0
Sunday 26 Mar 2023 17:37

سعودی قیادت نئے امتحان میں

سعودی قیادت نئے امتحان میں
تحریر: سید تنویر حیدر

امریکہ کی دوستی اس کی دشمنی سے زیادہ خطرے کی علامت ہے۔ امریکہ دشتِ سیاست کے کسی مجنوں کو پہلے لیلیٰ اقتدار کی ذلفوں کا اسیر بناتا ہے اور پھر اسے تختہء دار پر چڑھاتا ہے۔ صدام حسین کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ امریکہ کا اپنے دوستوں (؟) سے اس قسم کا رویہ اس کی سرشت میں شامل ہے۔ امریکہ کی یہ روایت رہی ہے کہ وہ جس سے مفادات اٹھاتا ہے، اسی کو نشان عبرت بناتا ہے۔سعودی عرب جو اپنے زعم میں امریکہ سے ابدی دوستانہ رکھتا تھا، امریکہ کے اس تجاہلِ عارفانہ سے کیسے بچ سکتا تھا؟ آل سعود کی امریکہ سے قربت کی داستان طویل ہے۔ اس کہانی کا آغاز خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے دس سال بعد اس زمانے سے شروع ہوتا ہے جب 1933ء میں ایک امریکی کمپنی ”سٹنڈرڈ آٸل“ کو سعودی عرب کے مشرقی صوبے میں تیل کی تلاش کا ٹھیکہ ملا۔

یہ ٹھیکہ آگے چل کر ”آرمکو“ کمپنی کی تشکیل کا باعث بن گیا اور پھر تعلقات کی اس ڈوری نے سعودی عرب اور امریکہ کے مابین اس رومانس کو جنم دیا، جس کے نتیجے میں امریکہ نے سعودی حکومت سے ایسے معاہدے پر دستخط کروا لیے، جس کی رو سے امریکہ نہ صرف سعودی افواج کی تربیت کرے گا بلکہ اس کے دفاع کے لیے ہر وہ قدم اٹھائے گا، جس کی ضرورت ہوگی۔ تیل کی تلاش کے نتیجے میں سعودی عرب ترقی کی منازل طے کرتا رہا اور اس سفر میں امریکہ سعودی عرب کی ہر طرح سے مدد کرتا رہا۔ اس تمام عرصے میں سعودی شاہی حکومت کو کسی بیرونی چیلنج کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ گردش زمانہ یونہی جاری رہی اور پھر 1979ء کا وہ زمانہ آیا، جب عالمی افق پر دو ایسے واقعات رونما ہوئے، جنہوں نے سعودی امریکی تعلقات میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا۔

یہ دو واقعات ایران میں شہنشاہیت کا خاتمہ اور افغانستان پر سوویت یونین کی جارحیت تھے۔ اس کے تھوڑے عرصے بعد ایران عراق جنگ اور صدام حسین کی کویت پر چڑھاٸی نے سعودی عرب کو مکمل طور پر امریکہ کے شکنجے میں جکڑ لیا۔ عراق کے اس اقدام نے سعودی عرب کے دفاع کو خطرے میں ڈال دیا اور پھر امریکہ نے آگے بڑھ کر ”آپریشن ڈیزرٹ اسٹرام“ کے ذریعے اس خطرے کا سد باب کیا۔ حالات کی یہی کروٹ اسامہ بن لادن کو منظر عام پر لاٸی اور پھر ناٸن الیون کا واقعہ رونماء ہوا، جس کے نتیجے میں ”ورلڈ ٹریڈ سنٹر“ کی عمارت زمیں بوس ہوٸی۔ دہشت گردی کی اس کاررواٸی کو انجام دینے والے انیس افراد میں سے پندرہ کا تعلق سعودی عرب سے تھا۔ یہی وہ لمحہ تھا، جب امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات میں پہلی دراڑ پڑی۔

سعودی عرب اس واقعے میں ملوث دہشت گردوں کے حوالے سے معلومات شیئر نہیں کر رہا تھا۔ چنانچہ حقاٸق جاننے کے لیے امریکی سینیٹ کے ارکان پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی گئی، جس کا مقصد ناٸن الیون کے واقعے میں سعودی عہدے داروں کے ملوث ہونے کے ثبوت تلاش کرنا تھا۔ کمیٹی کی تحقیقاتی رپورٹ میں سعودی حکومت کے بعض عہدے داروں کو اس واقعے میں بالواسطہ یا بلاواسطہ ملوث قرار دیا گیا۔ البتہ اس رپورٹ کو بوجوہ داخل دفتر کر دیا گیا۔ اس کا سبب یہ کہ یہ وہ وقت تھا، جب امریکہ سعودی عرب کو مشرق وسطیٰ کے معاملات میں بری طرح اپنے مفادات کے لیے استعمال کر رہا تھا اور اسے ایران کے خلاف فرنٹ لاٸن پر رکھا ہوا تھا۔یمن کے معاملات میں بھی سعودی عرب کو امریکہ کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی۔ لیکن اس ساری سرپرستی کے باوجود سعودی حکومتی حلقوں میں امریکہ کے حوالے سے ایک تشویش پاٸی جاتی تھی۔

اس تشویش کا اظہار 2013ء میں ہی اس وقت ہوگیا تھا، جب سعودی شہزادے عبدالولید بن طلال نے سعودی حکومت کو آگاہ کیا کہ امریکی شیل کمپنی کی پروڈکشن مستقبل میں سعودی حکومت کے لیے مشکلات کھڑی کرسکتی ہے۔ وجہ یہ کہ جوں جوں پروڈکشن بڑھے گی، امریکہ کا عرب دنیا پر انحصار کم ہوتا جائے گا۔ اوباما دور میں ایران امریکہ ایٹمی معاہدے نے بھی سعودی حکمرانوں کے کان کھڑے کر دیئے۔ ان تمام خدشات کے باوجود سعودی حکومت کی جانب سے ایسا کوٸی قدم نہیں اٹھایا گیا، جس سے یہ ظاہر ہو کہ سعودی عرب بطور ریاست امریکہ کے حوالے سے خدشات رکھتا ہے۔ تعلقات میں سرد مہری اس وقت آٸی، جب جوباٸیڈن نے امریکی صدر کا حلف اٹھایا۔ صدر باٸیڈن ماضی میں سعودی پالیسیوں پر کھلی تنقید کرتے آئے تھے۔ حلف اٹھانے کے محض ایک ماہ بعد نئے امریکی صدر کا بیان آیا کہ”یمن جنگ کا خاتمہ ضروری ہے۔“

یمن جنگ سے لاتعلقی کے آٹھ ماہ بعد باٸیڈن نے ”اوپک پلس“ پر زور دیا کہ آٸل پروڈکشن میں اضافہ کیا جائے، کیونکہ کرونا کے بعد مارکیٹ میں تیل کی ڈیمانڈ اور سپلاٸی میں فرق آگیا ہے، جس سے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ امریکہ کے مختلف عہدیدار مختلف اوقات میں سعودی عرب سے یہ مطالبہ کرتے رہے کہ تیل کی سپلاٸی کو بڑھایا جائے، لیکن سعودی حکومت نے امریکہ کے اس مطالبے کو یکسر مسترد کر دیا۔ کچھ عرصے قبل ”وال سٹریٹ جرنل“ میں چھپنے والے ایک کالم میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ سعودی ولی عہد اپنی نجی محفلوں میں اس بات کا اظہار کرچکے ہیں کہ ”امریکی صدر جوباٸیڈن سے مرعوب نہ ہونے کی وجہ ان کی بڑھتی عمر اور ان کی بصیرت ہے، بلکہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کو بہتر صدر سمجھتے ہیں۔“

سعودی عرب کو مسلسل اپنے دباٶ میں رکھنے کی امریکی کوششوں نے ”تنگ آمد بجنگ آمد“ کے مصداق بالآخر سعودی حکومت کو مجبور کر دیا کہ وہ امریکہ سے قاٸم اپنے پرانے رومانس کا خاتمہ کرے، ایسے میں جبکہ اس ہاتھی کے کھانے کے دانتوں میں بھی کیڑا لگ چکا ہے، شام میں وہ روس کے ہاتھوں شکست کے بعد اپنی سپر پاور کی حیثیت کھو چکا ہے اور ایران اور حزب اللہ کے حوالے سے وہ اسراٸیل کو سکیورٹی دینے سے قاصر ہے۔ یمن کی طویل جنگ نے بھی اب سعودی عرب کو یہ باور کرا دیا ہے کہ وہ اب میدان کارزار میں حقیقتاً اکیلا ہے۔ ان تمام حالات و واقعات کا درک کرتے ہوئے سعودی عرب کی حکومت نے عالمی سیاست کی جدید تاریخ کا سب سے بڑا یو ٹرن لے کر ایران سے معاہدہ کر لیا۔

امریکہ اور اسراٸیل جس سعودی عرب سے توقع باندھے ہوۓ تھے کہ وہ ایران پر کسی بھی حملے میں اپنی فضاٸی حدود کو استعمال کرنے کی اجازت دے گا، اس نے ایران کے لیے اپنے تمام دروازے کھول دیئے۔ ایران سعودی عرب معاہدے نے غیر متوقع طور پر جس طرح سے امریکہ اور اسراٸیل کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے، وہ امریکہ و اسراٸیل کی برداشت سے باہر ہے۔ خدشہ ہے کہ وہ امریکہ جس کے سابق صدر ٹرمپ نے ایک بار کہا تھا کہ ہم اگر چاہیں تو ایک ہفتے میں سعودی حکومت کا دھڑن تختہ کرسکتے ہیں، وہ سعودی عرب کی ابھرتی ہوٸی نوجوان قیادت کو شاہ فیصل نہ بنا دے۔
خبر کا کوڈ : 1048849
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش