0
Wednesday 12 Oct 2011 01:25

مغرب کی بیداری اور مغربی میڈیا

مغرب کی بیداری اور مغربی میڈیا
تحریر:سید اسد عباس تقوی
دنیا کو تگنی کا ناچ نچانے والی امریکی حکومت اور اس کے وسائل کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے والا ایک فیصد امریکی اشرافیہ آج خود برہنہ پا گرم توے پر کھڑا ہے۔ اس توے کے نیچے جلنے والی آگ کسی بیرونی طاقت کی لگائی ہوئی نہیں بلکہ امریکہ کے ننانوے فیصد باسیوں کی محرومیوں کی وہ جلن ہے جو پھیلتے پھیلتے وال سٹریٹ اور اس جیسے مختلف معاشی مراکز تک جا پہنچی ہے۔ Occupy Wall Street نامی اس تحریک میں اب تک سینکڑوں لیبر یونینز، سٹوڈنٹ یونینز، ٹرانسپورٹ یونینز ،نرسنگ سٹاف، اساتذہ غرض کہ زندگی کے ہر شعبے سے افراد شامل ہو چکے ہیں۔ اس تحریک کا ایک اور امتیاز یہ بھی ہے کہ آزاد امریکہ کی اس جدوجہد میں ہر نسل، رنگ، ذات، عمر اور مذہب کا انسان ایک ہی جذبے کے ساتھ کام کر رہا ہے۔
معروف برطانوی نیوز ایجنسی Reuters کے مطابق یہ امریکہ کے ایک نئے کل کی شروعات ہے۔ اس وقت تک یہ تحریک امریکہ کے تقریباً 1000 شہروں تک پھیل چکی ہے۔ اس تحریک کے شرکاء حکومت کے خلاف نہیں بلکہ ملک میں رائج مالیاتی نظام کے خلاف ہیں۔ وہ حکومت کو اسی فرسودہ مالیاتی نظام کا حصہ سمجھتے ہیں۔ تعلیم یافتہ امریکی شہریوں نے احتجاج کا جو انداز چنا ہے نیا نہیں۔ خود ان افراد کے بیانات کے مطابق یہ لوگ وال سٹریٹ کے پارک کو مصر کا میدان تحریر بنانے کا عزم رکھتے ہیں اور اس عزم میں ان افراد کی پختگی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ 25 دن سے یہ افراد وال اسٹریٹ نامی امریکہ کے سب سے بڑے تجارتی مرکز کے سامنے اپنے خیمے نصب کیے بیٹھے ہیں، تاحال گرفتاریاں، تشدد، حکومتی رکاوٹیں اور موسمی اثرات ان افراد کے حوصلوں کو پست کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ 
تحریک کے شرکاء نے اس میدان کو جس انداز سے منظم کیا ہے، وہ بھی دیدنی ہے۔ کہیں طہارت خانے ہیں، تو کہیں استراحت کا انتظام، کہیں خوراک کے ٹھیلے ہیں تو کہیں کیفیٹریاز، علاوہ ازیں شرکائے تحریک کو امریکہ بھر میں ملنے والی پذیرائی اور مظاہروں سے باخبر رکھنے کے لیے میڈیا سیل کا بھی انتظام کیا گیا ہے، میڈیکل سیل اور ایمرجنسی کے انتظامات اس کے علاوہ ہیں۔ ایک شہر ہے جو امریکہ کے غریبوں، مستضعفوں اور لاچار لوگوں نے بسا رکھا ہے۔ حکومت اور ان کے معاشی آقا امریکی مستضعفین کی اس بیداری سے اس قدر خوفزدہ ہیں کہ شاید موت سے بھی نہ ہوں۔
اوباما نے تو یہ کہ کر جان چھڑائی کہ معاشی طور پر مفلوج لوگوں کا غصہ بجا ہے۔ مگر دنیا بھر میں نشر ہونے والے امریکی و برطانوی میڈیا کو نہ جانے کیا ہوا۔ بی بی سی اور سی این این جو دنیا بھر میں انقلاب کی آواز پھیلانے میں پیش پیش ہوتے ہیں اس وقت نہ جانے کہاں رہ گئے۔ آپ یہ دونوں چینل لگا لیجیے گھنٹے دو گھنٹے بعد بھی امریکہ کی اس عوامی تحریک کے بارے میں کوئی خبر نشر ہو جائے تو غنیمت جانیے گا۔ گزشتہ تین روز سے تو میں بھی انھی چینلز کے سامنے بیٹھا ہوں کہ شاید آزادی اظہار کا نعرہ لگانے والے ان نیٹ ورکس کو کچھ غیرت آ جائے اور کوئی چھوٹی سی خبر ہی نشر کردیں، مگر نہیں۔
سچ کہوں تو بات ہی ایسی ہے کہ ان چینلز کی خاموشی کے سوا اور کوئی چارہ نہیں۔ کیونکہ یہ تحریک ایک ایسا جرثومہ ہے کہ اگر اس کی ذرا سی بھنک بھی مغرب میں کانوں کان پڑ گئی، تو پورے مغرب میں اس کے اثرات کو سنبھالنا ناممکن ہو جائے گا۔ برطانیہ نے تو جیسے تیسے اپنے ملک میں لگنے والی آگ کو ٹھنڈا کر لیا، مگر سپین، یونان، فرانس اور امریکہ کی دیگر ریاستوں میں محروم ، بےروزگار اور حکومت کی معاشی پالیسیوں سے تنگ افراد تو ایک اشارے کے لیے پر تول رہے ہیں۔
ابتداء میں ان چینلز نے کوشش کی کہ اس تحریک کو بے مقصد، لفنگوں کی تحریک، ٹی پارٹی کہ کر اس کی اہمیت کو گھٹایا جائے۔ مگر اس تحریک میں لوگوں کی شمولیت اور بدنامی کے ڈر سے اب یہ مکمل خاموش ہیں۔ 
مظاہرین کی آنکھوں میں مرچوں والے سپرے کا استعمال، رات کے اندھیرے میں کیے جانے والے کریک ڈاﺅن، آزاد میڈیا کے نمائندوں کو ان کے آلات سمیت اٹھانا اور نہ جانے کیا کیا، اب انھیں نظر نہیں آتا۔ میں اس بات کا گواہ ہوں کہ میڈیا کی آزادی کے ان چیمپیئنز نے ندا آغا سلطان اور شام کی ایک خاتون کے قتل پر گھنٹوں کی مسلسل نشریات چلائی، یہ دونوں قتل اگرچہ بعد میں جھوٹ کا پلندہ نکلے، تاہم بی بی سی اور سی این این نے خوب ڈھول پیٹا اور اپنے مقاصد حاصل کئے۔ آج یہ نام نہاد آزادی صحافت کے دعویدار سپورٹس کی خبریں اور ڈاکومینٹری پروگرام نشر کر کے یہ سمجھ رہے ہیں کہ دنیا اندھی ہے۔ 
وال سٹریٹ پر جمع ہونے والے بھی ان چینلز کے اوچھے ہتھکنڈوں سے آگاہ تھے وہ جانتے تھے کہ ان چینلز کے معاشی آقا بھی وہی ہیں جو ہماری حکومتوں کی پالیسیوں کو کنٹرول کرتے ہیں۔ پس انھوں نے اپنے ملک میں رائج ٹیکنالوجیز کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے اپنے مظاہروں، دھرنوں کو نیٹ پر لائیو دکھانا شروع کر دیا ہے، فیس بک اور ٹوئیٹر بھی اس سلسلے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ وہی فیس بک اور ٹوئیٹر جنہیں سماجی نیٹ ورکس کا جال بتاتے ہوئے یہ نیوز چینلز تھکتے نہیں تھے آج ان کے گلوں کی گھنٹی بن چکے ہیں۔
اس تحریک کے مقاصد جاننے کے لیے باقاعدہ سائٹس بن چکی ہیں، جہاں اس تحریک سے متعلق پوسٹرز، بینرز، سٹکرز باآسانی ڈاونلوڈ کیے جا سکتے ہیں۔ تحریک کے سلوگنز پڑھ کر معاملے کی حساسیت اور تحریک کے مقاصد کا اندازہ لگانا مشکل نہیں رہ جاتا۔ یہ تحریک انتہائی منظم انداز میں اپنے اہداف کی جانب گامزن ہے، جس میں فرد سے فرد کے ربط کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ اطلاعات کی ترسیل کا نظام بھی عجیب ہے۔ میگا فون کے استعمال پر پابندی کے بعد ان لوگوں نے آواز کو دہرا کر اطلاعات کی ترسیل کا نظام اپنایا ہوا ہے۔ مظاہروں کے انتظام کے لیے الگ برگیڈ تشکیل دیے گئے ہیں۔ اس تحریک کی ایک جنرل اسمبلی بھی تشکیل دی جا چکی ہے، جو وقتاً فوقتاً اپنے اجلاس منعقد کرتی ہے، جس میں آئندہ کے لائحہ عمل کو زیر بحث لایا جاتا ہے۔
یہ تحریک دراصل معاشرتی اور معاشی ناہمواریوں کے خلاف محروم طبقے کی ایک پکار ہے۔ تحریک کے شرکاء امریکی معاشرے میں پائی جانے والی معاشرتی ناہمواری، مسائل اور محرومیوں کا اصل سبب ملک میں رائج معاشی نظام کو تصور کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس تحریک کے انعقاد کے لیے ملک کے معاشی مراکز اور سمبلز کا انتخاب کیا گیا۔ آن لائن امریکی اخبار گولڈ سٹاک بل کا کالم نگار جیسن ہیملن اپنے 3 اکتوبر کے کالم میں اس تحریک کے مقاصد کے بارے میں لکھتا ہے:
پہلے پہل میڈیا نے ان مظاہروں کو کوئی اہمیت نہ دی، اب ان مظاہروں کے بارے میں کہا جا رہا کہ ان کا کوئی مقصد نہیں۔ جبکہ اس کے برعکس مظاہرین کی کئی جنرل اسمبلیاں ہیں، آن لائن پولز کا انعقاد کیا جا رہا ہے، تاکہ اس بات کا تعین کیا جاسکے کہ عوام کن مطالبات کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ یہ حقیقی جمہوریت کے مظاہر ہیں جو ہم نے بڑے عرصے سے نہیں دیکھے۔ جس انداز میں ہمارے سیاستدان عوامی منشاء اور ارادے کے خلاف ووٹ کا استعمال کر رہے ہیں، یہ ایک ریپبلک میں جمہوریت کی توہین کی بدترین مثال ہے۔ امریکہ کی اکثریت پر یہ واضح ہے کہ ہماری حکومت بدعنوان ہے، بک چکی ہے اور لوگوں کے مفادات کا تحفظ نہیں کر رہی، جن کی وہ نمائندگی کرتی ہے۔ مجھے وال اسٹریٹ کی تحریک کے تجزیہ کے بعد اس تحریک کے جو مقاصد سمجھ آئے ہیں درج ذیل ہیں۔
1۔ حکومت اور کوآپریشن بینکوں کے اتحاد کو ختم کرنا تاکہ عوامی نمائندے اپنے ایک فیصد ڈونرز کی نہیں بلکہ عوام کی نمائندگی کریں۔
2۔ سرمایہ کی تباہی جس کے سبب لاکھوں لوگ متاثر ہوئے، کے بارے میں وال اسٹریٹ کی تفتیش اور ذمہ داروں کا احتساب۔
3۔ رقم کو سکوں میں ڈھالنے کا اختیار امریکی خزانے کو دینا۔
4۔ بینکوں کے حجم، دائرہ کار اور اختیارات کو محدود کرنا، تاکہ کوئی بھی بینک اتنا بڑا نہ ہو جائے کہ اس کے ناکام ہونے پر سارا بوجھ ٹیکس دینے والے پر آ جائے۔
5۔ کواپریشنز کو ”افراد“ سمجھنے کی قانونی حیثیت کو تبدیل کیا جانا۔ ( 1886) میں امریکی عدلیہ نے کواپریشن کو فرد کا درجہ دیا، جسے 14 ویں ترمیم کے تحت وہی حقوق حاصل ہیں جو کسی انسان کا حق ہیں۔
6۔ شہری آزادیوں کا تحفظ۔
7۔ استعماری جنگوں اور حملوں کا خاتمہ، بیرونی ممالک میں تعینات تمام تر افواج کی فوری واپسی، فوجی بجٹ میں کمی اور فوج کے کردار کو ملکی سرحدوں کے تحفظ تک محدود رکھنا۔
مظاہرین ان مطالبات کے علاوہ صحت، تعلیم، ٹیکس، ملازمتوں، آزاد میڈیا، مساوی حقوق، ایٹمی ہتھیاروں کے خاتمے وغیرہ کے بارے میں بھی مطالبات کر رہے ہیں۔ میرے خیال میں یہ مسائل درج بالا مطالبات پورے ہونے سے خود بخود حل ہو جائیں گے۔ میرا نظر یہ ہے کہ ہمیں اپنے سیاسی، معاشرتی اور معاشی نظام کو دوبارہ سے تشکیل دینا ہو گا۔ اس کی ابتدا بڑے بینکوں سے پیسہ نکالنے کے ذریعہ کریں ،کیونکہ اگر ان کے پاس پیسہ نہیں ہو گا تو وہ آپ سے جیت نہیں سکتے۔ خدا آپ کا حامی و ناصر ہو۔
یہ کالم پڑھنے کے بعد بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ معاملات کس حد تک بگڑ چکے ہیں یا یوں کہوں کہ اصلاح کی جانب گامزن ہیں۔ آج امریکہ جاگا ہے تو کل برطانیہ کی باری ہے پھر فرانس، جرمنی، سپین، یونان آہستہ آہستہ اس بیداری کی لہروں میں کھو جائیں گے۔ یوں یہ بوڑھا سرمایہ داری نظام جو انسانوں کو سرمایہ کی بنیاد پر تقسیم کر کے ایک اشرافیہ کو جنم دیتا ہے، امام خمینی رہ کی پیشن گوئی کے مطابق اپنی موت آپ مر جائے گا۔ ( انشاءاللہ)
خبر کا کوڈ : 105564
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش