0
Tuesday 14 Mar 2023 20:12

انقرہ دمشق تعلقات میں ایران کا کردار

انقرہ دمشق تعلقات میں ایران کا کردار
ترتیب و تنظیم: علی واحدی
 
ترکی، جس نے اس موسم گرما سے شامی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا عمل شروع کیا تھا، کوشش کر رہا ہے کہ دمشق کی حمایت کرنے والے ممالک کی مدد سے ان مذاکرات کو مکمل کرے اور جلد از جلد جنوبی پڑوسی کے ساتھ اپنے تعلقات بحال کرے۔ اس مقصد کے لیے شام کا چار فریقی اجلاس 15 اور 16 مارچ کو روس کے دارالحکومت ماسکو میں منعقد ہوگا، جس میں ترکی، روس، شام اور ایران کے نائب وزرائے خارجہ شرکت کریں گے۔ اس اجلاس میں ترکی کے نائب وزیر خارجہ بورک اکچاپر، مشرق وسطیٰ اور افریقی ممالک کے لیے روس کے صدر کے خصوصی نمائندے میخائل بوگدانوف، ایران کے وزیر خارجہ کے سیاسی امور کے مشیر علی اصغر خاجی اور شام کے نائب وزیر خارجہ ایمن سوزان شریک ہوں گے۔

بوگدانوف نے اپنی تقریر میں کہا ہے کہ  چاروں ممالک کے اجلاس کا مقصد ان ممالک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کی تیاریاں ہے۔ حالیہ مہینوں میں ترکی اور شام کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سربراہان کے درمیان متعدد ملاقاتیں ہوئیں اور اس کے بعد جنوری میں ماسکو میں دونوں ممالک کے وزرائے دفاع نے ایک دوسرے سے بات چیت بھی کی، جس کے نتائج کو مثبت قرار دیا گیا۔ اس ملاقات میں شام کے بحران اور پناہ گزینوں کے مسائل اور شام میں موجود تمام دہشت گرد تنظیموں کے خلاف مشترکہ کوششوں کے بارے میں تبادلہ خیال کیا گیا اور ساتھ ہی دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کے درمیان ملاقات کی کوششوں پر بھی بات ہوئی اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں اہم اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔

ترک اخبار Cumhuriyet نے ایک خبر میں دعویٰ کیا ہے کہ شام کے صدر بشار الاسد ممکنہ طور پر اسی وقت ماسکو کا دورہ کریں گے، جس وقت چار فریقی اجلاس ہوگا۔ اس میڈیا نے ماسکو میں قائم مڈل ایسٹ اسٹڈیز سینٹر کے سینیئر محقق نکولائی سورکوف کے حوالے سے کہا ہے کہ روس اور شام کے رہنماء روس کی ثالثی سے دمشق اور انقرہ کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے عمل میں ضروری اقدامات پر تبادلہ خیال کریں گے۔ اس اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ بشار الاسد کے دورہ ماسکو میں انسانی مسائل اور دوطرفہ تعلقات بالخصوص ان کے ملک کے شمال میں آنے والے حالیہ زلزلے پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔ اگرچہ روسی اور شامی حکام نے اس خبر کی صداقت کی تصدیق یا تردید نہیں کی ہے، تاہم اس سے قبل رجب طیب اردگان نے روسی صدر ولادیمیر پوتن سے کہا تھا کہ وہ ماسکو میں ہونے والی آئندہ ملاقاتوں میں بشار الاسد کو ضرور مدعو کریں۔

ایران کا پہلا ظہور
یہ ملاقاتیں گذشتہ مہینوں میں دو طرفہ اور سہ فریقی طور پر ہوئی تھیں، لیکن اس بار ان ممالک کے گروپ میں ایران کو شامل کیا گیا ہے۔ اس اجلاس میں ایران کی موجودگی اس وقت سامنے آئی ہے، جب ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے گذشتہ ماہ ماسکو سے کہا تھا کہ ایران ان اجلاسوں میں شرکت کرے، جس کے بعد دمشق حکام نے بھی آئندہ اجلاسوں میں شرکت کی خواہش ظاہر کی تھی۔ ماسکو اجلاس میں ایران کی موجودگی کا اعلان ایسے عالم میں سامنے آیا ہے کہ حسین امیر عبداللہیان نے اپنے حالیہ دورہ شام اور ترکی کے دوران ان ممالک کے اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں اور تبادلہ خیال کیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ معاہدے کو معمول پر لانے کے لیے تہران کی سفارتی کوششوں میں اضافہ ہوا ہے۔

ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے بھی ترکی کے ساتھ شام کے تعلقات اور اس معاملے میں ایران کے کردار کے حوالے سے کہا ہے کہ  "شام کے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات ایران کے مفاد میں ہیں اور ان تعلقات کو بہتر بنانا اور اس میں اضافہ کرنا تہران کی ترجیحات میں شامل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ شام اور ترکی سمیت خطے کے ممالک کے درمیان تعاون خطے میں امن کے حصول میں معاون ہے۔
تہران اور ماسکو اس سلسلے میں مدد کرنے اور دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، کیونکہ موجودہ صورتحال میں جہاں روس اور مغرب کے درمیان تناؤ شدت اختیار کر گیا ہے، وہاں ترکی کو مشرقی کیمپ میں لانا اس مسئلے کا حل ثابت ہو سکتا ہے۔ شام کے بحران کے خاتمے میں ایران نے ایک بااثر اور نمایاں کردار ادا کیا ہے اور مغربی ممالک نے بارہا اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ وہ ایران کی مدد کے بغیر شام کے بحران کو ختم نہیں کرسکتے۔

دوسری طرف ترکی بھی اس مسئلے سے اچھی طرح باخبر ہے۔ اسلامی جمہوریہ کے نمائندوں کی ملاقاتوں سے سیاسی مذاکرات کی گرہ کھولنے میں بہت مدد ملے گی۔ ایران آستانہ اجلاسوں کے ضامن ممالک میں سے ایک ہے اور اس نے گذشتہ برسوں میں انقرہ اور روس کے حکام کے ساتھ بہت سے مذاکرات کیے ہیں۔ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے ترکی کے وسیع اقدامات اس تناظر میں ہیں کہ مارچ 2011ء میں شام کے بحران کے آغاز کے بعد، انقرہ نے عربی و مغربی محاذ کے ساتھ اتحاد کرتے ہوئے، دہشت گرد گروہوں کی حمایت اور دمشق کے ساتھ سیاسی تعلقات منقطع کر لیے تھے اور اس دوران انقرہ نے شام کے بحران کو معمول پر لانے کی کبھی کوشش نہیں کی بلکہ اسلحے اور دیگر امداد کے ساتھ دہشت گردوں کی نقل و حرکت کے لیے اپنی سرحدیں کھلی چھوڑ کر شام میں جنگ کی آگ بھڑکانے میں اہم کردار ادا کیا۔ لیکن تکفیریوں کے زوال اور شکست کے ساتھ ہی ترکی نے شامی صدر بشار الاسد کا تختہ الٹنے کے اپنے مقاصد حاصل کرنے میں مایوسی کے بعد اپنی پوزیشن میں 180 ڈگری کا ٹرن لیا اور شام سے تعلقات کو معمول پر لانے کے بارے میں اظہار خیال کرنا شروع کر دیا۔

اردگان سے اسد کی ملاقات کیلئے انقرہ کی جدوجہد
اگرچہ ترکی اور شام کے سکیورٹی اور انٹیلی جنس حکام کی ملاقاتیں ہوچکی ہیں، لیکن ان تمام ملاقاتوں کا مقصد اردگان اور بشار الاسد کو 12 سال کی کشیدگی کے بعد ایک ساتھ بٹھانا ہے۔ اردگان نے روسی حکام سے بارہا کہا ہے کہ وہ بشار الاسد کو ملاقات پر آمادہ کریں، تاہم شامی فریق نے ابھی تک اس معاملے پر کوئی سازگار رائے نہیں دی ہے۔ کیونکہ دمشق کے حکام ترکی کو اپنے ملک کے بحرانوں اور مصائب کا اصل مجرم سمجھتے ہیں اور انہوں نے ابھی تک ترک حکام سے صلح نہیں کی ہے اور نہ ہی اس ملک کے نئے طرز عمل پر اعتماد کیا ہے۔ اردگان جلد از جلد تعلقات کو معمول پر لانے اور 14 مئی کو ہونے والے صدارتی انتخابات کے موقع پر دوبارہ جیتنے کے امکانات بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن بشار الاسد اور دیگر شامی حکام ان مصائب کو نہیں بھولے ہیں، جو انہوں نے گذشتہ برسوں میں برداشت کئے۔

ماسکو کے نائب وزراء کی سطح پر چار فریقی اجلاس بھی اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ دمشق اس وقت ایک اجلاس ضرور منعقد کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، لیکن اس کی سطح کو نائب وزراء تک رکھنا چاہتا ہے۔ اگر ماسکو میں بشار اسد کی موجودگی کے بارے میں ترک میڈیا کا دعویٰ درست ہے تو اردگان بھی ماسکو ضرور جائیں گے، تاکہ دونوں صدور 12 سال تک جاری رہنے والی کشیدگی کو دور کرکے ماضی کے تعلقات کو دوبارہ شروع کرسکیں۔
 
شامی حکومت نے ترکیہ سے تعلقات  معمول پر لانے کے لیے  کچھ شرائط رکھی ہیں، جن پر اگر انقرہ عمل درآمد کرتا ہے، تو شام تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے اپنا حتمی فیصلہ کرے گا۔ان شرائط میں سب سے اہم شمالی علاقوں سے ترک فوجی دستوں کا انخلا اور دہشت گردوں کی حمایت کا خاتمہ ہے۔  اس وقت  شام کے کچھ حصے ترکی کے فوجی قبضے میں ہیں اور اس قبضے کے خاتمے کے بغیر ترکی اور شام کے تعلقات معمول پر نہیں آئیں گے۔ شامی حکام نے یہ بھی کہا ہے کہ اس معاملے پر محض تبصرہ کافی نہیں ہے بلکہ ترکوں کو اپنی خیرسگالی ثابت کرنی ہوگی۔ گذشتہ برسوں میں ترکیہ نے شمالی شام میں اپنے فوجی قبضے سے ان علاقوں کی آبادی کو تبدیل کرنے اور اسے شام کی مرکزی حکومت سے الگ کرکے وہاں اپنی مستقل موجودگی قائم کرنے کی کوشش کی ہے اور بلاشبہ یہ ایک ایسی تباہ کن کارروائی ہے، جسے دمشق کسی صورت برداشت نہیں کرے گا۔

شام ترک فوجی دستوں کے انخلا سے متعلق ضمانتوں کے بغیر باہمی تعلقات کو معمول پر لانے کی دستاویز پر دستخط نہیں کرے گا اور انقرہ کو بھی اس بات کو بخوبی علم ہے۔ ترکیہ کا دعویٰ ہے کہ شمالی شام میں فوجی دستوں کی موجودگی کا مقصد کردستان ورکرز پارٹی (PKK) اور پیپلز ڈیفنس یونٹس (YPD) کے دہشت گرد گروہوں کا مقابلہ کرنا ہے، لیکن یہ بہانے ہیں اور شامی حکام ایسے دعوے پر یقین نہیں کرتے۔ بلاشبہ ترکیہ کی سلامتی کو درپیش خطرات زیادہ تر امریکہ کی غاصبانہ پالیسیوں کی وجہ سے ہیں، جس نے 2016ء سے شامی کرد گروہوں کو اپنی چھتری تلے لے رکھا ہے اور انہیں ہتھیاروں سے لیس کرکے ان علاقوں میں جنگ کی آگ بھڑکا رہا ہے، تاہم دہشت گردی کے اس طرح کے خطرات کو ختم کرنا شام کی مرکزی حکومت کی مدد سے ہونا چاہیئے نہ کہ ترک فوج کے قبضے کو جاری رکھنے سے۔

دوسری جانب اگر انقرہ کی جانب سے ادلب میں دہشت گردوں کی حمایت میں کمی آتی ہے تو مستقبل میں ان گروہوں کی تباہی کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ ترکیہ کی دمشق کے ساتھ دوستی دہشت گردوں کی حمایت کے خلاف ہے۔ دمشق حکام اسے ہرگز قبول نہیں کریں گے کہ اردوغان ایک طرف داعش و النصرہ سے بھی رابطے رکھیں اور بشار اسد سے بھی ملاقاتیں کریں۔ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے دمشق کی سختی اور ترک حکومت پر اعتماد کے فقدان کی وجہ سے ترکیہ نے ایران اور روس کو سہولت کار بنانے کا ارادہ کیا ہ۔ دوسری جانب سفارتی اور سکیورٹی امور کے علاوہ جو مسئلہ دونوں ممالک کے ایجنڈے میں سرفہرست ہے، وہ شامی مہاجرین کی واپسی کا مسئلہ بھی ہے۔

اس وقت ترکیہ میں تقریباً 37 لاکھ شامی مہاجرین مقیم ہیں اور اردگان مہاجرین اور ان کی وطن واپسی کے معاملے کو فوری طور پر ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جس کے لئے انہیں دمشق کی مدد کی ضرورت ہے۔ ترکی حالیہ برسوں میں ایک بڑے معاشی بحران سے نبردآزما ہے اور حالیہ زلزلے کے بعد اس ملک کے مسائل دوگنا ہوگئے ہیں۔ اس لیے شامی پناہ گزینوں کی میزبانی جاری رکھنا ترک حکومت کے لئے مشکل ہوگیا ہے۔ ماسکو اجلاس میں ایران کی شمولیت انقرہ اور دمشق کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے میں سہولت فراہم کرے گی اور اگر اردوگان حکومت شام کے مطالبات کو تسلیم کرنے کے لیے ضروری ضمانتیں فراہم کرتی ہے تو ترکی کے انتخابات کے انعقاد سے قبل انقرہ دمشق تعلقات میں بہتری زیادہ دور کی بات نہیں ہے۔
خبر کا کوڈ : 1046731
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش