0
Friday 24 Mar 2023 19:11

عالمی افق پر ابھرتی چینی سفارتکاری، ایران سعودی عرب معاہدہ اور پاکستان

عالمی افق پر ابھرتی چینی سفارتکاری، ایران سعودی عرب معاہدہ اور پاکستان
تحریر: ممتاز ملک

گذشتہ دو سالوں کی عراق اور عمان کی امن کوششیں بارآور ثابت ہوئیں اور چین کی سربراہی میں ایران، سعودی عرب کے درمیان منقطع سفارتی تعلقات دوبارہ بحال ہونا شروع ہوگئے ہیں، جس کا عالم اسلام میں باالخصوص اور پوری دنیا میں بالعموم خیر مقدم کیا گیا ہے، سوائے امریکہ، اسرائیل اور انکے چند قریبی اتحادیوں کے، جنہوں نے بڑا محتاط اور سطحی سا خیر مقدم کیا ہے۔ چین کی سربراہی میں اپنے کامیاب منطقی انجام کو پہنچنے والے امن معاہدے سے عالمی اُفق پر چینی سفارت کاری کے قد کاٹھ میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ چین کی سربراہی میں سہ فریقی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے، جس کے تحت طے ہونے والے معاہدے کی نگرانی اور جائزہ لیا جاتا رہے گا۔ اس معاہدے سے چینی معیشت بھی مزید پھلے پھولے گی، کیونکہ چین "بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو" کے ذریعے اپنا اثر و رسوخ اور تجارت بڑھا رہا ہے، چین کے حوالے سے یہ بھی شنید ہے کہ وہ روس اور یوکرین کے درمیان بھی جنگ بندی اور صلح پر مبنی مثبت خبر دنیا کو دینے والا ہے۔

اس معاہدے میں جو اہم نکات طے ہوئے ہیں، ان میں دونوں ممالک کا دو ماہ کے اندر سفارت خانوں کو دوبارہ کھولنا، ایک دوسرے کی خود مختاری کا احترام اور اندرونی معاملات میں عدم مداخلت شامل ہے۔ جس کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان "اچھے ہمسایہ تعلقات" کو فروغ دینا اور اختلافات کو بات چیت اور سفارت کاری کے ذریعے حل کرنا ہے۔ سعودی عرب اور ایرانی وزرائے خارجہ معاہدے کی شرائط کو فعال بنانے اور بات چیت کے لیے ایک اجلاس منعقد کریں گے، جس میں 2001ء کے سکیورٹی تعاون کے معاہدے اور 1998ء کے معاہدے کے تحت معیشت، سائنس اور کھیلوں سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کے لیے اقدامات اٹھائے جانا شامل ہیں۔ اس موقع پر دنیا بھر میں اسے بہت زیادہ کوریج ملی ہے۔ مصر، لبنان، روس، یورپی یونین سب نے اسے خطے اور عالمی امن کے لیے انتہائی اہم پیشرفت قرار دیا ہے، خارجہ تعلقات کی بنیاد قومی مفادات پر مبنی ہوتی ہے، جہاں اس معاہدے سے ایران کی معیشت پر اچھے اثرات مرتب ہونگے، وہاں اس کے قریبی ممالک عراق، شام اور یمن پر بھی بہترین اثرات پڑیں گے۔

ایران کے بعد خوش آئند بات یہ ہے کہ سعودی عرب اور شام کے درمیان بھی بارہ سال سے منقطع تعلقات بحال ہونے جا رہے ہیں۔ جو شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف سعودی عرب کی مداخلت سے شام میں اندرونی خلفشار پھیلنے پر ختم ہوگئے تھے۔ شامی صدر کا متحدہ عرب امارات کا کامیاب دورہ اور ایران، اماراتی وزرائے خارجہ کی ایرانی تہوار نوروز کے موقع پر ٹیلی فونک بات چیت مثبت پیشرفت ہے۔سعودی عرب مذہبی سیاحت کے شعبہ جیسے جنت البقیع میں ایران کی شراکت داری سے سرمایہ کاری کا پلان رکھتا ہے۔ جو کہ ایم بی ایس کی سعودی عرب کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی راہ پر گامزن ہونے کی اہم کڑی ہے۔ اس معاہدے سے زیادہ مروڑ اسرائیل کو اٹھ رہے ہیں، اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نتن یاہو نے چینی ثالثی میں کرائے گئے اس امن معاہدے پر اپنی سابقہ حکومت اور امریکی صدر جو بائیڈن کو مورد الزام ٹھہرایا ہے اور سابق اسرائیلی وزیراعظم نفتالی بینیٹ نے کہا اس معاہدے سے ایران کے خلاف علاقائی اتحاد قائم کرنے کی کوششوں کو شدید دھچکا لگا ہے۔

ہمارا حریف ملک بھارت بھی اپنے ملکی مفادات کے تحفظ کے لیے بڑی تیزی اور ہوشیاری کے ساتھ اپنے سفارتی کارڈز کھیل رہا ہے۔ کئی اہم شعبوں میں خلیجی ممالک کے ساتھ انڈیا کا تعاون مسلسل بڑھ رہا ہے۔ انڈیا ان خلیجی ممالک کے ساتھ توانائی اور سلامتی کے شعبوں میں کام کر رہا ہے اور بیشتر خلیجی ممالک کے ساتھ انڈیا کے اچھے تعلقات ہیں۔ سب سے اہم تیل اور گیس کا بزنس ہے۔ اس کے علاوہ خلیجی ممالک میں انڈین شہریوں کی بڑی تعداد کام کرتی ہیں اور اپنے وطن کے لیے زرمبادلہ بھیجنے کا بڑا ذریعہ ہیں، گذشتہ سال انڈیا اور متحدہ عرب امارات کے درمیان "جامع اقتصادی شراکت داری معاہدہ" ہوا تھا۔ اس معاہدے کے تحت تجارت بڑھانے کے ساتھ ساتھ سروسز اور سرمایہ کاری بڑھانے پر بھی زور دیا گیا ہے۔ انڈیا سب سے زیادہ خام تیل عراق اور پھر سعودی عرب سے خریدتا ہے اور اب انڈیا کی جانب سے روس سے خام تیل کی درآمد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ لہذا بھارت بھی مشرق وسطیٰ میں اپنے پاؤں مضبوط کرنے میں کامیاب نظر آتا ہے۔

اب آتے ہیں اس مہم نقطے کی طرف، جس کے لیے یہ تحریر لکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ ہمارے ملک کی اس حوالے سے پالیسی اور مستقبل کی منصوبہ بندی کیا ہوگی اور ہم اس پر کس قدر نظر رکھے ہوئے ہیں، کیونکہ پاکستان تو سعودی عرب اور ایران دونوں برادر اسلامی ممالک کے ساتھ بہت قریبی تعلقات رکھتا ہے، ایران سعودی عرب معاہدے پر پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے کہا گیا کہ اس سفارتی اقدام سے علاقائی امن و استحکام کو بڑھانے میں مدد ملے گی، ہم اس تاریخی معاہدے میں چین کی بابصیرت قیادت کے کردار کو سراہتے ہیں، جو مثبت مشغولیت اور بامعنی مذاکرات کی طاقت کو ظاہر کرتا ہے۔ ہم اس انتہائی مثبت سرگرمی کے منتظر ہیں۔ ہم سعودی عرب اور اسلامی جمہوریہ ایران کی قیادت کی جانب سے دکھائی جانے والی بصیرت کی تعریف کرتے ہیں۔

میرا خیال ہے کہ پاکستان خود بھی ان دونوں ممالک کے درمیان صلح کروانے کی مخلصانہ کاوشیں کرتا رہا ہے، لہذا اب وقت آگیا ہے کہ اس سازگار ماحول سے ہمیں بھی استفادہ کرنا چاہیئے، سب سے پہلے تو ملک کے اندر سیاسی عدم استحکام کو غیر یقینی صورتحال سے نکالنا چاہیئے، ہمارے ملک کی خارجہ پالیسی میں کلیدی کردار ادا کرنے والے ذمہ داران کو چاہیئے کہ وہ بھی اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کا ازسرنو جائزہ لیتے ہوئے انہیں بہتر بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں اور چاروں ملکوں کے ساتھ موجود بارڈرز کو ہر سطح کی تجارت کے لئے کھول کر لین دین کے منقطع سلسلے کو اوپن کرنا چاہیئے۔

 ہمارے لیے بھی عوام کو بڑے پیمانے پر ریلیف فراہم کرنے کے لیے ایران کے گیس اور تیل کے بڑے ذخائر سے مالا مال ہمسایہ ملک سے فائدہ اٹھانے میں ہی دانشمندی ہوگی، مذہبی تعصبات سے بالاتر ہو کر ہمیں ملکی ترقی کی خاطر اقدامات اٹھانے ہونگے، جس سطح پر بھی مسائل موجود ہوں، لیکن لین دین اور باب تجارت کسی صورت بند نہیں ہونے چاہئیں، تاکہ کاروبار کی صورت میں تازہ ہوا کا جھونکا ملکی معیشت کے لئے بہتری کا سبب ہو۔ اس کی مثال آپ چین اور بھارت سے لے سکتے ہیں کہ ان کے درمیان شدید سرحدی تناؤ اور کشیدگی کے باوجود ملکی تجارت بند نہیں ہوتی اور یہ تقریباً 100 ارب ڈالرز سے زیادہ ہے، کیونکہ دونوں ہمسایہ ممالک کو اس بات کا ادراک ہے کہ آبادی کے بڑے حجم کی ضروریات پوری کرنے میں دوطرفہ تجارت کا پہیہ چلتے رہنا ہی فائدہ مند ہے۔
خبر کا کوڈ : 1048503
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش