QR CodeQR Code

صہیونی آباد کار بمقابلہ غاصب صہیونی ریاست اسرائیل

19 Mar 2023 07:27

اسلام ٹائمز: صہیونی جماعتوں کا صہیونی حکومت کیخلاف احتجاج دراصل ایک اعلان جنگ کے طور پر مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔ جسکی ایک وجہ شاید نیتن یاہو اور ان جماعتوں کے مابین کئے گئے معاہدوں کا مکمل نہ ہونا بھی ہوسکتا ہے۔ ادھر عرب ممالک کیساتھ غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کے قائم ہونیوالے تعلقات کو بھی ایران اور سعودی عرب کے تعلقات بحالی کے معاہدے سے شدید دھچکا پہنچا ہے۔ دوسری طرف مقبوضہ فلسطین میں ہی عرین الاسود نامی مزاحمتی گروہ نے غاصب صہیونی حکومت کیلئے مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے اور 1948ء کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں ایک ایسی نہ رکنے والی مزاحمت کا آغاز ہوچکا ہے، جسکو غاصب صہیونی حکومت اور فوج روکنے میں ناکام نظر آرہی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ غاصب اسرائیل اپنے منطقی انجام نابودی کی طرف ایک قدم اور آگے بڑھا چکا ہے۔


تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان

غاصب صہیونی ریاست اسرائیل جو کہ سکیورٹی کے ساتھ ساتھ سیاسی ساکھ بھی کھو چکی ہے، یہ غاصب ریاست گذشتہ چار برس میں پانچ مرتبہ حکومتیں بنانے اور ٹوٹنے کا مشاہدہ کرچکی ہے۔ حالیہ حکومت جس کی قیادت نیتن یاہو کر رہا ہے، انتہاء پسند صہیونی قوتوں کے ساتھ مل کر بنائی جانے والی حکومت ہے، جس میں نیتن یاہو کی جماعت لیکوڈ پارٹی نے اپنی گذشتہ نشستوں یعنی 32 نشستوں کو ہی حاصل کیا ہے، جبکہ مذہبی طور پر شدت پسند صہیونی پارٹی کے ارکان کی تعداد میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے اور ان کو 14 نشستیں حاصل ہوئی تھیں۔ اسی طرح دیگر دائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ مل کر نیتن یاہو حکومت بنانے میں کامیاب ہوا۔ یہاں یہ بات انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ تمام یہودی انتہاء پسند جماعتوں کے فلسطینی عوام کے بارے میں نظریات انتہائی سخت ہیں۔ ایک تحقیقاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق حالیہ انتخابات کے نتائج اسرائیلی معاشرے میں خاص طور پر آبادیاتی سطح پر رونماء ہونے والی تبدیلیوں کی عکاسی کرتے ہیں۔

الٹرا آرتھوڈوکس کے درمیان قدرتی تولید کی شرح سیکولر سے تین گنا ہے، حریدی خواتین کی اوسط شرح پیدائش سات ہے۔ ایک اندازے کے مطابق حریم ہر 16 سال میں اپنی تعداد کو دوگنا کرتے ہیں جبکہ باقی گروپ ہر 37 سال بعد اپنے آبادی کے وزن کو دوگنا کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آنے والے انتخابی راؤنڈز میں مذہبی قوتوں کی نمائندگی کو مضبوط بنانے کے لیے الٹرا آرتھوڈوکس تحریک کا تعاون بڑھے گا۔ یہودی پاور پارٹی کی انتہاء پسندانہ پالیسیوں اور اقدامات نے صہیونی فوجیوں میں اور تعلیمی اداروں میں بھی شدید انتہاء پسندی کو جنم دینے میں کردار ادا کیا ہے۔ نیتن یاہو جن جماعتوں کے ساتھ اتحاد بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں، ان کے مابین کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا ہے۔

مقبوضہ فلسطین پر غاصبانہ تسلط قائم رکھنے والے صہیونی ریاست اسرائیل کے موجودہ حالات میں دنیا بھر سے آئے ہوئے صہیونی آباد کار اس وقت موجودہ حکومت یعنی نیتن یاہو کے خلاف سراپا احتجاج ہیں اور یہ احتجاج ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ شدت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے۔ ان احتجاجی مظاہروں کو صہیونی فوسرز نے طاقت کے بل بوتے پر روکنے کی کوشش کی ہے، جس کے نتیجہ میں درجنوں صہیونی آبادکاروں کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا ہے۔ اس تشدد سے کم سے کم ان صہیونی آباد کاروں کو یہ تو احساس ہو رہا ہے کہ جب یہی ظلم اور بربریت اور اس سے زیادہ سخت تشدد فلسطینی نہتے عوام پر کیا جاتا ہے تو ان پر کیا گزرتی ہوگی۔ غاصب صہیونی ریاست میں ہونے والے اس احتجاج اور شور شرابہ کی وجہ نیتن یاہو کی جانب سے فوجداری کیسوں اور بدعنوانی کے مقدمات میں خود کو نکالنے کی ناکام کوشش ہے، جس کے لئے نیتن یاہو نے عدالتی قوانین کو تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے۔

نیتن یاہو جس پر مسلسل بدعنوانی اور متعدد مقدمات ہیں، وہ یہ چاہتا ہے کہ کنیسٹ ایسا قانون بنائے جو وزیراعظم اور وزراء سمیت اراکین کو استثنیٰ دے۔ یہ استثنیٰ اس وقت ملنا چاہیئے کہ جب تک وہ اپنے سرکاری عہدوں پر باقی رہیں۔ نیتن یاہو مسلسل اس قانون کو منظور کرنے کے لئے کوشاں ہیں، جو کہ غاصب صہیونی ریاست کی سپریم کورٹ کو کنیسٹ کے نافذ کردہ قوانین پر نظرثانی سے روک دے گا۔ نیتن یاہو کے ان اقدامات کے خلاف اتحادی جماعتوں کو چھوڑ کر باقی تمام جماعتیں اس کی مخالفت کر رہی ہیں۔ ان تمام ہی جماعتوں کے مذہبی نظریات کو دیکھا جائے تو سب متفق ہیں اور فلسطین کے متعلق سب کی سب شدت پسند نظریہ رکھتی ہیں۔ حالانکہ حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں ہی غرب اردن اور القدس کو یہودیانے کے منصوبوں پر ایک جیسا یقین رکھتی ہیں۔

اسی طرح یہ ساری جماعتیں مقبوضہ فلسطین میں بنائی جانے والی صہیونی آباد کاروں کی بستیوں کو بھی آئینی شکل دینے کے منصوبہ پر متفق ہیں۔ یہ سب کی سب فلسطینی عوام کو خود مختاری دینے کے خلاف بھی ہیں۔ غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کی مذہبی تحریک کا یہ مطالبہ بھی ہے کہ غرب اردن کے ساٹھ فیصد رقبہ یعنی جس کو سیکٹر سی کہا جاتا ہے، اس کو اسرائیل میں ضم کر دیا جائے اور بسنے والے تمام فلسطینیوں کو ان کے حقوق سے محروم کر دیا جائے۔ موجودہ صورتحال ایک نیا منظر نامہ پیش کر رہی ہے، جس میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ اسرائیل جو پہلے ہی سکیورٹی خطرات کے باعث دیواروں کے بعد دیواریں بنا بنا کر اپنے آپ کو محدود کر رہا تھا، اب سیاسی طور پر شدید بھونچال کا شکار ہے۔

جن صہیونی آباد کاروں کو دنیا بھر کے مختلف ممالک سے لا کر مقبوضہ فلسطین پر قبضہ کیا گیا تھا، آج وہی صہیونی آبادکار ہی حکومت کے خلاف ایک بڑا چیلنج بن چکے ہیں۔ غاصب صہیونی حکومت مکمل طور پر ان آبادکاروں کو روکنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ دسیوں ہزار صہیونی آباد کار صہیونی غاصب حکومت کے مقابلہ پر اتر آئے ہیں اور اسرائیل دن بہ دن اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھتے ہوئے کمزوری کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔ موجودہ حکومت نے صہیونیوں سے وعدے کئے تھے کہ اس حکومت کی اولین ترجیح ایران کے جوہری پروگرام کو ناکام بنانا ہوگی، لیکن حکومت کی اپنی غیر مستحکم صورتحال یہ بتاتی ہے کہ اپنے اس وعدے پر عمل کرنے کے لئے صہیونی حکومت کے لئے وقت موزوں نہیں رہا ہے۔

صہیونی جماعتوں کا صہیونی حکومت کے خلاف احتجاج دراصل ایک اعلان جنگ کے طور پر مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔ جس کی ایک وجہ شاید نیتن یاہو اور ان جماعتوں کے مابین کئے گئے معاہدوں کا مکمل نہ ہونا بھی ہوسکتا ہے۔ ادھر عرب ممالک کے ساتھ غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کے قائم ہونے والے تعلقات کو بھی ایران اور سعودی عرب کے تعلقات بحالی کے معاہدے سے شدید دھچکا پہنچا ہے۔ دوسری طرف مقبوضہ فلسطین میں ہی عرین الاسود نامی مزاحمتی گروہ نے غاصب صہیونی حکومت کے لئے مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے اور 1948ء کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں ایک ایسی نہ رکنے والی مزاحمت کا آغاز ہوچکا ہے، جس کو غاصب صہیونی حکومت اور فوج روکنے میں ناکام نظر آرہی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ غاصب اسرائیل اپنے منطقی انجام نابودی کی طرف ایک قدم اور آگے بڑھا چکا ہے۔


خبر کا کوڈ: 1047414

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/1047414/صہیونی-آباد-کار-بمقابلہ-غاصب-ریاست-اسرائیل

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org