1
Sunday 26 Mar 2023 21:38

شام میں امریکی ٹھکانوں پر راکٹ حملے، امریکہ اور اسرائیل کیلئے دو اہم پیغام

شام میں امریکی ٹھکانوں پر راکٹ حملے، امریکہ اور اسرائیل کیلئے دو اہم پیغام
تحریر: عبدالباری عطوان (چیف ایڈیٹر اخبار رای الیوم)
 
حال ہی میں شام میں امریکہ کے مختلف فوجی ٹھکانوں پر راکٹ حملوں کی خبریں سامنے آئی ہیں۔ رپورٹس کے مطابق العمر آئل فیلڈز میں واقع امریکی فوجی اڈہ راکٹ حملوں کا نشانہ بنا ہے جس کے بعد زوردار دھماکوں کی کئی آوازیں سنی گئی ہیں۔ العمر فوجی اڈے کے علاوہ "کونیکو" میں واقع امریکی فوجی اڈہ بھی راکٹ حملوں کی زد میں آیا ہے۔ مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ ان حملوں میں 20 راکٹ فائر کئے گئے تھے جو کونیکو امریکی فوجی اڈے پر جا لگے۔ راکٹ حملوں کے نتیجے میں کونیکو فوجی اڈے پر آگ لگ گئی اور چند افراد زخمی بھی ہو گئے۔ مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق گذشتہ چند راتوں کے دوران شام کے مشرقی علاقوں میں امریکی فوجیوں اور اسلامی مزاحمتی فورسز کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا ہے۔ یہ جھڑپیں دیرالزور میں امریکی ٹھکانوں پر راکٹ حملوں کے بعد انجام پائی ہیں۔
 
یاد رہے شام کے شمال مشرق میں واقع علاقے گیس اور تیل کی دولت سے مالامال ہونے کے علاوہ انتہائی زرخیز ہیں اور وہاں وسیع پیمانے پر گندم اور دیگر غلات کاشت کئے جاتے ہیں۔ گذشتہ کئی برس سے امریکہ نے ان علاقوں میں شام حکومت کی اجازت کے بغیر غیر قانونی فوجی اڈے تعمیر کر رکھے ہیں۔ گذشتہ چند دنوں کے دوران ان فوجی اڈوں کو راکٹ حملوں سے نشانہ بنایا گیا ہے جن میں پانچ امریکی فوجیوں کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔ اگرچہ امریکہ کے ایف 15 جنگی طیاروں نے دیرالزور میں اسلامی مزاحمتی بلاک کے کئی ٹھکانوں پر بمباری کی ہے جس کے نتیجے میں چند مجاہد بھی شہید ہوئے ہیں لیکن اس کے جواب میں امریکی ٹھکانوں پر 10 راکٹ داغے گئے ہیں۔
 
شام کے مشرقی علاقوں میں پہلی بار امریکی ٹھکانوں پر راکٹ برسائے گئے ہیں۔ راکٹ اور ڈرون طیاروں سے حملے امریکہ کیلئے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت شام میں امریکہ کے 900 فوجی موجود ہیں۔ حالیہ حملوں سے متعلق ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ گذشتہ دس برس میں پہلی بار شام میں امریکہ کا جانی نقصان ہوا ہے اور یہ فوجی لحاظ سے بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اس اہمیت کی وجہ یہ ہے کہ ان اڈوں پر انتہائی جدید فضائی دفاعی سسٹم نصب ہے لیکن وہ راکٹ اور ڈرون حملوں کو روکنے میں ناکام رہا ہے۔ اس حقیقت نے شام میں موجود قابض امریکی فوجیوں اور وائٹ ہاوس میں امریکی حکمرانوں میں خوف و ہراس کی لہر دوڑا دی ہے۔ حالیہ جھڑپوں میں اسلامی مزاحمتی فورسز کی جانب سے امریکہ کے مقابلے میں نئی حکمت عملی سامنے آئی ہے۔
 
اس سے پہلے شام میں اسلامی مزاحمتی فورسز امریکی فوجیوں سے ٹکر نہ لینے کو ترجیح دیتی آئی ہیں اور ایک طرح سے اس کے وجود کو برداشت کیا ہے۔ لیکن حالیہ جھڑپوں کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے کہ اسلامی مزاحمتی فورسز نے اپنی حکمت عملی میں تبدیلی لاتے ہوئے امریکی فوجیوں سے ٹکر لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کا ایک مقصد امریکہ کو شام سے فوری طور پر فوجی انخلاء پر مجبور کرنا ہو سکتا ہے۔ شام میں اسلامی مزاحمتی بلاک امریکہ کے زیر قبضہ علاقوں کو آزاد کروانے کے درپے ہے کیونکہ وہاں تیل اور گیس کے وسیع ذخائر پائے جاتے ہیں جو شام کے عوام کی ملکیت ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے جمعہ 24 مارچ کے دن ایک پریس کانفرنس کے دوران یہ کہا کہ امریکہ ایران سے جنگ نہیں چاہتا لیکن اپنے شہریوں کی حمایت کیلئے فیصلہ کن اقدام انجام دینے کیلئے تیار ہے۔
 
نہیں معلوم جو بائیڈن نے جن امریکی شہریوں کی حفاظت کا دعوی کیا ہے وہ کون ہیں اور شام کے کن علاقوں میں مقیم ہیں۔ ہماری معلومات کے مطابق شام میں جو امریکی شہری موجود ہیں وہ قابض امریکی فوجی ہیں جو کھلم کھلا شام کا تیل اور گیس لوٹ کر بلیک مارکیٹ میں بیچنے میں مصروف ہیں۔ امریکی قوم شام سے پانچ ہزار میل دور ہے اور اسے شام اور عراق سے کوئی خطرہ درپیش نہیں ہے۔ بلکہ حقیقت برعکس ہے۔ شاید یہ پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ امریکی صدر نے دھمکی آمیز لہجہ نہیں اپنایا اور اس بات پر زور دیا ہے کہ وہ ایران سے جنگ نہیں چاہتا۔ شام میں امریکی فوجی ٹھکانوں پر راکٹ حملے دو اہم پیغام لئے ہوئے ہیں۔ ایک پیغام خود امریکی حکمرانوں کیلئے ہے جو اس حقیقت پر مشتمل ہے کہ نہ صرف شام بلکہ پورے خطے میں موجود امریکی اڈے اسلامی مزاحمت کے راکٹس اور ڈرونز کی زد میں ہیں۔
 
دوسرا پیغام غاصب صیہونی رژیم کیلئے ہے۔ وہ پیغام یہ ہے کہ شام پر آئے دن صہیونی رژیم کے جارحانہ اقدامات کا عنقریب منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ جب اسلامی مزاحمتی فورسز شام میں دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت امریکہ کے فوجی ادوں کو نشانہ بنا سکتی ہیں تو غاصب صہیونی رژیم کو نشانہ بنانے میں بھی کوئی مضایقہ نہیں کریں گی۔ جو بائیڈن اور امریکی جرنیلوں نے یہ پیغام دریافت کر لیا ہے اور وہ اس حقیقت کو بھانپ چکے ہیں کہ ان کے مدمقابل ایک طاقتور محاذ موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی صدر اور جرنیلوں نے فوراً اعلان کیا ہے کہ وہ ایران سے جنگ نہیں چاہتے۔ اس بات کا زیادہ امکان پایا جاتا ہے کہ آئندہ چند ہفتوں میں شام میں امریکی لوٹ مار ختم ہونے والی ہے۔ یوں افغانستان میں امریکہ کی ذلت آمیز شکست کا منظر ایک بار پھر شام میں دہرایا جانے والا ہے۔
خبر کا کوڈ : 1048865
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش