QR CodeQR Code

نوجوان شہید کے بوڑھے والدین سے ملاقات!

31 Mar 2023 22:33

اسلام ٹائمز: شہید کے والد نے جیسے ہی یہ الفاظ ادا کئے، ان کا صبر ٹوٹ گیا، ضبط کئے آنسو بہہ گئے، بتایا کہ آصف انتہائی شریف، ملنسار، نماز روزے کا پابند اور محب وطن تھا، جب آخری بار گھر سے پشاور کیلئے روانہ ہوا تو اپنی ماں کو کہا ’’اماں! جی بھر کر مل لیں، معلوم نہیں پھر ملوں نہ ملوں۔‘‘ْ شائد اسے پہلے ہی معلوم ہوگیا تھا کہ وہ شہادت کے اس عظیم منصب پر فائز ہونیوالا ہے۔؟


رپورٹ: سید عدیل زیدی

سانحہ جامع مسجد کوچہ رسالدار پشاور کو ایک سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے، اس اندوہناک واقعہ میں خودکش حملہ آور نے 72 بے گناہ نمازیوں کی جان لے لی تھی، جبکہ سو سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔ 4 مارچ 2022ء کو ہونے والے دھماکہ میں شہید ہونے والوں کی ایک بڑی تعداد مقامی لوگوں کی ہی تھی، تاہم چند پردیسیوں کو بھی شہادت کھینچ کر اس مسجد تک لے آئی تھی، ان میں ایک نوجوان شہید محمد آصف بھی تھا، جو پاک فضائیہ میں ملازم تھا، آصف کا تعلق پنجاب کے علاقہ شورکوٹ ضلع جھنگ کے ایک غریب گھرانے سے تھا۔ پاک فضائیہ میں ملازمت کے بعد اس کی پوسٹنگ پشاور میں ہوئی، دوران ملازمت نماز جمعہ کی ادائیگی کیلئے شیعہ جامع مسجد کوچہ رسالدار آتا تھا، 4 مارچ 2022ء کو ہونے والے دھماکہ میں دیگر نمازیوں کے ساتھ اپنے بوڑھے ماں باپ کا سہارا محمد آصف بھی جام شہادت نوش کرگیا۔ اس سانحہ کے چند دنوں بعد پشاور جانا ہوا، سانحہ کے چند زخمیوں اور شہداء کے لواحقین سے ملاقات ہوئی۔

پشاور سے گھر (پنجاب) واپسی ہوئی تو شہید محمد آصف کے حوالے سے معلومات ملیں، دل میں بے چینی ہوئی اور ضلع جھنگ کے ایک دوست سے رابطہ کیا اور شہید آصف کے لواحقین سے تعزیت کی خواہش کا اظہار کیا۔ انہوں نے ایک دن کا وقت مانگا، طے شدہ پروگرام کے مطابق ایک روز بعد شورکوٹ پہنچا، (شورکوٹ میرے شہر سے لگ بھگ 90 کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے)۔ مذکورہ دوست شہید آصف کے گھر لے گئے، گھر پہنچے تو معلوم ہوا کہ ان کے والد کسی نماز جنازہ میں شرکت کیلئے گئے ہوئے ہیں، انہوں نے چند منٹ گھر پر ہی انتظار کرنے کا کہا، شہید کے گھر پہنچنے تو شہید کی بوڑھی والدہ سے ملاقات ہوئی، ماں جی کو تعزیت پیش کی تو محسوس ایسا ہوا کہ جیسے ان کے آنسو پلکوں پر ہی موجود تھے، کوشش کی کہ بوڑھی ماں کا حوصلہ نہ ٹوٹے، دس منٹ بعد شہید کے والد محمد حسین بھی تشریف لے آئے، بوڑھے والد کو تعزیت پیش کی اور فاتحہ خوانی کی۔ گھر کے جس کمرے میں بیٹھے تھے، ایسا محسوس ہوتا تھا کہ کمرہ نیا تعمیر ہوا ہے۔

شہید کے والد نے پوچھنے پر بتایا کہ یہ کمرہ آصف اپنے لئے تعمیر کروا رہا تھا، کیونکہ ہم اس کی جلد شادی کرنا چاہتے تھے، شہید کے والد نے جیسے ہی یہ الفاظ ادا کئے، ان کا صبر ٹوٹ گیا، ضبط کئے آنسو بہہ گئے، بتایا کہ آصف انتہائی شریف، ملنسار، نماز روزے کا پابند اور محب وطن تھا، جب آخری بار گھر سے پشاور کیلئے روانہ ہوا تو اپنی ماں کو کہا ’’اماں! جی بھر کر مل لیں، معلوم نہیں پھر ملوں نہ ملوں۔‘‘ْ شائد اسے پہلے ہی معلوم ہوگیا تھا کہ وہ شہادت کے اس عظیم منصب پر فائز ہونے والا ہے۔؟ محمد حسین نے بتایا کہ ان کا پورا خاندان اہلسنت ہے، صرف انہوں نے اپنے بیوی، بچوں سمیت مکتب اہلبیتؑ کو قبول کیا، جس پر میرے خاندازن والوں نے میرا بائیکاٹ بھی کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بیٹے کے بچھڑنے کا دکھ تو ہے، لیکن میرا بیٹا امام حسینؑ کے علی اکبرؑ سے بڑا تو نہیں تھا، مجھے فخر ہے کہ میں شہید کا والد ہوں اور شائد یہی وجہ تھی کہ خدا نے مجھے اس مکتب کا راستہ دکھایا۔

شہید کے والد کی ان پرعزم باتوں کو ساتھی کے ہمراہ بڑے غور سے سن رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ خدایا! سنتے تھے کہ جوان بیٹے کا لاشہ اٹھانا بہت تکلیف دہ ہوتا ہے، امام حسینؑ نے کڑیل جواں علی اکبرؑ کا لاشہ کیسے اٹھایا ہوگا۔؟ آنکھوں میں آنسووں کے سیلاب کو روکے اس بوڑھے باپ کے حوصلے کو دیکھ کر اندازہ ہو رہا تھا، یہ امام حسینؑ کی عظیم الشان قربانی کا ہی درس ہے کہ آج ایک بوڑھا باپ اپنے جوان بیٹے کو اہلبیتؑ کا صدقہ قرار دے رہا ہے۔ محمد حسین کا کہنا تھا کہ باقی بیٹوں کی شادیاں ہوگئی ہیں اور وہ اپنے بیوی بچوں کیساتھ خوش ہیں، ہمارا سہارا آصف ہی تھا۔ ہم نے اس کے سر پر سہرا سجانے کا خواب دیکھا تھا، لیکن خدا کی رضا پر ہم راضی ہیں۔ ملاقات کے دوران شہید کے ننھے بھتیجے سے بھی ملاقات ہوئی، مذہب کیساتھ ساتھ پاک وطن سے محبت کا جذبہ دیکھیں کہ جب اس بچے سے پوچھا کہ بڑے ہوکر کیا بنو گے تو اس نے بے ساختہ کہا کہ ’’میں بھی چاچو کی طرح فوجی بنوں گا اور شہید ہوں گا‘‘ اور کہا کہ میں آپ کو پریڈ کرکے دکھاوں۔؟

ننھے فوجی نے پریڈ کا مظاہرہ کیا، جسے بچے کا دادا حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا، ملاقات کے بعد شہید کے والدین سے اجازت طلب کی اور واپسی کا ارادہ کیا۔  شہید محمد آصف کے والدین سے لگ بھگ دو سے اڑھائی گھنٹے کی اس ملاقات نے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا تھا، کئی ایسے سوالات ذہن میں جنم لے رہے تھے، جن کے جوابات آج تک تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ لیکن اس بات پر فخر ہے کہ اتنی قربانیوں کے باوجود ملت تشیع کے شہداء کے ان لواحقین کے عزم، حوصلوں، عقیدے اور مشن میں کسی قسم کی کمی نہیں آئی۔ یہ حقیقت ہے کہ جن کا ربط کربلا سے ہو، وہ ہر قسم کی جانی و مالی قربانیوں کیلئے ہمیشہ آمادہ رہتے ہیں، حق و باطل کی جنگ کا یہ مرحلہ ابھی ختم نہیں ہوا، اگر یزیدی پیروکار زندہ ہیں تو محبت حسینؑ سے سرشار جوان بھی باقی ہیں، جو راہ حق کو زندہ رکھنے اور ظہور امام زمانہ (عج) کی زمینہ سازی کیلئے قربانیاں پیش کرتے رہیں گے۔


خبر کا کوڈ: 1049858

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/1049858/نوجوان-شہید-کے-بوڑھے-والدین-سے-ملاقات

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org