QR CodeQR Code

یوکرین بحران کا چینی راہ حل، اہداف اور محرکات

15 Mar 2023 23:32

اسلام ٹائمز: چین کی جانب سے یہ راہ حل پیش کرنے کے چند اہم مقاصد مناسب موقع پر ایک سفارتی مہم کا آغاز کر کے اپنے اصولی موقف کو دنیا والوں کے سامنے لانا اور یوں عالمی مسائل کے بارے میں احساس ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا، خود کو یوکرین جنگ میں ایک غیر جانبدار کھلاڑی ظاہر کرنا، عالمی سطح پر امن اور سلامتی کے حصول میں خود کو ہراول دستے کے طور پر پیش کرنا اور عالمی امور سے متعلق امریکہ اور مغربی ممالک کی غلط پالیسیوں سے پردہ اٹھانا شامل ہیں۔ اس سے پہلے چین عام طور پر ایسے عالمی امور کے بارے میں زیادہ اظہار خیال نہیں کرتا تھا جو اس کی قومی سلامتی سے براہ راست مربوط نہیں ہوتے تھے۔ لہذا یوکرین جنگ سے متعلق راہ حل پیش کرنے کا مطلب یہ ہے کہ یا تو چین اسے اپنی قومی سلامتی سے مربوط جانتا ہے یا اب گذشتہ پالیسی تبدیل کر کے عالمی سطح پر موثر سیاسی کردار ادا کرنے کا خواہاں ہے۔


تحریر: علی رضا خدا قلی پور
 
یوکرین جنگ کے آغاز کا ایک سال مکمل ہونے پر چین نے اس بحران کے خاتمے کیلئے ایک راہ حل پیش کیا ہے جو 12 شقوں پر مشتمل ہے۔ اس راہ حل میں بحران کی شدت مزید بڑھنے سے روکنے کیلئے فریقین کے درمیان گفتگو اور مذاکرات شروع ہونے پر زور دیا گیا ہے۔ اسی طرح اس میں یہ وارننگ بھی دی گئی ہے کہ اگر مناسب اقدامات انجام نہ دیے گئے تو یوکرین بحران ناقابل کنٹرول حد تک وسیع ہو سکتا ہے۔ چین کی جانب سے پیش کردہ اس راہ حل میں کہا گیا ہے: "تمام موثر قوتیں روس اور یوکرین کو جلد از جلد ایک مشترکہ راستہ اختیار کر کے براہ مذاکرات شروع کرنے کی ترغیب دلائیں تاکہ ان کے درمیان تناو دھیرے دھیرے کم کیا جا سکے اور انہیں ایک جامع جنگ بندی تک پہنچنے میں مدد فراہم کی جا سکے۔" چین کی جانب سے اس راہ حل کو "موقف بیان کرنے والا اعلامیہ" یا Position Paper کا نام دیا گیا ہے۔
 
یوکرین جنگ کا یہ راہ حل زیادہ تر ان بیانات اور موقف پر مشتمل ہے جو اس سے پہلے "عالمی سلامتی کیلئے پہلا قدم" (Global Security Initiative) نامی دستاویز سمیت مختلف مواقع پر چین حکومت کی جانب سے سامنے آتے رہے ہیں۔ اس راہ حل میں شامل اہم نکات تمام ممالک کی حق خود ارادیت کا احترام، یکطرفہ پابندیوں کے سلسلے کا خاتمہ، جوہری ہتھیاروں کے پھیلاو کو روکنے کیلئے مناسب اقدامات انجام دینے کی ضرورت اور جوہری پاور پلانٹس کی حفاظت کی ضرورت پر مشتمل ہیں۔ اسی طرح بعض دیگر موضوعات جیسے محفوظ انسانی امداد کی فراہمی، سویلین افراد اور جنگی قیدیوں کی حفاظت، زراعتی مصنوعات کی آمدروفت میں آسانی، صنعت اور فراہمی میں توازن اور جنگ زدہ علاقوں کی تعمیر نو پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ چین حکومت نے انتہائی مناسب موقع پر یہ بیانیہ جاری کیا ہے۔
 
اس بیانیے میں انتہائی خوبصورتی سے بغیر کسی ملک کا نام لئے امریکہ اور مغربی ممالک کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے اور ان کے دوہرے معیارات، سرد جنگ والی ذہنیت، خود کو پوری دنیا میں فیصلہ سازی کے قابل سمجھنا (Long Arm Jurisdiction) اور دنیا کے مختلف حصوں میں جنگ کو فروغ دینے کی مذمت کی گئی ہے۔ یہ انداز عالمی طاقتوں کی جانب سے چین کے پیش کردہ راہ حل کو قبول کرنے کا امکان کم از کم کر دیتا ہے جبکہ دوسری طرف اس راہ حل میں یوکرین جنگ کے خاتمے اور جنگ بندی کے قیام کیلئے کسی قسم کی کوئی عملی تجویز بھی فراہم نہیں کی گئی۔ اسی طرح اس بیانیے میں یوکرین بحران کے خاتمے میں چین کا کردار بھی واضح نہیں کیا گیا۔ یہ راہ حل چین کے وزیر خارجہ وانگ ای کے دورہ روس کے دو دن بعد پیش کیا گیا ہے۔
 
یاد رہے اس دورے کا مقصد دونوں ممالک میں اقتصادی اور اسٹریٹجک تعاون کو فروغ دینا تھا جبکہ چین نے یوکرین جنگ میں ثالثی کا کردار ادا کرنے کا ارادہ بھی ظاہر کیا تھا۔ اس دورے کے بعد روس کی وزارت خارجہ نے چین کی جانب سے یوکرین بحران میں تعمیر کردار ادا کرنے کے عزم کا خیرمقدم کیا اور اکثر اہم عالمی امور سے متعلق دونوں ممالک کے موقف کو مشترک یا بہت قریب قرار دیا تھا۔ دوسری طرف مغربی ممالک نے چین کے وزیر خارجہ کے دورہ روس کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے چین پر واضح طور پر روس کی طرفداری کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ چین نے یوکرین جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک اس بارے میں انتہائی محتاطانہ پالیسی اپنا رکھی ہے اور کئی مواقع پر عالمی اداروں کے اجلاس میں روس کے حق میں ووٹ دینے سے گریز کیا ہے۔ چین نے یوکرین جنگ میں سرکاری طور پر غیر جانبداری کا اعلان کر رکھا ہے۔
 
اعلان شدہ پروگرام کے تحت عنقریب چین کے وزیر خارجہ یوکرین کا بھی دورہ کریں گے۔ اس دورے میں وہ یوکرینی حکام کو اپنے پیش کردہ راہ حل کے مطابق روس سے مذاکرات کا آغاز کرنے کی پیشکش کریں گے۔ لیکن مختلف وجوہات کی بنا پر یوں محسوس ہوتا ہے کہ چین کا یہ راہ حل نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو گا۔ ان وجوہات میں فریقین کا موقف، مغربی ممالک اور یوکرین کی جانب سے چین پر روس کی جانبداری کا الزام، چین کے پیش کردہ راہ حل میں ابہامات کی موجودگی اور اس راہ حل میں چین کے کردار کا عدم تذکرہ شامل ہیں۔ ایک طرف روس اور دوسری طرف یوکرین اور اس کے حامی مغربی ممالک کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اب تک جنگ کے مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کر پائے جس کا مطلب یہ ہے کہ جنگ ابھی جاری رہے گی۔
 
چین کی جانب سے یہ راہ حل پیش کرنے کے چند اہم مقاصد مناسب موقع پر ایک سفارتی مہم کا آغاز کر کے اپنے اصولی موقف کو دنیا والوں کے سامنے لانا اور یوں عالمی مسائل کے بارے میں احساس ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا، خود کو یوکرین جنگ میں ایک غیر جانبدار کھلاڑی ظاہر کرنا، عالمی سطح پر امن اور سلامتی کے حصول میں خود کو ہراول دستے کے طور پر پیش کرنا اور عالمی امور سے متعلق امریکہ اور مغربی ممالک کی غلط پالیسیوں سے پردہ اٹھانا شامل ہیں۔ اس سے پہلے چین عام طور پر ایسے عالمی امور کے بارے میں زیادہ اظہار خیال نہیں کرتا تھا جو اس کی قومی سلامتی سے براہ راست مربوط نہیں ہوتے تھے۔ لہذا یوکرین جنگ سے متعلق راہ حل پیش کرنے کا مطلب یہ ہے کہ یا تو چین اسے اپنی قومی سلامتی سے مربوط جانتا ہے یا اب گذشتہ پالیسی تبدیل کر کے عالمی سطح پر موثر سیاسی کردار ادا کرنے کا خواہاں ہے۔


خبر کا کوڈ: 1046884

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/1046884/یوکرین-بحران-کا-چینی-راہ-حل-اہداف-اور-محرکات

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org