0
Thursday 30 Mar 2023 13:59

بائیڈن کی جمہوریت کانفرنس اور پاکستان کا شرکت سے انکار

بائیڈن کی جمہوریت کانفرنس اور پاکستان کا شرکت سے انکار
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

امریکہ جمہوریت کے فروغ کے نظریہ کے ساتھ دوسری بین الاقوامی کانفرنس منعقد کر رہا ہے۔ اس کانفرنس کا عنوان ورچوئل کانفرنس گلوبل ڈیکلریشین آف میئرز فار ڈیموکریسی رکھا گیا ہے۔ اس کانفرنس کو امریکہ اکیلے منعقد نہیں کروا رہا، بلکہ امریکہ کے ساتھ ساتھ اس سمٹ کی میزبانی میں کوسٹاریکا، نیدر لینڈز، جمہوریہ کوریا اور جمہوریہ زیمبیا بھی شامل ہیں۔ یوں یہ کانفرنس امریکہ اور اس کے ساتھ ساتھ ان ممالک کے باہمی اشتراک سے منعقد کی جا رہی ہے۔ یہ کانفرنس 29 اور 30 مارچ کو ہو رہی ہے، بین الاقوامی میڈیا اس کی بھرپور کوریج کر رہا ہے۔ اس کانفرنس میں 120 سے زائد ممالک کو مدعو کیا گیا ہے، یوں یہ دنیا کا ایک بڑا شو بننے جا رہا ہے۔ اس کانفرنس میں چین، سعودی عرب اور ترکی کو دعوت نہیں دی گئی۔ سعودی عرب میں تو چونکہ جمہوریت ہی نہیں ہے تو اس میں شرکت کا اہل ہی نہیں ہے، اس لیے اسے اس کانفرنس میں مدعود نہیں کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے دو دوست ممالک چین اور ترکی کو بھی مدعو نہیں کیا گیا۔ ترکی میں تو ایک منتخب حکومت ہے، مقررہ وقت پر الیکشن ہو رہے ہیں اور آزادی اظہار سمیت تمام مغربی جمہوریت کے بنیادی ضابطے بھی فالو ہو رہے ہیں، اس کے باوجود اسے نہیں بلایا گیا۔

اب صورتحال یہ ہے کہ سعودی عرب اور ترکی مسلم امہ کے دو اہم ممالک ہیں، ان کو نہ بلایا جانا، وجہ کچھ بھی ہو، پاکستان سے بھی ردعمل کا متقاضی ہے۔ ویسے کرنا ہم نے وہی ہے، جو ہمارے لیے اہم ہو، مگر سوچتے ضرور ہیں۔ اس کانفرنس میں چین کو نہیں بلایا گیا اور اس کے ساتھ بڑا فیصلہ یہ کیا گیا کہ تائیوان کو اس کانفرنس میں باقاعدہ دعوت دی گئی ہے اور وہ یقیناً شریک ہوگا۔ تائیوان چائینہ کے لیے سرخ لکیر کا درجہ رکھتا ہے، چائینہ دنیا کے ساتھ اپنے تعلقات کو تائیوان کے پیمانے پر دیکھتا ہے۔ پاکستان کی اس حوالے سے بڑی واضح پالیسی ہے کہ ہم ون چائینہ کے حامی ہیں اور اس کے خلاف کسی بھی سرگرمی میں شریک نہیں ہوسکتے۔ اب اگر پاکستان ایسے فورم پر تائیوان کے ساتھ شریک ہوتا ہے تو پاکستان اور چائینہ کے تعلقات میں خرابی کا اندیشہ ہے۔ پاکستان یہ افورڈ نہیں کرسکتا، آئی ایم ایف سے معاملات ٹھیک نہیں چل رہے، ابھی تک معاملات چائینہ کے بنکوں سے ڈالر لے کر چلائے جا رہے ہیں۔

مغرب اور مغربی کمپنیوں نے پاکستان کو شجرہ ممنوعہ سمجھ رکھا ہے، اس لیے یہاں کوئی سرمایہ کاری نہیں کر رہیں، مگر چائینہ کی کمپنیاں بڑے بڑے پروجیکٹس میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔ پاکستان کی تعمیر بھی ہو رہی ہے، ساتھ گرتی معیشت کو سہارا بھی مل رہا ہے۔ اس ساری صورتحال میں جب پاکستان کو اس جمہوری سمٹ میں شرکت کی دعوت دی گئی تو پاکستان نے بڑی دیکھ بھال کے بعد بہت اچھا سفارتی جواب دیا، جس میں امریکہ کی طرف سے دعوت پر اس کا شکریہ ہے اور پہلے اجلاس میں شرکت نہیں کی، جس کی وجہ سے اس کے کچھ بنیادی فیصلوں میں بھی شریک نہیں رہا، ہم امریکہ سے اچھے تعلقات تو رکھنا چاہیں گے، مگر ہم اس سمٹ میں شرکت نہیں کر رہے۔ ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا کہ پاکستان کا موجودہ جمہوری ڈھانچہ پاکستانی آئین پر کھڑا ہے، جس کو منظور ہوئے پچاس سال گزر چکے ہیں اور ہم اس کی سلور جوبلی منا رہے ہیں۔

پاکستان کی طرف سے امریکی سمٹ میں شامل نہ ہونے کے فیصلے کے پیچھے ریجن میں آنے والی تیز رفتار تبدیلیاں بھی ہیں۔ جس طرح چائینہ نے ایران اور سعودیہ کے درمیان موجود اختلاف کو اتفاق رائے میں تبدیل کیا ہے، یہ کامیاب سفارتکاری کی اعلیٰ مثال ہے۔ پورا مغرب اور امریکہ ملکر ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ بحال نہیں کرسکے، جو فقط جو بائیڈن کے ایک فیصلہ سے ہوسکتا تھا، یہ یقیناً سفارتکاری کی بڑی ناکامی ہے۔ ایسے میں چین سامنے آتا ہے اور وہ امریکہ کے پرانے اتحادیوں میں اتنا نفوذ پیدا کر لیتا ہے کہ وہ امریکہ کی سنے بغیر ایران سے معاہدے کر لیتے ہیں۔ اب عرب امارات، بحرین اور مصر بھی ایران کے ساتھ تعلقات کو مکمل بحال کر رہے ہیں اور خطہ باہمی طور پر اپنی فطری شکل اختیار کر رہا ہے۔ سعودی عرب کے وزیر خزانہ سے کسی مغربی صحافی نے پوچھا کیا اب آپ ایران کے ساتھ تجارت بھی کریں گے۔؟ انہوں نے بڑا اچھا جواب دیا کہ ہم ہزاروں سالوں سے ایران کے پڑوسی ہیں اور مجھے ایران کے ساتھ تجارت کرنے میں کوئی رکاوٹ نظر نہیں آتی۔

آئی ایم ایف نے یوکرین کو انتہائی آسان شرائط پر جنگ کے باوجود پندرہ ارب ڈالر کا قرض دے دیا ہے۔ یہ کسی بھی جنگ زدہ ملک کو دیا جانے والا سب سے بڑا قرض ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ آئی ایم ایف فقط ٹیکنکل بنیادوں پر قرضے دینے یا نہ دینے کا فیصلہ نہیں کرتا بلکہ اس کے پیچھے سیاسی محرکات بھی ہوتے ہیں۔ پاکستان کو چھوٹی چھوٹی ٹیکنکل چیزوں پر خوار کیا جا رہا ہے۔ اب پاکستان کو بھی آئی ایم ایف کی بجائے بڑی سنجیدگی سے مکمل بیل آوٹ پیکج کے لیے چائینہ  اور دیگر طاقتوں کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔ کوشش کرنا ہوگی کہ یہ پیکج انہی یا اس سے بھی کم شرائط پر ملے، جن پر یوکرین کو دیا گیا ہے۔ پاکستان کا یہ انکار اس بات کا بھی غماز ہے کہ پاکستان مستقبل میں کس گروپ میں ہونا چاہتا ہے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ پاکستان امریکہ سے دشمنی نہیں کرے گا، اس کے ساتھ گرم سرد تعلقات چلتے رہیں گے، کیونکہ ہماری برآمدات یورپ اور امریکہ ہی جاتی ہیں۔
خبر کا کوڈ : 1049574
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش