0
Monday 27 Mar 2023 07:17

طالبان اور لڑکیوں کی تعلیم

طالبان اور لڑکیوں کی تعلیم
ترتیب و تنظیم: علی واحدی

افغانستان میں نئے تعلیمی سال کے آغاز پر، خوست اور کابل کے رہائشیوں کی ایک بڑی تعداد نے طالبان حکام سے کہا کہ وہ اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لیے لڑکیوں کے اسکول دوبارہ کھول دیں۔ خوست قبیلے کے بزرگ "آدم خان" نے اعلان کیا کہ "افغانستان کے تمام لوگوں کی خواہش ہے کہ لڑکیوں کے اسکول دوبارہ کھولے جائیں، اور ان درخواستوں پر سنجیدگی سے توجہ دی جانی چاہیئے۔ نئے تعلیمی سال کے پہلے دن کابل میں متعدد طالبات نے ایک بار پھر افسوس اور مایوسی کے ساتھ اس دن کا آغاز کیا ہے۔ صدف ان افغان طالبات میں سے ایک ہیں، جو کہتی ہیں، "آج ہماری مایوسی کا دن ہے۔ ہم اس دن اسکول جانے کا انتظار کر رہی تھیں۔ لیکن ہمیں جانے نہیں دیا گیا۔"

علاقائی اور بین الاقوامی دباؤ کے تحت اگرچہ طالبان یہ اعلان ضرور کرتے ہیں کہ وہ لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف نہیں ہیں، لیکن عملی طور پر اس حوالے سے کوئی قدم نہیں اٹھا رہے ہیں۔ اس سے قبل طالبان نے اعلان کیا تھا کہ مناسب حالات پیدا کرکے لڑکیوں کی تعلیم کا امکان فراہم کیا جائے گا، تاہم اس حوالے سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ طالبان کا یہ مؤقف افغان معاشرے کے ساتھ ساتھ اس ملک کی آنے والی نسلوں کے لیے بھی بدقسمتی کا باعث ہے اور یہ عملاً آدھے افغان معاشرے کو تعلیم کی نعمت سے محروم کرنا ہے، یہ بچے افغانستان کے مستقبل کے معمار ہیں۔افغان مغاشرے کو مستقبل میں خواتین سے متعلق کچھ امور کے لئے تعلیم یافتہ خواتین کی ضرورت ہوگی۔ اس کے ساتھ ہی یہ ان خاندانوں کی جبری نقل مکانی کا سبب بنے گا، جو اپنی بیٹیوں کو تعلیم دلانے کے لئے افغانستان سے باہر جانے پر مجبور ہونگے۔

افغانستان میں سماجی مسائل کی ماہر اسداللہ زایری اس بارے میں کہتی ہیں: ’’افغان معاشرے کا تقریباً نصف حصہ خواتین اور لڑکیوں پر مشتمل ہے اور انہیں تعلیم سے محروم رکھنا دراصل افغان معاشرے کی ایک نسل کو جاہل رکھنا ہے، جس کے اس ملک کے معاشرے پر تباہ کن اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ میڈیکل اور طب جیسے شعبوں کا براہ راست تعلق خواتین سے ہے اور اس شعبے میں خلا پیدا ہونا افغانستان کے روایتی معاشرے کے لیے نقصان دہ ہوگا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ افغانستان کا آج کا معاشرہ دو دہائیوں پہلے کے اس معاشرے سے بالکل مختلف ہے، جب طالبان نے اپنی حکومت کا پہلا دور گزارا تھا۔ اس وقت افغانستان کے اصلاح پسند اور علم کے متلاشی لوگوں کی نئی نسل طالبان کے نافذ کردہ بعض فیصلوں جیسے لڑکیوں کو تعلیم سے محروم کرنا کے خلاف مزاحمت کرے گی۔

دریں اثناء افغان خواتین کی تنظیم انصاف تحریک کی متعدد ارکان نے کابل میں لڑکیوں کے سکولوں کی بندش کے خلاف مظاہرہ کرنے کی کوشش کی۔ اس تحریک کے ارکان کے مظاہرے کو روکنے کے لیے طالبان نے فوری ایکشن لیا۔ اس تحریک نے اتوار کی صبح کابل میں مظاہرے کی کوشش کی تو خواتین مظاہرین کے مطابق، مظاہرے شروع ہونے کے فوراً بعد طالبان فورسز نے انہیں روک دیا۔ عینی شاہدین کے مطابق طالبان فورسز نے مظاہرین کو گھیرے میں لے لیا، خواتین کو دھمکیاں دیں اور ان کی توہین کی۔ کچھ عینی شاہدین کے مطابق طالبان فورسز نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے فائرنگ تک کی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغانستان کی نئی نسل، مرد اور عورت دونوں، ایک خوشحال اور آزاد افغانستان کی تعمیر اور طالبان کی سختیوں کے خلاف مزاحمت کرنے کے لیے تیار ہیں۔

یوں بھی یہ ایک ایسا مسئلہ ہے، جسے بین الاقوامی اور افغان معاشرہ کی حمایت حاصل ہے۔ عالمی برادری کا طالبان سے مطالبہ ہے کہ وہ افغانستان کی آئندہ نسل کو اپنی مخصوص سوچ کی نذر نہ ہونے دیں۔ افغانستان کے سیاسی امور کے ماہر اکرم عارفی اس بارے میں کہتے ہیں: ’’عالمی برادری نے بارہا طالبان سے کہا ہے کہ وہ لڑکیوں کی تعلیم جاری رکھنے کے لیے شرائط فراہم کریں، تاکہ افغانستان میں لڑکیاں اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں۔" یہ بات قابل ذکر ہے کہ طالبان کو افغانستان کے حکمران کی حیثیت سے اس نتیجے پر پہنچنا چاہیئے کہ اس ملک کو تعلیم یافتہ خواتین کی ضرورت ہے اور معاشرے کے کچھ کام ایسے ہیں، جو خواتین ہی انجام دے سکتی ہیں۔ بہرحال جب تک طالبان اس نتیجے پر نہیں پہنچتے، تب تک ان کو قائل کرنا مشکل ہوگا۔ وہ اس طرح کے پروگراموں کو تسلیم نہیں کریں گے۔
 
قابل غور نکتہ یہ ہے کہ طالبان مختلف سطحوں پر لڑکیوں کو تعلیم جاری رکھنے سے روکتے ہیں، جبکہ اخباری اطلاعات کے مطابق طالبان کے اعلیٰ عہدیداروں کی بیٹیاں پاکستان یا قطر میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ اس عمل سے لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے طالبان کا متضاد اور دوہرا رویہ ظاہر ہوتا ہے۔ طالبان جو اپنے آپ کو ایک مذہبی گروہ سمجھتے ہیں اور ہر سطح پر انصاف پر زور دیتے ہیں، انہیں اپنی بچیوں اور افغانستان کی بچیوں کے درمیان تعلیمی سطح پر کوئی فرق نہیں کرنا چاہیئے اور سب کے ساتھ یکساں سلوک کرنا چاہیئے۔ سب کو یکساں تعلیمی مواقع حاصل ہونے چاہیں۔
خبر کا کوڈ : 1048961
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش