1
0
Saturday 1 Apr 2023 01:51

یکم اپریل ”یوم اللہ“

یکم اپریل ”یوم اللہ“
تحریر: سید تنویر حیدر

انقلاب ایک ایسے منہ زور گھوڑے کی طرح ہوتا ہے، جس کو اگر آٸین اور قانون کی لگام نہ ڈالی جائے تو وہ اپنے راستے میں آنے والی ہر شے کو بے دریغ اپنے سموں تلے روندتا چلا جاتا ہے۔ اس سرپٹ دوڑنے والے گھوڑے کی باگ ڈور کسی ایسے آہنی ہاتھ میں ہونی چاہیئے، جو اس کو اس کی حدود سے تجاوز نہ کرنے دے اور اسے اس کی درست سمت میں رواں دواں رکھے۔ سرزمین ایران میں 11فروری 1979ء کو کامیاب ہونے والا اسلامی انقلاب بھی ”تیز ترک گامزن منزل ما دور نیست“ کی لَے پر جس طرح بحر ظلمات کا سینہ چاک کرکے اپنی منزل مقصود تک پہنچا تھا، ڈر تھا کہ کہیں یہ اپنی ہی تیز گامی کے ہاتھوں اپنا توازن کھو نہ بیٹھے۔ اس خدشے کا درک کرتے ہوۓ زمامِ انقلاب کو اپنی گرفت میں رکھنے والے امامِ انقلاب نے انقلاب کی کامیابی کے ابتداٸی دنوں میں ہی اسے ایک قانون کے داٸرے میں رکھنے کا اہتمام کیا۔ ایسا قانون اور آٸین جو اس کی بقاء کا ضامن ہو۔

چنانچہ ”اللہ اکبر“ کی صداٶں میں صفحہء ہستی پر ابھرنے والے نئے ایران کے لیے خدا کی حاکمیت پر مبنی ایک اسلامی آٸین کی تشکیل کی گئی اور عوام سے اس کی منظوری کے لیے ایک ریفرنڈم کا انعقاد کیا گیا۔ اس ریفرنڈم میں حصہ لینے والوں کا ہجوم اس قدر زیادہ تھا کہ امام خمینی نے انتخاب کا وقت بڑھانے کا حکم دے دیا۔ ایران کے عوام اس انتخاب میں پہلی بار مکمل طور پر کسی آزادانہ انتخاب کا تجربہ کر رہے تھے۔ انتخابی نتاٸج کا اعلان اس وقت کے وزیر مملکت احمد صدر حاج سید جوادی نے کیا۔ نتاٸج کے مطابق اس ریفرنڈم میں 98 فی صد سے زیادہ رائے دہندگان نے اسلامی جمہوری نظام کے حق میں اپنی رائے دے کر ایران کے سیاسی و سماجی ڈھانچے کو یکسر بدل کر رکھ دیا اور اڑھاٸی ہزار سالہ شہنشاہیت کے بت کو ریزہ ریزہ کرکے اس کی جگہ اسلامی جمہوری نظام کی بنیاد رکھی۔ اسی وجہ سے اس دن کو ”یوم اسلامی جمہوریہ“ کا نام دیا گیا۔

آج اگر باقی ماندہ ایک یا دو فیصد طبقے میں سے کچھ افراد ٹولیوں کی شکل میں  شعاٸر اسلام کا مذاق اڑاتے ہوئے سوشل میڈیا کی جادو گری اور اہل مغرب کی فتنہ گری کے سہارے لوگوں کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ ایران میں کوٸی نیا انقلاب آرہا ہے تو یہ محض ان کی بھول ہے اور لوگوں کی آنکھوں میں دھول ہے۔ آج ایران کا اسلامی انقلاب ایک تن آور درخت کی طرح اپنے مقام پر کھڑا اپنی استقامت اور بلند قامتی کی گواہی دے رہا ہے۔ یہ اس نظام اسلامی کا فیض ہی ہے کہ کل تک جو اس سے برسرپیکار تھے، آج اس سے آمادہء گفتار ہیں۔ کل تک جو اس شمع کو بجھانے کے درپے تھے، آج اس سے لو لگانے کے لیے بے قرار ہیں۔ کل تک اس کے مقابلے میں جو طاغوت بنے پھرتے تھے، آج تار عنکبوت نظر آتے ہیں۔ کل تک جو اس انقلاب کی فکر کو ایک خاص جغرافیے کے اندر محدود رکھنا چاہتے تھے، آج خود ان کا اپنا جغرافیہ تنگ ہے۔

کل تک جس کی بین الاقوامی تنہاٸی کے چرچے تھے، آج عالمی سطح پر اس کی سفارت کاری کے نغمے ہیں۔ یہی ایران جو کل تک خالی ہاتھ اپنے دشمنوں سے برسر پیکار تھا، آج دنیا اس کے بنائے ہوئے اسلحے کی خریدار ہے۔ یکم اپریل 1979ء کو بانیء انقلاب امام خمینی کے معجزنما ہاتھوں سے ایک ایسے طرز حکومت کی بنیاد رکھی گئی، جس میں بندوں کو گننے کے ساتھ ساتھ ان کو تولنے کا سامان بھی موجود ہے۔ اس روز الہٰی اہداف کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک ایسے راستے کا انتخاب کیا گیا، جس پر گامزن مسافر سرِ راہ رہنماٸی کے لیے کھڑے کیے گئے اشاروں کے پابند ہیں۔ اس نظام کی لغت میں آزاد روی، کجروی کا نام نہیں۔ امام زمانہ کی سرپرستی میں اس حکومت کا دستور صبحِ بےنور کی بجائے صبحِ پرنور کا استعارہ ہے۔

دین سے جڑا ہوا یہ ایک ایسا سیاسی اور جمہوری نظام ہے، جس کے سائے میں رائے دہی کے لیے حالت جنگ میں بھی بیلٹ بکس کا منہ کھلا رکھا جاتا ہے۔ ملت ایران کی لازوال قربانیوں کے نتیجے میں آج سے تقریباً نصف صدی قبل جس آئین کا نفاذ عمل میں لایا گیا، آج ملتِ ایران کے وجود میں وہ نظام، نظام زندگی کی صورت میں رواں دواں ہے، جو دنیا کے سامنے اپنی مثال آپ ہے۔                                      عروقِ مردہء مشرق میں خونِ زندگی دوڑا
سمجھ سکتے نہیں اس راز کو سینا و فارابی
(اقبال)

رہبر معظم سید علی خامنہ ای کے الفاظ میں ”یہ دن ہماری تاریخ کے اہم ترین، بابرکت اور فیصلہ کن دنوں میں سے ایک ہے۔ اس دن ایران کے اسلامی انقلاب نے ایک ایسے مبارک مولود کو جنم دیا، جسے اسلامی جمہوریہ کہا جاتا ہے۔ یہ دن احیائے اسلام کا دن ہے اور اللہ کے وعدے کی تکمیل کی سالگرہ ہے۔“ جب ایران میں نظامِ اسلامی کی بات کی جاتی ہے تو یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہاں کا معاشرہ مکمل طور پر اسلامی نہیں ہے۔ یہاں اس نکتے کو سمجھنا بھی ضروری ہے کہ کسی ریاست میں اسلامی قوانین کے نفاذ کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس کے تمام باشندے مکمل طور پر اسلامی سانچے میں ڈھلے ہوئے ہوں گے۔ آخر ریاست مدینہ میں بھی تو ہر طرح کے جراٸم ہوتے تھے، جن پر سزاٸیں بھی دی جاتی تھیں۔ کسی خطہء زمین پر اسلامی قوانین کے نفاذ کا معنی یہ ہے کہ وہاں کے باشندوں کو اس کا موقع دیا گیا ہے کہ وہ اپنی زندگیوں کو اسلام کے بتائے گئے ضابطے کے تحت گزاریں۔

ایران میں جس نظام حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا ہے، امت مسلمہ کو اس کی جھلک چودہ صدیاں گزرنے کے بعد دیکھنا نصیب ہوٸی ہے۔ ولیِ فقیہ کی رہنماٸی اور امام عصر کی سرپرستی میں قاٸم یہ نظامِ ولایت، رویت ہلال سے لے کر عالمی سیاست کے افق پر جنم لینے والے ہر مسٸلے کا حل اپنے دامن میں رکھتا ہے۔ ایران میں قرآن کی اساس پر آج جو عدالتی نظام استوار ہے، اس سے مراد یہ بھی نہیں ہے کہ اسلامی جمہوری ایران میں صد در صد ایک عادلانہ معاشرے کا قیام عمل میں آگیا ہے۔ اپنے دامن میں عدل الہیٰ کی تمام صفات لیے تو امام زمانہ کے ہاتھوں تشکیل پانے والی الہٰی حکومت ہی ہوگی۔ البتہ ایران کی اسلامی حکومت نے اس حکومت کا راستہ ہموار ضرور کیا ہے۔یکم اپریل کا یہ دن یقیناً  ”یوم اللہ “ ہے۔ اس دن اللہ کے دشمن مایوسی کی اتھاہ گہراٸیوں میں غرق ہو گٸے تھے۔ بقولِ امامِ خمینی :-
جمہوریِ اسلامیِ ما جاوید است
دشمن زحیات خویشتن نومید است
خبر کا کوڈ : 1048661
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

غلام سجاد ایڈووکیٹ
حکومتوں کی تبدیلی، نظام ہائے حکومت میں ردوبدل اور نام نہاد اسلامی حکومتوں کا قیام اور اس طرح کے دیگر انقلابات تو بہت سے وقوع پذیر ہوئے، لیکن انقلاب اسلامی ایران کا تجربہ آئمہ ہدیٰ علیہ السلام کے احکام کی روشنی میں تاریخ میں غالباً پہلی مرتبہ ہوا اور یہ اتنا کامیاب تجربہ رہا کہ مستضعفین جہان کا امام زمانہ علیہ السلام کی عادلانہ حکومت پر ایمان تصورات سے نکل کر عملی حیثیت میں مستحکم ہوگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس انقلاب کو انقلاب مہدی علیہ السلام کا مقدمہ کہا جانے لگا ہے۔
ہماری پیشکش