QR CodeQR Code

سعودی عرب کس سمت جا رہا ہے؟

24 Mar 2023 11:08

اسلام ٹائمز: سیاح سعودی عرب کیوں آئیں؟ سیاح جہاں آتے ہیں، وہاں کئی طرح کی عیاشی کے سامان چاہتے ہیں۔ سعودی عرب کا روایتی معاشرہ اور اقدار ایسے کسی کام کی اجازت نہیں دیتی تھیں۔ سعودی عرب نے تیزی سے اپنی روایتی اقدار کو پس پشت ڈالا ہے، اب ریاض اور دیگر مقامات پر بڑے بڑے کسنرٹ ہو رہے ہیں، بالی ووڈ اور ہالی ووڈ کے اداکاروں کے استقبال ہو رہے ہیں، جوئے کے بڑے بڑے مراکز بن رہے ہیں، آپکو شائد حیران کن لگے، مگر تاریخ کے سب سے زیادہ پیسے دیکر فٹ بالرز کو لانا بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے کہ دنیا کو باور کرایا جا سکے کہ اب ہم اپنے کلچر کو تبدیل کر رہے ہیں۔


تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

سعودی عرب امت مسلمہ کا اہم ملک ہے۔ مسلمانوں کے مقدس ترین مقامات یعنی مکہ اور مدینہ سعودی عرب میں واقع ہیں۔ خلافت عثمانیہ سے ارض مقدس چھیننے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ انہیں حاصل خاص مقام بھی ختم کیا جا سکے اور عملی طور پر ایسے ہی ہوا۔ خلافت عثمانیہ کو خادم حرمین کے حیثیت سے جو خصوصی مقام حاصل تھا، وہ ختم ہوگیا اور عملی طور پر پوری امت کے اجتماع کا مرکز ان سے چھن گیا۔ تقریباً ایک سو سال سے سعودی عرب کی کچھ طے شدہ بنیادیں تھیں، جن پر ریاست بڑی سختی سے گامزن تھی۔ ریاست اسلام کے سلفی ورژن کو فالو کر رہی تھی اور اس کی دنیا بھر میں نشر و اشاعت کرتی تھی۔ جنت البقیع سمیت اسلام کی مقدس شخصیات کی یادگاریں گرا دی گئیں اور حج کے موقع پر بے تحاشہ لٹریچر سلفیت کو پرموٹ کرنے کے لیے لگایا گیا، جس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔اس سے ایک طرح کی فرقہ واریت نے جنم لیا، جو روضہ رسولﷺ اور دیگر مقامات پر مختلف عقیدہ رکھنے والے مسلمانوں سے برے سلوک اور اس لٹریچر کا نتیجہ تھا۔

مذہبی رہنمائی آل شیخ اور حکومت آل سعود کے پاس ہوگی اور نظام اسی اصول پر چلتا رہا، اب یہ بنیاد بھی ہل رہی ہے۔ سعودی عرب کی آمدن کا انحصار تیل اور زائرین کی آمد پر منحصر رہا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ زیادہ تر تیل پر ہی رہا تو یہ بے جا نہیں ہوگا۔ یہ ایک طرح سے عیاشی ہی تھی، بغیر محنت کے اربوں ڈالر خرچ کرنے کے لیے دستیاب ہوتے تھے۔ یہ بات عملی طور پر مانی ہوئی تھی کہ سعودی عرب کے تہذیب و تمدن کو نہیں چھیڑا جائے گا، لوگوں کی زندگیوں کی اسلام کے سلفی ورژن کے مطابق تعلیم و تربیت کی جائے گی۔ یوں ایک طرح سے عام معاشرے میں مغربی تہذیب و تمدن کی حوصلہ شکنی کی گئی تھی۔ شاہی خاندان کا طرز زندگی جیسا مرضی ہو، عام عوام کو اس کی طرف راغب نہیں کیا جائے گا۔ اسی طرح سعودی عرب امت کی قیادت کا بھی دعویدار رہا اور اس حوالے سے امت مسلمہ کے مسائل جیسے فلسطین و کشمیر میں تو کوئی خاص کردار ادا نہیں کیا، مگر ایک سٹیٹس کو  برقرار رکھا۔

مندرجہ بالا اصولوں پر سعودی عرب نے تقریباً ایک سو سال گزار دیئے، اب سب کچھ بدل رہا ہے اور ہر جگہ نئی پالیسی لے رہی ہے، جسے محمد بن سلمان کا 2030ء کا ویژن کہا جاتا ہے۔ پہلے مرحلے میں تیل پر انحصار کو ختم کرنے کی بات کی جا رہی ہے، البتہ تیل کی دولت اور دن ویسے ہی ختم ہو رہے ہیں۔ اس کا حل یہ نکالا گیا ہے کہ سعودی عرب کو بیرونی سرمایہ کاری کے لیے کھول دیا جائے۔ اس کے لیے بڑے پیمانے پر ادارہ جاتی ریفارمز کی جا رہی ہیں۔ آپ نے نیوم شہر کا منصوبہ ضرور سنا ہوگا، جو اب عملی طور پر زمین پر نظر آنے لگا ہے۔ یہ پانچ سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے صحرا میں منگل والی بات ہے۔ ریاض ایئر کے نام سے نئی کمپنی قائم کی گئی ہے، جس میں تیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرکے بہتر بوئینگ جہاز خریدے جا رہے ہیں۔ یہ ایوی ایشن کی تاریخ میں پانچواں بڑا آرڈر ہے۔ ریاض کے خالد ایئرپورٹ کو اس طرح اپ ٰڈیٹ کیا جا رہا ہے کہ وہ دو ہزار تیس تک اہیھرو ایئرپورٹ سے پچاس فیصد زیادہ مسافر ہینڈل کر سکے گا، جن کی تعداد ایک سو بیس ملین ہوگی۔

یہ بھی دلچسپ ہے کہ ریاض ایئر کا پلان ایران سعودیہ کے معاہدے  کے اڑتالیس گھنٹے بعد سامنے آیا ہے۔ اس سے خطے کا ہوائی مرکز ریاض کو بنانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں، جیسے قطر، اتحاد اور دیگر ممالک کی ایئرلائنز نے ان ممالک کو سیاحت کا مرکز بنا دیا، خیال یہ ہے کہ سعودی عرب یہی کام ریاض ایئر سے لے گا۔
سیاح سعودی عرب کیوں آئیں؟ سیاح جہاں آتے ہیں، وہاں کئی طرح کی عیاشی کے سامان چاہتے ہیں۔ سعودی عرب کا روایتی معاشرہ اور اقدار ایسے کسی کام کی اجازت نہیں دیتی تھیں۔ سعودی عرب نے تیزی سے اپنی روایتی اقدار کو پس پشت ڈالا ہے، اب ریاض اور دیگر مقامات پر بڑے بڑے کسنرٹ ہو رہے ہیں، بالی ووڈ اور ہالی  ووڈ کے اداکاروں کے استقبال ہو رہے ہیں، جوئے کے بڑے بڑے مراکز بن رہے ہیں، آپ کو شائد حیران کن لگے، مگر تاریخ کے سب سے زیادہ پیسے دے کر فٹ بالرز کو لانا بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے کہ دنیا کو باور کرایا جا سکے کہ اب ہم اپنے کلچر کو تبدیل کر رہے ہیں۔

خواتین کے ڈرائیونگ سے لے کر دیگر سرگرمیوں میں حصہ لینے کو پرموٹ کیا جا رہا ہے۔ سعودی عرب میں آل شیخ کا کردار بھی محدود کیا جا رہا ہے، بڑے بڑے علماء کو صرف اختلاف کرنے پر جیل میں ڈالا جا رہا ہے اور ایسے لوگوں کو پرموٹ کیا جا رہا ہے، جو روشن خیالات کے حامل ہیں، انہی کے پرموٹ کرنے والے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ لگ یوں رہا ہے کہ سلفیت کی سرپرستی سے بھی ہاتھ اٹھایا جا رہا ہے۔ ایک وقت تھا کہ مولانا مودودی کی تصانیف پر انہیں شاہ فیصل ایوارڈ سے نوازا گیا تھا اور اب یہ وقت ہے کہ مولانا مودودی کی جہاد سے متعلقہ تحریروں پر پابندی لگائی جا رہی ہے۔فلسطین اور کشمیر پر موقف بھی تبدیل ہوچکا ہے، عملی طور پر اسرائیل کو تسلیم کیا جا چکا ہے اور مودی کو سعودی عرب کا سب سے بڑا سول ایوارڈ دیا جا چکا ہے۔اس سب سے یہ بات کافی حد تک واضح ہو رہی ہے کہ سعودی عرب تبدیلی کے عمل سے گزر رہا ہے۔

کچھ تبدیلیاں وقت اور حالات کا تقاضا تھیں، ان کا نہ کرنا نقصان دہ تھا، نہ کی جاتیں تو بادشاہت کے خلاف شدید ردعمل آتا۔ اسی طرح آل سعود مذہبی طبقے کو بادشاہت کے خلاف ایک ممکنہ خطرہ تصور کرتی ہے۔ اس لیے ان کی طاقت کو قابو کیا جا رہا ہے۔ مستقبل تیل پر منحصر نہیں رکھا جا سکتا، معاشی مجبوری کئی اور اصلاحات کا باعث بنے گی۔ سعودی عرب ایران کے ساتھ معاہدے کے پیچھے ایک وجہ تنازع جیتنے کی بجائے مذاکرات سے اجتماعی فائدہ حاصل کرنے کی سوچ ہے، جس میں سعودی عرب کچھ آبرومندانہ انداز میں یمن سے نکل پائے گا، جہاں بری طرح پھنس گیا تھا۔ یہ تو وقت بتائے گا کہ یہ نئی سمت سعودی عرب کے لیے کتنی بہتر ثابت ہوتی ہے۔


خبر کا کوڈ: 1048429

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/1048429/سعودی-عرب-کس-سمت-جا-رہا-ہے

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org