1
0
Monday 22 May 2023 21:17

عالمی نظام کی جیومیٹری میں تبدیلی

عالمی نظام کی جیومیٹری میں تبدیلی
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

10 اور 11 مئی 2023ء کو ایران کی ہائیر نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی the University of National Defense نے "نیو ورلڈ آرڈر کی جیومیٹری"، “Geometry of the New World Order" کے عنوان سے دو روزہ اجلاس کی میزبانی کی۔ اس اجلاس میں نئے عالمی نظام کی علامات اور خصوصیات پر بات کی گئی ہے۔ اس آرٹیکل میں ہم اس نئے عالمی نظام یا "عالمی نظام کی جیومیٹری میں تبدیلی" پر روشنی ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ "ورلڈ آرڈر یا انٹرنیشنل آرڈر" دنیا کے معاملات کو چلانے کے  لئے ضوابط اور انتظامات و انصرام کا وہ تحریری اور غیر تحریری مجموعہ ہے، جسے بڑے عالمی کھلاڑی یا عالمی طاقتیں بین الاقوامی سیاست کو تخلیق اور منظم کرنے کے لئے استعمال کرتی ہیں۔ 1648ء میں ویسٹ فیلیا Westphalia سے لے کر سوویت یونین کے انہدام تک مختلف تاریخی ادوار کے دوران، کئی "بین الاقوامی ورلڈ آرڈر" سامنے آئے اور بالآخر زوال پذیر ہوئے۔

یورپ میں 30 سال کی مذہبی جنگوں کے بعد 17ویں صدی کے وسط میں بڑے یورپی ممالک کے نمائندے جرمنی کے شہر مونسٹر کے سٹی ہال میں جمع ہوئے اور انہوں نے ویسٹ فیلیا Westphalia کے معاہدے پر دستخط کیے۔ اس معاہدے نے پہلا عالمی نظام تشکیل دیا، جس کی بنیاد پر اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ ہر ملک خواہ اس کا حجم بڑا یا چھوٹا ہے، اسے اس سے قطع نظر اپنی سرزمین میں خود مختاری کے ساتھ ایک آزاد سیاسی اکائی کے طور پر تسلیم کیا جائے اور تمام ممالک کو ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت سے گریز کرنا چاہیئے۔ ویسٹ فیلین آرڈر کی اہم خصوصیت عالمی نظام کی سطح پر طاقت کے توازن کو برقرار رکھنا  تھا۔ ویسٹ فیلین ورلڈ آرڈر پہلی جنگ عظیم تک قائم رہا۔ اگرچہ ویسٹ فیلین آرڈر کو تین صدیوں کے دوران بہت سے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا، لیکن آخرکار اسے جنگ سے تباہ کر دیا گیا۔

جنگ کے خاتمے کے بعد اور ویسٹ فیلین آرڈر کے بعد وارسائی کا معاہدہ اور لیگ آف نیشنز کی تشکیل ایک نئی ترتیب قائم کرنے کی کوشش تھی۔ یہ وہ کوشش تھی، جو  کامیاب نہیں ہوئی اور دوسری جنگ عظیم شروع ہوگئی، جس میں وسیع سطح پر تباہی و بربادی ہوئی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں نے مختلف حربوں کو استعمال کرتے ہوئے دنیا میں ’’لبرل ورلڈ آرڈر‘‘ قائم کرنے کی کوشش کی۔ مارشل پلان، اقوام متحدہ، عالمی بینک، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ جیسے بین الاقوامی اداروں کی تشکیل اور نیٹو جیسے کثیر الجہتی سکیورٹی اور فوجی ڈھانچے کی تشکیل مغرب کی طرف سے مطلوبہ آرڈر کو قائم کرنے کے لیے اہم ترین اقدامات تھے۔ لبرل آرڈر کی بنیادی خصوصیات میں سے ایک ادارہ جاتی رجحان تھا۔ اس دوران سوویت یونین، مشرقی بلاک کی شکل میں، لبرل دنیا کے حریف کے طور پر، اپنا مطلوبہ نظام قائم کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ آخرکار 20ویں صدی کی آخری دہائی میں مشرقی بلاک کے خاتمے کے ساتھ دو قطبی عالمی نظام کا بھی خاتمہ ہوگیا۔

سرد جنگ کے بعد دو قطبی ورلڈ آرڈر نے یک قطبی ورلڈ آرڈر کو راستہ دیا اور امریکہ کی قیادت میں مغرب نے "نیو ورلڈ آرڈر" کی بات کی اور فرانسس فوکویاما نے "تاریخ کے خاتمے" کا نظریہ پیش کیا۔ اس نئے ورلڈ آرڈر میں ریاستہائے متحدہ امریکہ ایک  واحد سپر طاقت بن کر سامنے آئی، جس نے اپنی فوجی طاقت کا مؤثر طریقہ استعمال کرتے ہوئے دوسرے ممالک مین مداخلت کرنے کا سیاسی طریقہ اختیار کیا۔ امریکہ نے اس طرح دنیا کی پولیس فورس کا کردار سنبھال لیا۔ آپریشن ڈیزرٹ سٹارم، عراق کو کویت سے بے دخل کرنا، 1999ء میں کوسوو سے سربیائی افواج کو نکالنے کے لیے امریکہ کا کردار نیز افغانستان پر فضائی بمباری جس نے 2001ء میں طالبان کے خاتمے میں تیزی لائی، اسکے چند نمونے ہیں۔

تاہم لبرل آرڈر کا زوال دو سابقہ ​​ ویسٹ فیلین اور بائی پولر سے جلدی شروع ہوا اور یہ اس مقام پر پہنچ گیا، جہاں "اینڈ آف ہسٹری" تھیوری کے مصنف فرانسس فوکویاما نے  دوبارہ قلم اٹھایا اور کتاب "تاریخ کے خاتمے کے بعد" لکھی۔ اس کتاب اور اپنی دیگر تحریروں میں انہوں نے اعتراف کیا کہ وہ دنیا میں لبرل ازم کے نظام کی غیر متنازعہ سیاسی اور معاشی فتح کے بارے میں بہت پرامید تھے، لیکن شواہد دوسری صورت کو ظاہر کر رہے ہیں۔ فرید زکریا، جو نیوریالسٹ رجحان رکھتے ہیں، اپنے تجزیہ میں کہتے ہیں کہ ہم امریکہ کے بعد کی دنیا میں داخل ہو رہے ہیں، جہاں "کئی جگہوں پر بہت سے لوگ" اس کی سمت اور نوعیت کا تعین کر رہے ہیں۔ رچرڈ ہاس جو کہ ایک مشہور امریکی تھیوریسین ہیں، کہتے ہیں: "امریکہ اب بھی دنیا کا سب سے طاقتور ملک ہے، وہ تو اپنے طور پر امن اور عالمی خوشحالی کو برقرار رکھنے کے قابل نہیں ہے، وہ اسے ترقی کی طرف کیسے لے جاسکتا ہے۔"

یہ عمل کئی سال پہلے شروع ہوا تھا اور مغربی مفکرین جیسے "جوزف نی" نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے، ان کے کہنے کے مطابق "عالمی طاقت کا مرکزِ ثقل مغرب سے مشرق کی طرف منتقل نہیں ہو رہا ہے، بلکہ نئے عالمی نظام میں طاقت کی تقسیم اور نئے کھلاڑیوں (غیر مغربی) کے ابھرنے کی وجہ سے تبدیلی آرہی ہے۔ اس فریم ورک میں، مغرب اور خاص طور پر ریاستہائے متحدہ امریکہ اب ماضی کی طرح فوجی، اقتصادی اور ثقافتی طاقت کا مرکز نہیں ہے اور مشرق میں ابھرتی ہوئی اقتصادی، سیاسی اور فوجی طاقتیں جیسے چین اور اقتصادی یونین جیسے "آسیان" عالمی مساوات میں ایک اہم شراکت دار کے طور پر سامنے ائی ہیں۔ ادھر بہت سے معاملات مثلاً یمن، عراق، شام اور لبنان جیسے ممالک میں امریکہ کی عسکری اور سیاسی قوت کی ناکامی نے مغربی دنیا کی قیادت میں طاقت کے ارتکاز کے دور کے خاتمے کی تصدیق کر دی ہے۔

جدید سائنسی اور تکنیکی ایجادات، معیشت اور عالمی برادری کے باہمی انحصار نے بین الاقوامی نظام کی پیچیدگی میں اضافہ کیا ہے۔ اب چین اور دیگر جنوبی طاقتوں نے اقتصادی اور سیاسی اہمیت حاصل کر لی ہے۔ ہندوستان اور برازیل جیسے کچھ ممالک نے پرجوش اور بلند و بالا اقتصادی اور ترقیاتی منصوبوں کو نافذ کیا ہے اور مختلف منصوبے جاری ہیں۔ اس صورت حال میں واشنگٹن کو اپنی بین الاقوامی پالیسیوں اور اثر و رسوخ کی تشکیل کے لیے سنگین محدودیت کا سامنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کے یک قطبی بین الاقوامی نظام کے قیام اور استحکام کے لیے دو دہائیوں سے زیادہ کی کوششوں کے بعد اس وقت ہم امریکہ کے زیر سایہ بین الاقوامی نظام کے بگاڑ کے آثار دیکھ رہے ہیں۔ ایک نیا ورلڈ آرڈر تشکیل پارہا ہے، ایک ایسا موضوع جس کا ذکر رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت ایت اللہ خامنہ ای کے بیانات میں ہم بار بار مختلف عنوانات اور تصورات کے تحت مشاہدہ کررہے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت ایت اللہ خامنہ ای کی طرف سے "عالمی نظام کی جیومیٹری میں تبدیلی"، "تاریخی موڑ"، "اسٹریٹجک ڈیپتھ" وغیرہ جیسی اصطلاحیں اس نئے ورلڈ کی طرف متوجہ کر رہی ہیں۔ کچھ نظریہ پردازوں کا خیال ہے کہ یوکرین کی جنگ ان واقعات میں سے ایک ہے، جو امریکہ اور یورپ نے موجودہ نظام کو برقرار رکھنے اور ایک نئے ورلڈ آرڈر کی تشکیل کو روکنے کے لیے شروع کی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوکرائن کی جنگ اور روس کے ساتھ امریکہ اور یورپ کی ہمہ گیر محاذ آرائی بھی اسی سلسلہ کی کڑیاں ہیں۔ پچھلی 7 دہائیوں میں دو طرح کے ورلڈ آرڈر نے دنیا پر راج کیا، ویسٹ فیلین آرڈر تین صدیوں تک قائم رہا۔ بائی پولر آرڈر تقریباً 40 سال تک چلا، تاہم امریکا کی قیادت میں یونی پولر آرڈر صرف 3 دہائیوں تک چلا اور اب ہم بات کر رہے ہیں، دنیا میں ایک نئے آرڈر کی۔ آئندہ آرٹیکل میں نیو ورلڈ آرڈر کی علامات اور خصوصیات کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔
خبر کا کوڈ : 1059502
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

سید منور علی نقوی کراچی ۔
Australia
انتہائی اہم، سنجیدہ اور شعور کو بیدار کرنے والا موضوع ھے۔ انتظار رہے گا۔
ہماری پیشکش