0
Saturday 18 Mar 2023 16:30

ایران اور سعودی عرب تعلقات کی بحالی، صہیونی ریاست پر بجلی گر پڑی

ایران اور سعودی عرب تعلقات کی بحالی، صہیونی ریاست پر بجلی گر پڑی
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان

دنیا کے حالات تیزی سے بدل رہے ہیں۔ ہر نیا دن عالمی سیاسی منظر نامہ پر ایک نئی تبدیلی کے ساتھ طلوع ہو رہا ہے۔ ایک طرف یورپ اور مغرب ہے کہ جو روس سے نبرد آزما ہے اور اس کوشش میں ہے کہ روس کی رہی سہی قوت کا خاتمہ کرے، جبکہ روس بھی اپنی تاریخی فوجی قوت کو فراموش نہیں کر پایا ہے۔ اگرچہ 1991ء کے بعد روس ٹکڑے ٹکڑے ضرور ہوا، لیکن آج بھی روس اپنی ماضی کی قوت کے ساتھ خطے میں اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے کی دوڑ میں کسی سے پیچھے نہیں ہے۔ جیسا کہ ایک مشاہدہ ہم نے گذشتہ سالوں میں کیا ہے کہ جب شام و عراق میں امریکی و اسرائیلی حمایت یافتہ دہشت گرد گروہ داعش کے خاتمہ کے لئے روس براہ راست خطے کی سلامتی کے لئے میدان جنگ میں وارد ہوا اور تاحال اس خطے کی قومی مزاحمت کے ساتھ مثبت تعلقات قائم کرکے آگے کا سفر طے کر رہا ہے۔

دوسری طرف چین ہے کہ جو دنیا کے تمام تر جنگی جنونی حالات میں خاموشی سے معاشی ترقی کا سفر مسلسل طے کئے جا رہا ہے اور کئی ایک رکاوٹوں کو اپنی خاموش اور سافٹ پاور کے ذریعہ حل کرنے میں کامیاب بھی ہو رہا ہے۔ یہی چینی سافٹ پاور ہے کہ آج چین امریکہ سمیت یورپ اور افریقی منڈیوں میں پہنچ چکا ہے۔چین سے ایشیائی ممالک تک رسائی کے لئے زمینی راستوں کو ہموار کرنے کے لئے ون بیلٹ ون روڈ جیسے منصوبے بھی تیزی سے تکمیل کی طرف جا رہے ہیں۔ پاکستان کی ایک اہم ترین بندرگاہ گوادر پر بھی چین باقاعدہ کام کرنے میں مصروف عمل ہے۔ لہذا دنیا جہاں ایک طرف جنگ کے بادلوں میں گھری ہوئی ہے، وہاں چین اپنی سافٹ پاور کے ذریعے دنیا میں اپنی معاشی ترقی کا جال بچھانے میں کامیابی سے ہمکنار ہو رہا ہے۔

تیسری طرف علاقائی سطح پر ایران خطے کی طاقت کے طور پر ابھر رہا ہے۔ علاقائی سطح پر ہم دیکھتے ہیں کہ ایران وہ واحد طاقت ہے کہ جس نے خلیج فارس سمیت غرب ایشیائی ممالک میں اپنی کامیاب سیاست کے ستارے چمکائے ہیں۔ شام کی بات کریں تو شام کو امریکی و صہیونی حمایت یافتہ دہشت گرد گروہوں بشمول داعش اور النصرہ فرنٹ جیسوں سے نجات دلوانے میں شامی حکومت کی درخواست پر ایران سب سے پہلا ملک تھا کہ جس نے اس جنگ میں قدم رکھا اور دس سالہ عرصہ میں نہ صرف شام بلکہ عراق میں بھی کامیابیاں حاصل کرکے دونوں ممالک کی عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ آج ایران خطے میں دفاعی پوزیشن کی بجائے دو قدم آگے موجود ہے اور خطے سے امریکی فوجیوں کے انخلاء میں پیش پیش نظر آتا ہے۔ صرف یہاں تک ہی نہیں بلکہ قطر جیسے ملک کے ساتھ بھی سعودی عرب کے مقابلہ میں ایران کے تعلقات زیادہ وسیع اور پائیدار نظر آرہے ہیں۔ اسی طرح لبنان کی مشکل صورتحال میں بھی ایران ہی سامنے آیا ہے کہ جس کی اشیائے خورد و نوش سمیت تیل اس وقت لبنان کی مارکیٹ میں مرکزیت حاصل کر رہے ہیں۔

عرب دنیا اور مغربی ایشیائی ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات کے بعد اگر ہم دیکھیں تو ایران کے چین کے ساتھ تعلقات اس قدر پائیدار ہیں کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ ٹھوس اعتماد کا رشتہ قائم کرچکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چین نے چار سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے منصوبے ایران کے ساتھ دستخط کئے ہیں، جو کہ تاریخی کارنامہ سے کم نہیں ہے۔ اسی طرح ایران نے لاطینی امریکہ کے ممالک کو امریکی معاشی دہشت گردانہ پالیسیوں کے مقابلہ میں مشکل ترین وقت میں ساتھ دیا ہے، جس کے باعث یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اگر جنوبی ایشیائی ممالک اور غرب ایشیائی ممالک میں کوئی مسلمان ملک طاقت کا مرکز و محور بن چکا ہے تو وہ ایران ہے۔

حال ہی میں چینی صدر کی موجودگی میں ایران اور سعودی عرب کے عہدیداروں کی ملاقات میں دونوں ممالک کے آپس میں سفارتکاری کا آغاز کرنے کے اعلان نے پوری دنیا کو چونکا دیا ہے، لیکن خاص طور پر اس خبر کے بعد امریکہ اور غاصب صہیونی ریاست اسرائیل میں صف ماتم بچھ چکی ہے۔ امریکہ اور اسرائیل نے ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی اور اسرائیل نواز رضا شاہ کی حکومت کے خاتمہ کے بعد سے ہی ایران کے خلاف یہ پراپیگنڈا شروع کر دیا تھا کہ ایران خطے کی عرب ریاستوں کے لئے خطرہ ہے۔ یہی بانسری بجاتے بجاتے امریکہ نے سعودی عرب سے جہاں اربوں ڈالر کا تیل اسلحہ کی مد میں حاصل کیا، وہاں کئی ارب ڈالر کا اسلحہ سعودی حکومت سمیت متعدد عرب ممالک کو فروخت کرکے اپنا فائدہ حاصل کیا۔

عرب دنیا کے حکمرانوں کو یہ یقین دلوایا جاتا رہا کہ ایران عرب دنیا کے لئے خطرناک ہے، لہذا ایران سے فاصلہ ضروری ہے اور بدقسمتی سے ماضی میں سعودی حکومت سمیت متعدد عرب حکومتیں بشمول مصر بھی اس منفی رحجان کا شکار بنا رہا اور ایران کے ساتھ پائیدار اور مستحکم تعلقات بنانے میں ناکام رہا، جبکہ ایران اس پورے عرصہ میں چالیس سالہ امریکی و مغربی یک طرف معاشی پابندیوں کے باوجود خطے کی ایک طاقت بن کر ابھر آیا ہے۔ بہرحال دیر آید درست آید کے تحت سعودی حکومت نے چینی صدر کے موجودگی میں ایران کے ساتھ تعلقات کی بحالی کا عزم کیا ہے، جو خوش آئند ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اس پیش رفت سے امریکہ اور اسرائیل کی پریشانی میں اضافہ ہوا ہے۔ امریکہ اور اسرائیل اسی جھوٹ اور منفی پراپیگنڈا کی بنیاد پر ہی عرب دنیا کے حکمرانوں کو بے وقوف بناتے آرہے تھے اور اسی بنیاد پر غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کے متحدہ عرب امارات، بحرین اور سعودی حکومت کے ساتھ تعلقات بنائے جا رہے تھے۔

ایران اور سعودی حکومت کے تعلقات کی بحالی کا مثبت پہلو یہ ہے کہ مسلم امہ کا مشترک دشمن اسرائیل اس پیش رفت سے شدید پریشانی کے عالم میں ہے اور اسرائیلی ذرائع ابلاغ مسلسل اس پیش رفت کے نتیجے میں مستقبل قریب میں رونما ہونے والی تبدیلیوں پر تبصرہ کر رہے ہیں۔ ایران اور سعودی عرب کے تعلقات کی بحالی کی خبر حقیقت میں صہیونیوں اور ان کی غاصب ریاست اسرائیل پر بجلی بن کر گری ہے اور موسم بہار کے آغاز میں ہی صہیونیوں کے لئے سخت خزاں کا موسم شروع ہوچکا ہے۔ ایک عبرانی اخبار گلوبز نے لکھا ہے کہ اسرائیل میں خزاں کے وسط میں آنے والے حالیہ موسم سرما کی تو بات ہی نہ کریں، کیونکہ مارچ کے پہلے ہفتہ میں پیش آنے والے واقعات یکے بعد دیگرے حملے تھے۔ چین کی ثالثی میں ایران اور سعودی عرب کے تعلقات کی بحالی کا معاہدہ، روس کی جانب سے یوکرین پر آواز سے تیز رفتار میزائلوں کے حملے، امریکا میں ناکام سلیکن ویلی بینک کی بندش اور مالیاتی منڈیوں میں عدم استحکام اسرائیل کے لئے تکلیف دہ چوٹوں سے کم نہیں ہے۔

 عبرانی اخبار کی مکمل رپورٹ میں اسرائیل کی پریشانی واضح طور پر بیان کی گئی ہے، کیونکہ اخبار نے لکھا ہے کہ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کو دوبارہ شروع کرنے کے معاہدے کے اعلان کے بارے میں سب سے زیادہ حیران کن کیا ہے؟ وہی معاہدہ جو سامنے آیا ہے، یا عام طور پر اس کے پیچھے چین کی بے مثال سرپرستی ہے۔ یہ معاہدہ کم از کم ایک بات کو تو ضرور ظاہر کرتا ہے کہ سعودی عرب نے برس ہا برس کی مخاصمت کے بعد ایران کے مقابلہ پر آنے کا فیصلہ ترک کر لیا ہے۔ اسرائیلی اخبار نے مزید لکھا ہے کہ جس دن ایران اور سعودی عرب کے تعلقات کا معاہدہ سامنے آیا ہے، اسی دن امریکہ نے اپنی پریشانی کا اظہار کچھ اس طرح سے کیا ہے کہ امریکہ اور سعودی عرب تعلقات کا دوبارہ جائزہ لینے کا اعلان کیا گیا۔ اخبار نے مزید لکھا کہ صہیونی ریاست کے اس وقت کے وزیر دفاع نے ایہود باراک نے شامی صدر بشار الاسد کے بارے میں جو پیشن گوئی کی تھی، وہ بھی غلط ثابت ہوئی تھی اور اسرائیل کے لئے وہاں سے ہی مشکلات کا اضافہ ہونا شروع ہوا۔

خلاصہ یہ ہے کہ چین اس وقت غرب ایشیاء میں داخل ہوچکا ہے، روس اور ایران پہلے ہی ایک اچھے اتحادی بن چکے ہیں۔ چین اپنی اقتصادی طاقت اور فوجی موجودگی کو فروغ دے رہا ہے۔ یہ بات پوری دنیا جانتی ہے کہ چین امریکہ کے مقابلہ پر ہے۔ دوسری طرف متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین نومولود تعلقات میں بھی سرد مہری کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ یہ سرد مہری یقینی طور پر ایران اور سعودی عرب کے تعلقات کی بحالی کے معاہدے کی وجہ سے ہے۔ حال ہی میں متحدہ عرب امارات نے اسرائیل سے ایک دفاعی نظام خریدنے کا سودا صرف اس لئے منسوخ کیا ہے کہ اسرائیل میں نیتن یاہو کی مخالفت نے اس کی حکومت کو کمزور کر دیا ہے، جبکہ نیتن یاہو بھی اپنی حکومت پر کنٹرول کھو چکے ہیں۔ یہاں تک کہ نیتن یاہو کا متحدہ عرب امارات کے لئے دورہ بھی منسوخ کیا گیا ہے، جو تاحال دوسری کوئی تاریخ کا اعلان سامنے نہیں آیا ہے۔ لہذا بدلتے ہوئے حالات اور واقعات واضح طور پر نشاندہی کرتے ہیں کہ غاصب صہیونی ریاست اسرائیل شدید تناؤ اور دباؤ کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ تاریخ میں کمزوری کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔
خبر کا کوڈ : 1047355
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش