0
Wednesday 15 Mar 2023 20:05

امریکی اقتصاد کو نیا چیلنج

امریکی اقتصاد کو نیا چیلنج
تحریر: اتوسا دیناریان

سیلیکون ویلی بینک کے دیوالیہ ہونے سے امریکی معاشرے کو جو دھچکا پہنچا ہے اور اس کے آٹر شاکس بدستور میں جاری ہیں۔ بہت سے اقتصادی ماہرین امریکہ میں سرمایہ کاری کے مستقبل اور معاشی حالات سے پریشان ہیں اور ان کا تجزیہ ہے کہ یہی صورت حال یورپ سمیت دیگر ممالک تک سرایت کرسکتی ہے۔ سلیکون ویلی بینک (SVB) کے اچانک دیوالیہ ہونے سے، جسے امریکی حکام نے جمعہ کو بند کر دیا تھا، ملک کے بینکنگ سیکٹر میں خوف و ہراس کی لہر دوڑ گئی ہے۔ اقتصادی ماہریں  اسے 2008ء کے مالیاتی بحران کے بعد امریکہ میں سب سے بڑی بینک کی ناکامی سے تعبیر کر رہے ہیں۔ اس دیوالیہ پن کے نتائج کے بارے میں  مختلف قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں۔

 بہت سے لوگ ان حالات کے یورپی بینکوں سمیت دیگر بینکوں تک پھیلنے کے حوالے سے سے بھی پریشان ہیں۔ امریکن سلیکون ویلی بینک کے دیوالیہ ہونے نے یورپی براعظم میں مختلف بینکوں کے دیوالیہ ہونے کے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے اور اس سے یورپی حکومتوں اور کمپنیوں کا تشویش میں مبتلا ہونا فطری عمل ہے۔ سلیکون ویلی بینک کے دیوالیہ ہونے کے بعد، امریکی صدر جو بائیڈن نے بینک کے سرمایہ کاروں کے اثاثوں کو یقینی بنانے کی کوشش کی ہے، تاہم امریکہ کے معاشی حالات بتاتے ہیں کہ بائیڈن انتظامیہ اس بینک کے کھاتہ داروں کو کافی حد تک یقین دلانے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔

امریکی محکمہ خزانہ کی سابق سیکرٹری لارنس سمرز کا کہنا ہے کہ سلیکون ویلی بینک کے دیوالیہ ہونے کے امریکی معیشت کے لیے بہت سے نتائج برآمد ہوں گے۔ امریکی حکومت کو سب کو یقین دلانا چاہیئے کہ وہ اس مسئلے کو حل کر لے گی۔ دیوالیہ ہونے سے پہلے، سلیکون ویلی بینک آدھی امریکی ٹیکنالوجی کمپنیوں کو فنانس کرتا تھا۔ اس بینک کے دیوالیہ ہونے سے پوری دنیا میں کئی پیچیدگیاں پیدا ہوگئی ہیں۔ مثال کے طور پر، برازیل کی متعدد کمپنیاں جن کے پاس اس بینک میں 10 بلین ڈالر جمع تھے، اپنی رقم کھو چکے ہیں اور یہ مسئلہ کا صرف ایک حصہ ہے۔ بھارت، چین اور یورپ کی کئی کمپنیاں بھی سلیکون ویلی بینک میں اپنا سرمایہ کھو چکی ہیں۔ یہ صورت حال 2008ء کے معاشی بحران میں بینک کی سب سے بڑی ناکامی کی یاد دلا رہی ہے، جس کی وجہ سے عالمی معیشت میں شدید کساد بازاری آئی تھی۔

سلیکون ویلی بینک کے دیوالیہ ہونے کی وجوہات
سیلیکون ویلی بینک کے دیوالیہ ہونے کی مختلف وجوہات بتائی جا رہی ہیں، جن میں امریکی معیشت میں مندی بھی شامل ہے۔ ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ گذشتہ سال فیڈرل ریزرو نے افراط زر کو کم کرنے کے لیے شرح سود میں اضافہ کیا۔ اس فیصلے کے بعد، جدید ٹیکنالوجی کے شعبے میں سرگرم کمپنیوں کے حصص، جنہوں نے سلیکون ویلی بینک میں سرمایہ کاری کر رکھی تھی، ان کے حصص کی قدر میں بڑی کمی سامنے آئی۔ ادھر امریکہ کے سابق صدر "ڈونلڈ ٹرمپ" نے اس ملک کے موجودہ صدر جو بائیڈن کو امریکہ کے معاشی مسائل کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ امریکہ میں آنے والے معاشی جمود یا بحران کا ذکر کرتے ہوئے، انہوں نے کہا: "ہمارے پاس 1929ء کے بحران  سے کہیں زیادہ بڑا اور طاقتور بحران ہوگا اور بینکوں کی ناکامی کا عمل شروع ہوچکا ہے۔"

 بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ بائیڈن حکومت نے ریاستہائے متحدہ کے داخلی معاملات پر توجہ دینے کے بجائے جغرافیائی اور غیر ملکی مسائل پر توجہ مرکوز کی ہے، جس کی وجہ سے ملکی معاملات نظر انداز ہو رہے ہیں۔ ادھر ایک بڑے حلقے کا کہنا ہے کہ موجودہ معاشی حالات ماضی کے حالات کی طرح نہیں ہیں اور وہ اس صورت حال کو عارضی سمجھتے ہیں۔ ان کے تجزیہ کے مطابق حکومتی اقدامات سے اس کے اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ وائٹ ہاؤس کی اقتصادی مشیر سیسیلیا روز نے کہا ہے "ہم 2007ء اور 2008ء کے عالمی مالیاتی بحران سے بالکل مختلف صورت حال سے دوچار ہیں۔ ہمارے پاس مالی دباؤ کے کنٹرول کے لئے دیگر ٹولز  موجود ہیں، جن سے بینکوں کی موجودہ اور بڑھتی ہوئی مشکلات پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ تاہم سیلیکون ویلی بینک کے دیوالیہ ہونے سے دنیا میں ٹیکنالوجی کے شعبے میں سرگرم کمپنیوں کو کافی نقصان پہنچا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ آنے والے ہفتوں میں، اس دیوالیہ پن کے نتائج کی وجہ سے مزید اقتصادی مشکلات سامنے آئیں گی۔
خبر کا کوڈ : 1046924
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش