0
Friday 17 Mar 2023 16:01

ویت نام میں "مائی لی" کا امریکی قتل عام جسے دنیا بھلا چکی

ویت نام میں "مائی لی" کا امریکی قتل عام جسے دنیا بھلا چکی
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

انسانی تاریخ میں بڑی بڑی ظالم و جابر ریاستیں رہی ہیں، جن کے سامنے انسانی جان کی کوئی قیمت نہ تھی۔ صرف طاقت کے اظہار کے لیے لاکھوں انسانوں کا قتل کر دینے والے بھی تاریخ میں موجود ہیں۔ محض اپنے خود ساختہ مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے شہروں کے شہر اجاڑنے والے بھی موجود ہیں۔ ہر المیہ سامنے نہیں آتا، ظالم طاقتور ہوتا ہے، وہ اپنی طاقت کے زور پر کمزور کی آواز کو دبا دیتا ہے اور یوں ہزاروں لاکھوں انسانوں کا خون چھپا دیا جاتا ہے۔ آپ تصور کریں کہ کیمرا نہ ہوتا یا کوئی اپنی جان پر کھیل کر ابو غریب جیل سے انسانیت سوز امریکی مظالم کی عکس بندی نہ کرتا یا سوشل میڈیا اور کچھ بین الاقوامی میڈیا پر وہ تصاویر نہ آتیں تو انسانوں کو پتہ ہی نہ چلتا کہ کتنا بڑا ظلم روا رکھا گیا ہے۔؟ ویت نام پر امریکی قبضے کے دوران بے تحاشہ مظالم ڈھائے گئے، ویت نام کے باشندوں نے امریکی قبضے کو کبھی قبول نہیں کیا اور اس کے خلاف بے مثال مزاحمت کی۔ ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے اور آزادی کی قیمت تو بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اس وقت یہ صورتحال اور بھی گھمبیر ہو جاتی ہے، جب قابض قوت امریکہ جیسا ایک طاقتور ملک ہو، جس کی فوج جدید ترین ہتھیاروں سے مسلح ہو اور بین الاقوامی ادارے بھی اس کے تسلط میں ہوں۔

ویسے تو امریکی افواج نے ویت نام میں بے تحاشہ قتل عام کیے، مگر ایک قتل عام جس میں نہتے انسانوں کی بڑی تعداد کو قتل کیا گیا، وہ "مائی لائی" کا قتل عام ہے۔مائی لائی ویت نام میں ایک چھوٹا سا گاؤں ہے، جو انگ نگائی صوبے میں واقع ہے، یہ گاوں ویتنام جنگ کے دوران نیشنل لبریشن فرنٹ کا مرکز تھا، جو ویت نام کی آزادی کے لیے جدو جہد میں مصروف ایک بڑی تنظیم تھی۔ امریکی فوجیوں کی ایک کمپنی نے 16 مارچ 1968ء کو مائی لائی کے گاؤں میں داخل ہوتی ہے۔ گاوں کے لوگ معمول کے مطابق کام کاج میں مصروف ہیں اور خواتین بھی روایتی چاول ابال کر ناشتے کا اہتمام کر رہی ہیں۔ اس فوجی دستے کی قیادت ولیم کیلی کر رہا ہے۔ اسے یہ حکم دیا گیا ہے کہ گاوں آزادی پسندوں کا گڑھ ہے، اس لیے اسے تباہ کر دیا جائے۔ فوجی آہستہ آہستہ گاوں میں داخل ہوتے ہیں اور گھروں کی تلاشی لینا شروع کر دیتے ہیں۔انہوں چند چھوٹے موٹے روایتی ہتھیاروں کے علاوہ کچھ نہیں ملتا۔

یہ گاوں کے لوگوں کو جمع کرتے ہیں اور انہیں گولیاں مارنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ گھروں کو آگ لگاتے ہیں اور گھروں میں موجود نوجوان بچیوں کا ریپ کرتے ہیں اور ریپ کے بعد انہیں بھی گولیوں سے چھلنی کر دیتے ہیں۔ ایک سپاہی مائیکل برن ہارٹ کے مطابق میں نے انہیں M79 (گرینیڈ لانچر) سے لوگوں کو گولیاں مارتے دیکھا، یہ ان زخمیوں پر بھی گولیاں برسا رہے تھے، جو ابھی تک زندہ تھے۔ وہ عورتوں، بچوں اور بزرگوں کو بھی گولی مار رہے تھے۔ مبینہ طور پر مائی لائی کا قتل عام تب ختم ہوا، جب وارنٹ آفیسر ہیو تھامسن جو ایک فوجی ہیلی کاپٹر کا پائلٹ تھا، اس علاقے میں پہنچا، وہ دیکھتا ہے کہ گاوں اور اس کے اردگرد بڑی تعداد میں بچوں اور خواتین کی لاشیں بکھری پڑی ہیں اور بھاگتے ہوئے لوگوں پر بھی گولیاں ماری گئی ہیں۔

تھامسن نے 1994ء میں ٹولین یونیورسٹی میں مائی لائی کانفرنس میں کہا کہ ہم اڑان بھرنے کے چند منٹ بعد اس علاقے میں پہنچ گئے، جہاں بڑی تعداد میں لاشیں بکھری ہوئی تھیں، اس میں دو چار سال کی عمر کے بچوں سے لے کر شیر خوار بچوں کی لاشیں بھی تھیں۔ خواتین، بوڑھے اور جوان سب بے سدھ پڑے تھے۔ امریکی سٹوری کے مطابق بھی یہ قتل جاری رہتا، اگر تھامسن قتل عام کرنے والوں کو یہ دھمکی نہ دیتا کہ اگر یہ قتل جاری رہا تو میں ہیلی کاپٹر سے فائرنگ کر دوں گا۔جب قتل عام رکا بھی تو بڑی دیر ہوچکی تھی، اس قتل عام میں 504 افراد ہلاک ہوچکے تھے۔ 182 خواتین ماری گئیں، جن میں 17 حاملہ تھیں، 173 بچوں کو گولیاں ماری گئیں، جن میں  سے 56 شیرخوار تھے۔

ہر استعمار کی طرح امریکی استعمار نے اسے چھپانے کی بھرپور کوشش کی، مگر جیسے ہی یہ درد ناک کہانی دنیا کے سامنے آنے لگی، دنیا کے سامنے اصل امریکی چہرہ واضح ہونے لگا کہ امریکی افواج کس طرح ویت نام میں بڑے پیمانے پر عام لوگوں کا قتل عام کر رہی ہے۔ عام امریکی عوام نے اس پر شدید ردعمل کا اظہار کیا بلکہ عام امریکیوں کو دھچکا لگا، جنہیں اس آپریشن کو انسانیت کی نجات کا آپریشن کے طور پر پیش کیا جا رہا تھا۔ لوگ امریکی کردار پر سوال اٹھانے لگے کہ کیسے عام انسانوں کو اتنی بے دردی سے قتل کیا جا سکتا ہے۔؟ آہستہ آہستہ حقائق دنیا کے سامنے آئے۔ امریکی فوج کے ان مظالم کی تحقیقات کے لیے کولن پاول کو تحقیقات کی ذمہ داری دی گئی، یہ وہی کولن پاول ہیں، جو بش انتظامیہ میں سیکرٹری سٹیٹ رہے۔

انہوں نے اس پورے قتل عام کی تحقیقات کو اس دلیل سے وائٹ واش کرنے کی کوشش کی کہ اس کے بعد بھی ویتنامیوں اور امریکی فوجیوں کے درمیان تعلقات بہت بہتر رہے۔ یعنی یہ حادثہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں ہے۔ نام نہاد تحقیقات میں صرف لیفٹینٹ کلی کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ اس نے کہا تھا کہ میرا کیا قصور ہے، میں تو آرڈر پر عمل کر رہا تھا۔ اسے عمر قید کی سزا ہوئی تھی۔ امریکی صدر نکسن نے اس کی سزا کم کر دی اور مزید مہربانی کرتے ہوئے جیل جانے کی بجائے اسے گھر میں نظربند کرکے سزا پوری کرنے کی سہولت فراہم کر دی۔ یوں پانچ سو چار افراد کے قتل کے بدلے ایک امریکی فوجی کو  کچھ عرصے کے لیے گھر میں نظر بند کرکے عدالت کو قائم کر دیا گیا۔ ویسے بھی ایک امریکی کی آزادی پانچ سو انسانوں کے قتل عام سے زیادہ اہم ہے۔ انسانی تاریخ استعماری قوتوں کے ایسے مظالم سے بھری پڑی ہے، جہاں مظلوموں کو انصاف نہیں ملتا۔
خبر کا کوڈ : 1047218
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش