1
Saturday 1 Apr 2023 06:38

ترکی کے صدارتی الیکشن

ترکی کے صدارتی الیکشن
تحریر: فاطمہ محمدی
 
ترکی میں صدارتی الیکشن کے انعقاد میں پانچ ہفتے رہ گئے ہیں اور مختلف سیاسی جماعتوں کے درمیان مقابلہ جاری ہے۔ ترکی ایسے حالات میں صدارتی الیکشن کے قریب جا رہا ہے جب اقتصادی بحران نے پورے ملک پر سایہ ڈال رکھا ہے اور کروڑوں عوام زندگی کی بنیادی ضروریات پورا کرنے کیلئے شدید مشکلات سے روبرو ہیں۔ لہذا سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ اس صدارتی الیکشن میں اقتصادی بحران اور مہنگائی جیسے ایشوز فیصلہ کن کردار ادا کریں گے۔ ترکی کے صدارتی الیکشن میں کل چار امیدوار شرکت کر رہے ہیں جن میں سے دو امیدواروں کی پوزیشن مضبوط ہے اور دو دیگر امیدوار کمزور قرار دیے جا رہے ہیں۔ مضبوط امیدواروں میں موجودہ صدر رجب طیب اردگان اور کمال کلیچدار اوگلو شامل ہیں۔ رجب طیب اردگان انصاف و ترقی پارٹی کے سربراہ ہیں۔
 
کمال کلیچدار اوگلو جمہوری عوامی پارٹی کے سربراہ ہیں اور انہیں رجب طیب اردگان کی چھ مخالف سیاسی جماعتوں پر مشتمل اتحاد "قومی اتحاد" نے اپنا امیدوار نامزد کیا ہے۔ ان کے علاوہ باقی دو امیدوار کمزور قرار دیے جا رہے ہیں۔ ان میں سے ایک قوم پرست جوان سینان اوگان ہے جن کا تعلق قارص شہر سے ہے۔ وہ دائیں بازو کے شدت پسندانہ قوم پرستی پر مبنی موقف اور نعروں کے حامل ہیں۔ چوتھے امیدوار محرم اینجے ہیں جو جمہوری عوامی پارٹی کے سابق سربراہان میں سے ہیں اور انہوں نے اپنی الگ سیاسی جماعت تشکیل دے رکھی ہے جس کا نام "ریاست" رکھا ہے۔ یہ دونوں امیدوار ایسے ہیں جن کے پاس پارلیمنٹ میں کوئی سیٹ نہیں ہے اور انہوں نے الیکشن میں رجسٹریشن کیلئے کم از کم ایک لاکھ شہریوں کے دستخط حاصل کئے ہیں۔
 
محرم اینجے اور سینان اوگان ایک لاکھ سے کچھ ہی زیادہ شہریوں کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں جس کی بنیاد پر توقع کی جا رہی ہے کہ آئندہ الیکشن میں انہیں بڑی تعداد میں ووٹ نہیں ملیں گے۔ ان دونوں امیدواروں میں کچھ مشترکہ خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ یہ دونوں افراد اقتدار کی ہوس اور یکہ تازیوں میں مشہور ہیں۔ اینجے جمہوری عوامی پارٹی کی قیادت سنبھالنے کے درپے تھے لہذا انہوں نے کلیچدار اوگلو سے لڑ جھگڑ کر الگ جماعت بنا لی۔ سینان اوگان نے بھی پہلے قومی موومنٹ پارٹی میں باغچلی سے لڑائی کی اور اس کے بعد محترمہ مرال آکشنر کی سربراہی میں گڈ پارٹی میں شامل ہو گئے لیکن وہاں سے بھی قیادت پر جھگڑے کے بعد علیحدہ ہو گئے۔ لہذا یہ دونوں افراد مرکزی کردار ادا کرنے کے طالب ہیں۔
 
قومی اتحاد کے امیدوار کمال کلیچدار اس سے پہلے صرف ترکی کے اندرونی معاملات پر موقف کا اظہار کرتے تھے انہوں نے زیادہ تر کرپشن، رجب طیب اردگان کی غلط پالیسیوں، مہنگائی، بیروزگاری اور خواتین اور جوانوں کو درپیش مسائل کو موضوع بنایا تھا لیکن اب وہ دھیرے دھیرے علاقائی ایشوز پر بھی بات کرنا شروع ہو گئے ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں قونیہ شہر میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا: "ترکی کو آج دنیا سے مقابلہ کرنا چاہئے۔ آج ترکی کو خطے کا لیڈر ہونا چاہئے تھا۔ ترکی کو درپیش مشکلات بہت بڑی ہیں لیکن ہمیں ترقی کرنا ہے اور دنیا سے مقابلہ کرنا ہے۔ آپ نے اس صورتحال کو تبدیل کرنا ہے، میں نے نہیں۔ آپ آزادی کے ارادے کو اقتدار دلوائیں گے، نہ میں۔ اس ملک میں 55 لاکھ جوان زندگی کا پہلا ووٹ ڈالیں گے اور دنیا کی سیاسی تاریخ کو خوبصورت تحفہ دیں گے۔ آپ کہیں گے ہم نے ایک آمرانہ حکومت کو جمہوری طریقے سے تبدیل کر دیا ہے۔"
 
گذشتہ صدارتی الیکشنز میں رجب طیب اردگان کی پوزیشن بہت مضبوط رہی ہے اور وہ جہاں بھی جاتے مختلف وعدوں کے ذریعے ووٹ حاصل کر لیتے تھے۔ لیکن اب صورتحال بدل چکی ہے اور ان کے پاس عوام کا ووٹ لینے کی گنجائش ختم ہو چکی ہے۔ لہذا اب ان کے پاس ایک ہی راستہ بچا ہے اور وہ اپنے سیاسی مخالفین کو حملوں کا نشانہ بنانا ہے۔ انہوں نے کلیچدار اوگلو کو غداری کی علامت قرار دیا ہے۔ رجب طیب اردگان استنبول کے محلے قاسم پاشا میں پلے بڑھے ہیں جبکہ ان کی جائے پیدائش صوبہ ریزہ ہے۔ وہ جوانی میں نجم الدین اربکان کی فلاح پارٹی میں سرگرم رکن کے طور پر رہے اور استنبول کا میئر رہنے کے بعد آک پارٹی کی بنیاد رکھی۔ وہ ترکی کے وزیراعظم اور صدر کے عہدے سنبھال چکے ہیں۔
 
یوں دکھائی دیتا ہے کہ چاروں صدارتی امیدواروں کی اب تک کی صدارتی مہم میں کمال کلیچدار اوگلو سب سے آگے ہیں۔ عوام میں محبوبیت کے لحاظ سے وہ رجب طیب اردگان سے بہت آگے نکل چکے ہیں اور توقع کی جا رہی ہے کہ آئندہ الیکشن میں کامیابی انہی کو نصیب ہو گی۔ لیکن اس کے باوجود ترکی میں سیاست اور مختلف سیاسی جماعتوں کے درمیان مقابلے کا میدان بعض اوقات غیر متوقع نتائج سامنے لاتا ہے۔ لہذا ممکن ہے الیکشن کے دن تک کسی ایک امیدوار کی کامیابی کی سو فیصد پیش گوئی کرنا ممکن نہ ہو۔ البتہ یوں کہنا ممکن ہے کہ اگر ترکی کے سیاسی میدان میں کوئی غیر متوقع واقعہ رونما نہ ہوا تو کلیچدار اوگلو کی کامیابی کے امکانات بہت زیادہ ہیں اور اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ وہ ترکی کے آئندہ صدر قرار پائیں گے۔
خبر کا کوڈ : 1049900
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش