QR CodeQR Code

اپنے خاتمے کی جانب بڑھتا ہوا اسرائیل

28 Mar 2023 04:57

اسلام ٹائمز: اسوقت مقبوضہ فلسطین کا کوئی کونہ ایسا نہیں، جہاں صیہونیوں کو مزاحمت کا سامنا نہ ہو۔ مزاحمت کی شرح میں زمان اور مکان میں تبدیلیوں کیوجہ سے اضافہ یا کمی ہوتی رہتی ہے۔ اضافے کیصورت میں اسرائیلی رژیم بعض عرب ممالک کیجانب لپکتی ہے اور عالمی اداروں کی سرپرستی میں کبھی العقبہ اور کبھی شرم الشیخ میں امن اجلاس منعقد کرتی رہتی ہے۔ بہرحال زمینی مینڈیٹ نہ ہونے اور صیہونی وعدہ خلافیوں کیوجہ سے یہ اجلاس کچھ عرصے بعد اپنی موت آپ مر جاتے ہیں۔


تحریر: ڈی اے نقوی

یہ انبیاء کی سرزمین فلسطین کا قصہ ہے۔ 1948ء میں اس پر قبضہ کر لیا گیا تھا۔ یہ قبضہ ظاہراََ ہولوکاسٹ کے ردعمل کے طور پر ہوا، لیکن اس کے پس پردہ کچھ دیگر عوامل تھے۔ اس قبضے نے صیہونی رژیم یا اسرائیل کو جنم دیا۔ اپنے جنم کے بعد اب تک اسرائیل کے چودہ وزیراعظم گزرے ہیں۔ پندرہواں اور حالیہ وزیراعظم بنیامین نتین یاہو ہے۔ ان وزرائے اعظم میں سے ہر ایک کی اپنی ایک سفاکانہ تاریخ ہے۔ بعض افراد دو دو مرتبہ بھی اس رژیم کے وزیراعظم رہ چکے ہیں۔ جن میں ڈیوڈ بن گوریان، اسحاق رابن، اسحاق شامیر، شمعون پرز اور نتین یاہو شامل ہے۔ تاہم نتین یاہو کو تیسری بار اسرائیل کا وزیراعظم بننے کا امتیاز حاصل ہے۔ نتین یاہو 1949ء میں تل ابیب میں پیدا ہوا اور پہلی بار 1996ء میں تین سال کے لئے اسرائیل کا وزیراعظم بنا۔ اس کا تعلق اسرائیل کی لیکوڈ پارٹی سے ہے۔ لیکوڈ پارٹی اسرائیل میں سیکولر+دائیں بازو کی جماعت ہے۔ جو 1973ء میں Menachem Begin "مناخم بگن" کے ہاتھوں وجود میں آئی۔ دوسری مرتبہ نیتن یاہو 2013ء میں وزارت عظمیٰ کے عہدے تک پہنچا اور 2021ء تک بارہ سال کے لئے اسرائیل کا حکمران رہا۔

گذشتہ سال انتخابات کے بعد یہ 29 دسمبر 2022ء کو  ایک مرتبہ پھر اسرائیل کا وزیراعظم بن کر سامنے آیا۔ وزارت عظمیٰ کا یہ تیسرا دور اس کے لئے شدید چیلنج بنا ہوا ہے۔ ان دنوں نیتن یاہو کو داخلی طور پر دو قسم کی مشکلات کا سامنا ہے۔ اسے ایک تو قبضہ گروپ، یعنی صیہونی آباد کاروں اور دوسرے فلسطین کے اصلی وارث یعنی مقاومتی فورسز کی طرف سے دباؤ کا سامنا ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ 3 جنوری 2023ء کو نتین یاہو کی کابینہ نے پارلیمنٹ میں عدالتی اصلاحات کے نام سے ایک بل پیش کیا۔ اس بل کا مقصد اسرائیل کے عدالتی سسٹم کو پارلیمنٹ کے تابع کرنا تھا۔ اسرائیل میں عام تاثر یہ ہے کہ چونکہ کرپشن اور دیگر بے ضابطگیوں پر نتین یاہو کو عدالتی ٹرائل کا سامنا ہے۔ ان تحقیقات سے بچنے کے لئے نتین یاہو نے یہ سیاسی چال چلی، جو کامیاب ہوتی نظر نہیں آرہی۔ ابتدائی طور پر اسے عوامی احتجاج کا سامنا رہا۔ تل ابیب، یروشلم اور دیگر مقبوضہ علاقوں میں ہنگامے پھوٹ پڑے اور آج کی تاریخ تک 11 ہفتوں سے صیہونی آبادکار اس بل کے خلاف سڑکوں پر ہیں۔ پہلے پہل تو یہ ہنگامے صرف عام لوگوں تک محدود رہے، لیکن آہستہ آہستہ یہ مظاہرے سول نافرمانی کی تحریک میں تبدیل ہوگئے۔

 
اسرائیلی حساس اداروں شاباک، موساد، فضائیہ، ایمرجنسی رسپانس فورس حتیٰ پولیس کے بعض اہلکاروں نے ڈیوٹی کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد حکومتی عہدیداروں نے بھی استعفے کی دھمکیاں دینا شروع کر دیں۔ جن میں رواں ہفتے صیہونی وزیر جنگ "یوآف گالانٹ" کی دھمکی اور گذشتہ روز اس کی برطرفی عالمی میڈیا کی زینت بنی رہی۔ اس صورتحال میں اپوزیشن پارٹیوں کی جانب سے نتین یاہو کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔ اس سلسلے میں Israel My Home کے سربراہ "اویگدور لیبرمین" نے گذشتہ ہفتے کہا کہ نتین یاہو اسرائیل کے لئے حزب اللہ اور ایران سے زیادہ خطرناک ہے۔ رواں ہفتے اس صیہونی سیاستدان نے حد ہی کر دی، جب اس نے کہا کہ نتین یاہو حزب اللہ کے سامنے چوہا اور اپنے عوام کے سامنے شیر ہے۔ قارئین مذکورہ بالا باتوں کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسرائیلی حکومت بُری ہے اور صیہونی آبادکار اچھے۔ یہ آبادکار ویسے ہی غاصب ہیں، جیسے یہ رژیم قابض۔ لیکن حالیہ صورتحال میں دونوں آپس میں متصادم ہیں۔ یہ تو تھے صیہونی بمقابلہ صیہونی۔ اب ذرا مظلوم فلسطینیوں کی جانب بھی دیکھیں۔ جنہوں نے شروع دن سے ہی اسرائیل اور اس کے غاصب عوام کے ہر طرح کے جرائم کو سہا ہے۔ 

شاید فلسطینیوں کو یہ بات بہت پہلے ہی سمجھ آچکی تھی کہ مقاومت (مزاحمت) میں ہی ان کی نجات ہے۔ اس وقت مقبوضہ فلسطین کا کوئی کونہ ایسا نہیں، جہاں صیہونیوں کو مزاحمت کا سامنا نہ ہو۔ مزاحمت کی شرح میں زمان اور مکان میں تبدیلیوں کی وجہ سے اضافہ یا کمی ہوتی رہتی ہے۔ اضافے کی صورت میں اسرائیلی رژیم بعض عرب ممالک کی جانب لپکتی ہے اور عالمی اداروں کی سرپرستی میں کبھی العقبہ اور کبھی شرم الشیخ میں امن اجلاس منعقد کرتی رہتی ہے۔ بہرحال زمینی مینڈیٹ نہ ہونے اور صیہونی وعدہ خلافیوں کی وجہ سے یہ اجلاس کچھ عرصے بعد اپنی موت آپ مر جاتے ہیں۔ فلسطین پر قبضے کے اولین سالوں میں مقابلہ یکطرفہ ہی لگتا تھا، لیکن فلسطینی اب اسرائیل کو اس کے ہر جرم کا ہر ممکنہ وسیلے سے جواب دیتے ہیں۔ حالیہ مہینوں میں ہونے والے کامیاب فدائی حملوں نے اسرائیلی سکیورٹی اداروں کی قلعی کھول دی ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ حال ہی میں اسرائیلی میڈیا میں حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصر اللہ کے بیانات اور اصطلاحات مورد بحث  ہیں۔ سید حسن نصر اللہ اپنے بیانات میں بار ہا کہہ چکے ہیں کہ اسرائیل اپنے خاتمے کے بالکل نزدیک ہے۔

اس کے علاوہ 2000ء میں لبنان سے اسرائیلیوں کے فرار کے موقع پر سید حسن نصر اللہ نے ایک تقریر کی تھی اور اسرائیل کو مکڑی کے جالے سے بھی کمزور قرار دیا تھا۔ حزب اللہ کے سربراہ نے اسی اصطلاح کو ایک بار پھر دہرایا ہے۔ جس پر اسرائیلی ماہرین اور تجزیہ کار خاصے متحیر دکھائی دیتے ہیں۔ دوسری جانب نتین یاہو مقاومتی کمانڈروں کو قتل کروا کر صیہونی عوام میں اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنا چاہتا ہے۔ فلسطینیوں پر جارحیت انجام دے کر صیہونی آبادکاروں کی توجہ اپنے حکومتی مسائل سے ہٹانا چاہتا ہے۔ فلسطین یا مقبوضہ فلسطین میں قائم اس غاصب ریاست کے داخلی منظرنامے پر نگاہ ڈالنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ یہ رژیم اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہی ہے۔ مانا کہ ایسا ہونا اتنا آسان نہیں ہے، لیکن جو کچھ ہو رہا ہے، اس کا حتمی نتیجہ کچھ ایسا ہی لگ رہا ہے۔
 
   


خبر کا کوڈ: 1049100

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/1049100/اپنے-خاتمے-کی-جانب-بڑھتا-ہوا-اسرائیل

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org