0
Sunday 2 Apr 2023 06:33

جمہوریت کے نام پر مداخلت

جمہوریت کے نام پر مداخلت
تحریر: میر رضا طاہر

امریکی صدر جو بائیڈن کے مطابق ان کا ملک ان امور پر اربوں ڈالر خرچ کرے گا، جن  میں دوسرے ملکوں میں بقول انکے جمہوریت کو  فروغ دینا شامل ہے۔ بائیڈن نے اسے "آزادی کی مشعل کو روشن رکھنے" کا نام دیا ہے۔ بائیڈن نے یہ ریمارکس "ڈیموکریسی سمٹ" سے اپنی تقریر میں دیئے، جو  ان کی صدارت میں منعقد ہونے والے سربراہی اجلاس کے شرکاء کے لیے نشر کی گئی۔ بائیڈن نے اعلان کیا کہ امریکہ مزید 690 ملین ڈالر خرچ کرے گا، جسے انہوں نے دنیا کے مختلف ممالک میں جمہوریت کی حمایت کے لیے واشنگٹن کی کوششوں سے تعبیر کیا ہے۔ بائیڈن نے کہا کہ وہ اس مقصد کے لیے کانگریس سے مزید 9.5 بلین ڈالر مانگنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

بائیڈن کے مطابق زیادہ تر رقم ایک نئے ادارے کو دی جائے گی، جو "بین الاقوامی ترقیاتی تنظیم" کے ماتحت بنایا جائے گا۔ یہ تنظیم امریکی محکمہ خارجہ کی نگرانی میں کام کرتی ہے اور بظاہر اس کا مقصد انسانی ہمدردی کے پروگراموں کو نافذ کرنا ہے۔ بائیڈن نے کہا کہ دنیا کو مضبوط بننے کے لیے جمہوریتوں کی ضرورت ہے اور آزادی کی مشعل ہمارے اور آنے والی نسلوں کے لیے روشن رہے گی۔ بائیڈن کی جانب سے دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے لیے بھاری فنڈز مختص کرنے کا اعتراف ایک بار پھر امریکا کا اصل چہرہ بے نقاب کر رہا ہے۔ سرد جنگ کے دور سے لے کر اب تک، امریکہ نے ہمیشہ اپنے مقاصد اور مفادات کے لئے دوسرے ممالک میں مداخلت پسندانہ روش اختیار کی ہے اور اس طرح اس نے نہ صرف بعض ممالک میں جنگ سازی کی منصوبہ بندی اور بغاوت شروع کی بلکہ حکومتیں تبدیل کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا۔

دنیا کے مختلف حصوں میں، بلکہ اس نے متعدد ممالک میں مغرب سے وابستہ جماعتوں، تحریکوں، سیاست دانوں اور غیر سرکاری تنظیموں اور میڈیا کی براہ راست اور بالواسطہ حمایت کی ہے، تاکہ امریکہ سے وابستہ عناصر کی حمایت اور ریاستہائے متحدہ کے مفادات کو پورا کیا جا سکے۔ اس حوالے سے اس وقت جب جمہوریت کی سمٹ منعقد ہوئی، وائٹ ہاؤس نے ایک رپورٹ شائع کی، جس میں واضح کیا گیا ہے کہ امریکی حکومت کا نیا بجٹ جمہوریت کی نام نہاد توسیع و ترقی کے لیے کن کن ممالک میں خرچ کیا جائے گا۔ امریکی حکومت کا دعویٰ ہے کہ امریکی ٹیکس دہندگان کا پیسہ دوسرے ممالک میں جمہوریت کو مضبوط بنانے اور آزاد میڈیا کی حمایت، درست خبروں کی نشریات کو مضبوط بنانے اور جعلی کمپنیوں کو بے نقاب کرنے کے لیے استعمال کیا جائیگا۔

اسکے علاوہ یہ رقم محکمہ خزانہ کے تعاون سے بدعنوانی کے خلاف جنگ میں بھی استعمال کی جائے گی۔ امریکی صدر نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ بجٹ انسانی حقوق اور جمہوری اصلاحات کو مضبوط بنانے اور آزادانہ اور صحت مند انتخابات کے دفاع پر بھی خرچ کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی امریکہ نے خود کو نہ صرف دنیا میں جمہوریت کا اصل حامی بنا کر پیش کیا، بلکہ جمہوریت کے سربراہی اجلاس کا دوبارہ انعقاد کرکے  دنیا میں جمہوریت کی توسیع کا منصوبہ بھی پیش کر دیا۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ کام کس نے اسے سونپا ہے اور کون سی بین الاقوامی اتھارٹی یہ صلاحیت رکھتی ہے کہ وہ یہ کام واشنگٹن کو سونپے؟ بائیڈن انتظامیہ کو یہ مشن کس نے سونپا ہے کہ جمہوریت کی ترقی کے لیے ڈیموکریسی سمٹ کے انعقاد کے لیے رہنماء اصول مقرر کرے اور دوسرے ممالک میں جمہوریت کی صورت حال کا جائزہ لے۔؟

امریکہ کے انسانی حقوق کے دعووں کی طرح، واشنگٹن کا یہ دعویٰ کہ امریکہ دنیا میں جمہوریت کے حوالے سے سب سے آگے ہے، ایک فریب اور دھوکہ ہے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے، جس کا اعتراف امریکی سیاسیات کے ایک ممتاز پروفیسر نے بھی کیا ہے۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر اور امریکی تھیوریسٹ اسٹیفن والٹ کہتے ہیں: ’’امریکہ اس وقت اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ اس طرح کے سربراہی اجلاس (جمہوریت کے سربراہی اجلاس) کی قیادت کرسکے۔ 2020ء کے امریکی صدارتی انتخابات سے قبل "اکنامک انٹیلی جنس یونٹ" نے اس ملک کو "خراب جمہوریت" والے ممالک کے زمرے میں رکھا تھا۔

اب بھی امریکہ کی دو اہم جماعتوں میں سے ایک نے اس ملک کے انتخابات کے نتائج کو قبول نہیں کیا ہے اور کچھ ریپبلکن اس ملک کی کانگریس پر ہونے والے حملے کی پردہ پوشی کر رہے ہیں۔ اس امریکی اسکالر کے مطابق اگر ہم جمہوری قیادت کے لیے کوشاں ہیں تو ایسے معاملات اس سے متصادم ہیں، جو امریکہ میں انجام پائے ہیں۔ اس امریکی نظریہ پرداز نے  6 جنوری 2021ء کو سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کی طرف سے اس ملک کے نومبر 2020ء کے صدارتی انتخابات کے نتائج اور جیت کے اعلان کے خلاف احتجاج میں امریکی کانگریس پر حملے کے انتہائی اندوہناک واقعے کا حوالہ دیا ہے۔

جو بائیڈن کا رقیب
ٹرمپ بارہا امریکہ میں جمہوریت کو جھوٹ قرار دے چکے ہیں۔ انہوں نے ان انتخابات میں امریکی انتخابی نظام کو کرپٹ اور وسیع پیمانے پر فراڈ قرار دے کر ایک بے مثال سیاسی بحران پیدا کیا اور امریکہ میں جمہوریت پر سوالیہ نشان لگا دیا۔ 6 جنوری کے واقعے نے سیاسی میدان میں امریکہ کی قانونی حیثیت اور بین الاقوامی اثر و رسوخ اور ساکھ پر بنیادی سوالیہ نشان لگا دیا۔ دنیا میں جمہوریت کی قیادت کے امریکی  دعووں کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ اب جمہوریت اپنے حقیقی معنوں میں امریکی معاشرے میں کافی عرصے سے مفقود و ناپید ہوچکی ہے۔
خبر کا کوڈ : 1050110
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش