ جیسے ہی جارجیا میں مطلوبہ سیاسی اور اقتصادی اصلاحات انجام پائیں گی اسے رکنیت عطا کر دی جائے گی۔ جارجیا کے حالیہ واقعات میں یوکرین بحران کا اثر واضح طور پر دکھائی دیتا ہے۔ مغربی حکمران روس پر دباو ڈالنے کیلئے روس اور جارجیا میں تاریخی اختلافات کو ہوا دے کر اسے ایک ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔
 
نتیجہ
مغربی حکمران جارجیا کو روس سے دور کرنے کی سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہیں۔ انہوں نے جارجیا کی پارلیمنٹ میں پیش کردہ موجودہ بل کو یورپی یونین اور نیٹو میں جارجیا کی رکنیت میں اہم رکاوٹ قرار دیا ہے۔ اگرچہ اس بل کے مخالفین فی الحال اپنا مطالبہ منوانے میں کامیاب ہو گئے ہیں لیکن یہ دیکھنا پڑے گا کہ جارجیا کے ساتھ نیٹو اور یورپی یونین کا کھیل کب تک جاری رہتا ہے۔ کیا جارجیا مستقبل قریب میں ان دونوں تنظیموں میں رکنیت حاصل کر پائے گا؟ یا خطے کی سیاسی شطرنج کے میدان پر ترکی یا یوکرین کی طرح منہ تکتا رہ جائے گا۔ ترکی گذشتہ دو عشروں سے یورپی یونین میں رکنیت کا منتظر ہے جبکہ یوکرین بھی نیٹو اور یورپی یونین میں رکنیت کے وعدوں پر گہری دلدل میں پھنس چکا ہے۔
خبر کا کوڈ : 1046728
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش