QR CodeQR Code

عراق پر امریکی جارحیت کے 20 سال

24 Mar 2023 06:18

اسلام ٹائمز: ہارورڈ یونیورسٹی کے کینیڈی اسکول نے اپنی 2013ء کی رپورٹ میں اعلان کیا تھا کہ عراق اور افغانستان کی جنگیں امریکی تاریخ کی سب سے مہنگی جنگیں ہیں اور ان پر چار سے چھ ٹریلین ڈالر لاگت آئی ہے، جو کہ ہر امریکی خاندان کیلئے 75,000 ڈالر کے برابر ہے۔ رپورٹ کے مطابق امریکی وفاقی حکومت کی مالی صورتحال، خاص طور پر بجٹ خسارے اور قومی قرضوں کی بڑی وجہ عراق اور افغانستان کیخلاف بش اور اوباما انتظامیہ کے جنگی اقدامات ہیں۔


تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

بیس سال قبل 20 مارچ 2003ء کو امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی اجازت کے بغیر عراق پر حملے کا حکم دیا اور برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر، کی ملی بھگت سے یکطرفہ اور غیر قانونی اقدام کیا۔ اس اقدام کے نتیجے میں امریکی اور برطانوی افواج نے صدام کے خلاف جنگ شروع کی، جو بعث حکومت اور صدام حسین کے خاتمے کا سبب بنی۔ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار بنانے کی سہولیات کو تباہ کرنا جارج بش اور ٹونی بلیئر کی طرف سے اس جنگ کو شروع کرنے کا ایک بنیادی جواز تھا۔ تاہم امریکی اور برطانوی خفیہ ایجنسیوں کے دعوؤں کے باوجود ان دونوں ممالک کی افواج کے قبضے کے بعد عراق میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار نہیں ملے، البتہ اس کی وجہ سے دسیوں ہزار عراقی مارے گئے۔

اہم بات یہ ہے کہ اب عراق جنگ کے 20ویں سال میں امریکی عوام کے جائزوں کے نتائج بتاتے ہیں کہ اس جنگ کے بارے میں امریکی عوام کی رائے الٹ گئی ہے اور ان میں سے اکثر کا خیال ہے کہ اس سے امریکہ کی سلامتی میں کمی آئی ہے۔ دو تہائی امریکیوں نے 2003ء میں عراق کے خلاف فوجی کارروائی کی منظوری دی تھی، اب 61 فیصد کا خیال ہے کہ یہ فیصلہ غلط تھا۔ اسی سلسلے میں عراق پر امریکی حملے کی 20ویں برسی کے موقع پر 18مارچ بروز ہفتہ اس ملک کے دارالحکومت واشنگٹن میں ہزاروں افراد نے امریکی حکومت کی عسکریت پسندی اور جنگ بندی کے خلاف مظاہرہ کیا۔ منتظمین نے بتایا کہ اس اجتماع اور مارچ کا مقصد عالمی جنگ کے نتائج کے بارے میں رائے عامہ کو روشن کرنا اور دنیا میں امریکی عسکریت پسندی کے انسانی نقصانات سے لوگوں کو آگاہ کرنا ہے۔ عراق جنگ کے بارے میں برطانوی عوام کے خیالات پر بھی یہی مسئلہ لاگو ہوتا ہے۔

عراق میں برطانوی فوج میں خدمات انجام دینے والے اور اب لیبر پارٹی کے نمائندے ڈان جارویس کہتے ہیں: "عراق کے خلاف جنگ نے عوام کے اعتماد کو جو نقصان پہنچایا، وہ وقت گزرنے کے ساتھ ختم ہونے کے بجائے زیادہ واضح ہوتا جا رہا ہے۔" عراق پر فوجی قبضہ عراقی عوام کے بھاری جانی نقصان کے علاوہ کئی ہزار امریکی فوجیوں کی ہلاکت کا باعث بنا اور اس سے امریکی معیشت اور اس کی بین الاقوامی ساکھ کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا۔ برطانیہ کی ملی بھگت سے عراق پر امریکی حملے اور اس کے بعد عراق پر قبضے کے نتیجے میں کم از کم 210,000 شہری مارے گئے۔ اس جنگ کے بعد عراق کو طویل عدم استحکام کا سامنا کرنا پڑا، اس کے ساتھ ساتھ یہ ملک تکفیری انتہاء پسندی کے پھیلاؤ کے لیے ایک سازگار پلیٹ فارم بن گیا اور 2011ء میں امریکہ کے جزوی انخلاء کے بعد عراق کے بہت سے شمالی علاقے داعش دہشت گرد گروہ کے کنٹرول میں آگئے تھے۔

عراقی حکومت کی طرف سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کے حکم کے برسوں بعد بھی تقریباً 2500 امریکی فوجی وہاں تعینات ہیں۔ پینٹاگون کے اعداد و شمار کے مطابق عراق کی پوری جنگ میں امریکی فوجیوں کی ہلاکتوں کی کل تعداد 4,487 تک پہنچ گئی۔ عراق پر حملے کے وقت بش نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ حملہ عراق کو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے پاک کرنے اور اس کے لوگوں کو آزاد کرنے کے لیے کیا گیا تھا، تاکہ دنیا کو ایک بڑے خطرے سے نجات مل سکے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عراق میں امریکی جنگ عملی طور پر کئی برسوں کی جنگ کی صورت اختیار کر گئی، جس میں ہزاروں لوگ مارے گئے اور دسیوں ہزار زخمی ہوئے۔ عراق جنگ پر انسانی اخراجات کے علاوہ امریکہ کو اس جنگ میں بھاری مالی قیمت بھی اٹھانی پڑی۔ امریکی تھنک ٹینکس کی شائع کردہ متعدد رپورٹس سے اس کا پتہ چلتا ہے۔

ہارورڈ یونیورسٹی کے کینیڈی اسکول نے اپنی 2013ء کی رپورٹ میں اعلان کیا تھا کہ عراق اور افغانستان کی جنگیں امریکی تاریخ کی سب سے مہنگی جنگیں ہیں اور ان پر چار سے چھ ٹریلین ڈالر لاگت آئی ہے، جو کہ ہر امریکی خاندان کے لیے 75,000 ڈالر کے برابر ہے۔ رپورٹ کے مطابق امریکی وفاقی حکومت کی مالی صورتحال، خاص طور پر بجٹ خسارے اور قومی قرضوں کی بڑی وجہ عراق اور افغانستان کے خلاف بش اور اوباما انتظامیہ کے جنگی اقدامات ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگار "مائیکل ہرش" نے فارن پالیسی میں لکھا ہے کہ عراق پر حملہ امریکہ کی تاریخ کی اہم ترین اسٹریٹیجک غلطیوں میں سے ایک تھا۔ عراق پر جارحیت نے امریکہ کی فوجی کمزوری کو بے نقاب کیا اور باقی دنیا کو سکھایا کہ امریکہ پر کس طرح قابو پانا اور اسکے خلاف لڑنا ہے، وہ بھی ایسی طاقت کے خلاف جسے کبھی ناقابل تسخیر سپر پاور سمجھا جاتا تھا۔

اسی تناظر میں ایک مضمون میں عراق کے خلاف حملے کے اہم کرداروں کے انجام کے بارے میں لکھا گیا ہے۔ مضمون کا اقتباس اسلام ٹائمز کے قارئین کی نظر ہے۔
جارج ڈبلیو بش: سال 2003ء میں جارج ڈبلیو بش اپنے ہی والد جارج بش سینیئر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عراق کے خلاف جنگ کا آغاز کرنے والے دوسرے امریکی صدر بنے۔ سینیئر بش 1989ء سے 1993ء کے درمیان امریکی صدر رہے تھے۔ 2001ء کے 9/11 حملوں کے بعد کے ہفتوں میں بش جونیئر کسی بھی امریکی صدر کی نسبت سب سے زیادہ مقبول صدر بن گئے اور گیلپ کے مطابق رائے عامہ کے جائزوں میں ان کی تائید 91 فیصد عوام نے کی۔ لیکن عراق جنگ سے نمٹنے کے لیے، خاص طور پر 4,400 امریکی فوجیوں کی ہلاکت، امریکی محکمہ دفاع کے اعداد و شمار کے مطابق وہ غیر مقبول ہوئے۔

75 برس کے جارج بش جونیئر صدارتی عہدہ چھوڑنے کے بعد سیاسی یا سماجی زندگی میں زیادہ فعال نظر نہیں آئے، لیکن جب بھی میڈیا میں نظر آئے تو انھوں نے عراق کے خلاف جنگ کے اپنے فیصلے کا ہمیشہ بھرپور دفاع کیا۔ بش صدارتی افتتاحی اور آخری رسومات جیسے سرکاری مواقع پر عوامی طور پر نمودار ہوتے رہتے ہیں، لیکن اب اپنا زیادہ تر وقت ٹیکساس میں اپنی زمینوں میں فارمنگ جیسے کاموں میں گزارتے ہیں۔ وہ اس کے علاوہ خود کو پینٹنگ جیسے مشاغل میں بھی مصروف رکھتے ہیں۔
 
ڈِک چینی: جارج ڈبلیو بش کے نائب صدر عراق کے خلاف فوجی کارروائی کی ایک حامی آواز تھے اور انھوں نے صدام حسین کی حکومت پر بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار (WMDs) رکھنے کا الزام لگاتے ہوئے متعدد عوامی بیانات دیئے تھے۔ اْن کے ان بیانات نے امریکی حکومت کو عراق پر حملہ کرنے کے جواز کو مضبوط بنایا۔ اب 82 سال کے ڈِک چینی نے حکومت چھوڑنے کے بعد سے بش سے یکسر مختلف رویہ اختیار کیا: وہ سیاسی مسائل پر تبصرہ کرتا ہے اور یہاں تک کہ انتخابی ریلیوں میں بھی شرکت کرتا ہے۔ اس نے جنوری 2021ء کے کیپٹل ہِل کے فسادات کی وجہ سے ڈونالڈ ٹرمپ پر کھل کر تنقید کی۔

ڈونلڈ رمز فیلڈ: ڈونلڈ رمز فیلڈ 2001ء اور 2006ء کے درمیان صدر بش کی حکومت میں وزیرِ دفاع تھے۔ انھوں نے افغانستان اور عراق پر حملوں میں اہم اور متنازع کردار ادا کیا تھا۔ دیگر باتوں کے علاوہ رمز فیلڈ پر صدام حسین کی برطرفی میں مدد کے لیے "متبادل انٹیلی جنس جائزے" فراہم کرنے اور امریکی افواج کے ہاتھوں جنگی قیدیوں کو اذیت دینے کے واقعات کو درگزر کرنے کا بھی الزام لگایا جاتا ہے۔ رمز فیلڈ نے 2006ء میں جنگ کے بعد عراق سے نمٹنے کے لیے امریکہ میں بڑھتی ہوئی عوامی اور سیاسی مخالفت کے درمیان وزارت سے مستعفی ہوگئے تھے۔ اس نے ایک سوانح عمری لکھی، اپنے کیریئر کے بارے میں ایک دستاویزی فلم میں حصہ لیا اور صدر ٹرمپ کو 2020ء کے صدارتی انتخابات میں اپنی شکست کو الٹنے کی کوشش کرنے کے خلاف انتباہ کرنے میں دیگر سابق وزرائے دفاع کی آواز میں آواز ملائی۔ رمز فیلڈ کی وفات جون 2021ء میں کینسر سے ہوئی۔

کونڈولیزا رائس: رائس نے بش کے آٹھ سالوں کے دوران پہلے قومی سلامتی کی مشیر اور پھر وزیر خارجہ کے طور پر خدمات انجام دیں اور اس طرح امریکی حکومت کی تاریخ میں کسی بھی سیاہ فام خاتون کے اعلیٰ ترین عہدہ حاصل کرنے والوں کی فہرست میں شامل ہوئیں۔ عراق جنگ کی حامی ہونے کے ساتھ ساتھ، اس نے صدام کی حکومت کی طرف سے پیش کیے جانے والے مبینہ خطرے کے بارے میں امریکی میڈیا میں فعال طور پر رائے عامہ بنائی۔ یہاں تک کہ امریکی خبر رساں ادارے سی این این کو بھی قائل کیا کہ عراقی رہنماء جلد ہی جوہری ہتھیار حاصل کرسکتے ہیں۔ بش کے وائٹ ہاؤس چھوڑنے کے بعد رائس نے اسٹینفورڈ یونیورسٹی میں اپنا تدریسی کیرئیر دوبارہ سے شروع کیا اور وہیں ہوور انسٹی ٹیوشن تھنک ٹینک کی ڈائریکٹر کے طور پر کام کیا۔

کولِن پاول: امریکی افواج کے سابق سربراہ جنرل پاول عراق جنگ کے وقت امریکی وزیر خارجہ تھے۔ اس کردار پر تقرر ہونے والے وہ پہلے سیاہ فام تھے اور 1990-91 کی خلیجی جنگ کے دوران جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیئرمین کے طور پر خدمات انجام دے چکے تھے۔ جارج ڈبلیو بش کی کابینہ کے دیگر اراکین کے برعکس پاول ابتدا میں عراق پر حملہ کرنے کے منصوبے کے خلاف تھے، لیکن فروری 2003ء میں انہوں نے ہی اقوام متحدہ میں فوجی مداخلت کی وکالت کی، حتیٰ کہ صدام کی حکومت کے وسیع سطح پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں (WMDs) کو چھپانے کے الزام کے "شواہد" بھی پیش کی۔

جنرل پاول نے 2004ء میں کانگریس کے سامنے یہ تسلیم کرنے کے بعد استعفیٰ دے دیا کہ ایک سال قبل پیش کی گئی انٹیلی جنس "غلط" تھی اور بش انتظامیہ کے حق میں نہیں تھی۔انہوں نے لوگوں کو لیکچرز دینے کے طور پر اپنا کیریئر شروع کیا اور 2008ء کے صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹ کے سیاہ فام صدارتی امیدوار براک اوباما کی حمایت کے لیے ریپبلکن پارٹی سے اپنا تعلق توڑ لیا تھا۔ پاول کی وفات 2021ء میں 84 سال کی عمر میں کووڈ 19 کی پیچیدگیوں کی وجہ سے ہوئی۔
 
ٹونی بلیئر: عراق جنگ کے لیے ان کی حمایت کی وجہ سے سابق برطانوی وزیر اعظم کی ساکھ کو جارج ڈبلیو بش سے زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ بلیئر کو اس جنگ کی سرکاری انکوائری کی طرف سے بہت زیادہ تنقید کا نشانہ بنایا گیا، جس نے 2016ء میں یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اس نے صدام حسین کی طرف سے لاحق خطرے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا تھا، غیر تیار فوجیوں کو جنگ میں بھیج دیا تھا اور اس کے بعد کے حالات سے نمٹنے کے لیے "مکمل طور پر ناکافی" منصوبے تھے۔ بلیئر جو اب 69 سال کے ہیں، انہوں نے 2007ء میں استعفیٰ دے دیا تھا اور اس کے بعد سے انہوں نے اپنا زیادہ تر وقت اپنی این جی او ٹونی بلیئر انسٹی ٹیوٹ فار گلوبل چینج، کے لیے وقف کیا ہے، لیکن عراق اب بھی اس کی میراث پر ایک سیاہ دھبہ ہے۔ گذشتہ سال جنوری میں، 5 لاکھ سے زیادہ لوگوں نے بلیئر کو برطانوی حکومت سے "نائٹ ہڈ" ملنے کے خلاف ایک پٹیشن پر دستخط کیے تھے۔


خبر کا کوڈ: 1048396

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/1048396/عراق-پر-امریکی-جارحیت-کے-20-سال

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org