0
Saturday 27 May 2023 17:43

جیسا کرو گے ویسا بھرو گے

جیسا کرو گے ویسا بھرو گے
ترتیب و تنظیم: علی واحدی

اس سال کے آغاز سے صیہونی حکومت کی بنیاد پرست کابینہ کے فلسطین مخالف اقدامات میں شدت آنے کے بعد مغربی کنارے اور غزہ نیز اس کے اردگرد صیہونی بستیوں میں کشیدگی کی سطح میں اتنا اضافہ ہوا ہے کہ شاید ہی کوئی ایسا دن ہو، جس دن کشیدگی کی خبریں سامنے نہ آئی ہوں۔ کشیدگی پیدا ہونے کی ایک وجہ مغربی کنارے کے مختلف شہروں اور دیہاتوں میں فلسطینیوں کے مکانات کی منظم اور ٹارگٹ تباہی اور نئی صہیونی بستیوں کی تعمیر ہے۔ صیہونی حکومت نہ صرف صیہونی بنسیاں تعمیر کرنے میں سہولت فراہم کر رہی ہے بلکہ مقامی فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی میں بھی شدت لارہی ہے۔ اس حوالے سے الوطن ویب سائٹ نے رپورٹ دی ہے کہ اس سال کے آغاز سے اب تک قابض حکومت کی فوج نے مقبوضہ مغربی کنارے اور بیت المقدس میں فلسطینیوں کے مکانات اور املاک سمیت 376 فلسطینی عمارتوں کو تباہ کیا ہے۔

اس فلسطینی سائٹ کے مطابق اس عرصے کے دوران مغربی کنارے کے مختلف علاقوں میں مقیم فلسطینی باشندوں کو انخلاء کے لازمی احکامات کے 500 نوٹس بھیجے گئے ہیں۔ دوسری طرف نیتن یاہو کی نئی انتہاء پسند کابینہ کے ذریعے مسجد الاقصیٰ پر انتہاء پسند صہیونیوں کے حملے نیز فلسطینیوں کے خلاف مسلح آباد کاروں کی طرف سے پہلے سے کہیں زیادہ خوف و ہراس پھیلایا جا رہا ہے۔ اس دوران رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ فلسطینیوں کے احتجاج سے نمٹنے کے لیے غاصب حکومت کی سکیورٹی پالیسی میں بھی تبدیلی آئی ہے اور صہیونی کابینہ نے فلسطینی نوجوانوں اور بچوں کی قبل از گرفتاری اور سڑکوں پر پھانسی یا ماورائے عدالت کی پالیسی کو ایجنڈے میں شامل کر لیا ہے۔ سما نیوز ایجنسی نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ نئے سال (2023ء) کے آغاز سے اب تک فلسطینی شہداء کی تعداد 157 تک پہنچ گئی ہے، جن میں 26 بچے ہیں۔

اسی سلسلے میں واشنگٹن پوسٹ اخبار نے اسرائیلی اسپیشل فورسز کے ہاتھوں فلسطینی شہریوں بالخصوص بچوں کے قتل کے حوالے سے رپورٹ شائع کی ہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے لکھا ہے اب مغربی کنارے میں اسرائیلی حملے ایک عام مسئلہ ہے، لیکن ماضی یہ عام طور پر رات کے وقت ہوتے تھے، جو فلسطینیوں کی گرفتاری پر ختم ہوتے۔ رپورٹ کے مطابق اس سال اسرائیل کی تاریخ کی انتہائی متشدد حکومت کے سائے میں، نہ صرف بڑی تعداد میں فلسطینیوں کی گرفتاریاں ہوئی ہیں بلکہ اب دن کے وقت حملوں میں اضافہ ہوا ہے، اب تو جینن جیسے گنجان آباد علاقوں میں  بھی دن دیہاڑے حملے ہوتے ہیں۔ اس رپورٹ میں 16 مارچ کو جنین شہر پر صیہونی حکومت کے خونریز حملے کی 15 ویڈیوز کا تجزیہ کیا گیا ہے، جس میں چار فلسطینیوں جن میں ندال خزیم، یوسف شرم، عمر عوادین اور لوئی الصغیر نامی فلسطینیوں کی شہادت ہوئی تھی۔

اس تحقیق میں اسرائیلی اسپیشل فورسز کے حملے اور 13 افراد کی شہادت کے مقام کے قریب کمرشل اسٹورز کی سی سی ٹی وی ویڈیوز کا جائزہ لیا گیا۔ اس اخبار نے متعدد ماہرین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: 16 مارچ کو جنین شہر پر اسرائیل کا حملہ ماورائے عدالت قتل کی ممانعت کی خلاف ورزی ہے۔ یہ خلاف ورزی اس حقیقت سے بڑھ گئی ہے کہ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ وہ مسلح افراد تھے، حالانکہ وہ قتل کے وقت اسرائیلی اسپیشل فورسز کے لیے خطرہ نہیں تھے اور یہ کہ حملے کے مقام پر بڑی تعداد میں عام شہری بھی موجود تھے۔ اس اخبار کی دستاویزات کا جائزہ لینے کے بعد ماورائے عدالت قتل یا پھانسی کے بارے میں اقوام متحدہ کے سابق رپورٹر فلپ ایلسٹن نے کہا ہے "یہ بات بڑے اعتماد سے کہی جا سکتی ہے کہ یہ آپریشن ماورائے عدالت پھانسی کی کارروائی تھی۔" بڑی تعداد میں گولیاں برسا کر دو نوجوانوں کو گرفتار کرنے میں ناکامی کے بعد ان دونوں افراد کو قتل کر دیا گیا اور قتل کرنے کے بعد بھی گولیاں برسائی گئیں۔

اقوام متحدہ سے منسلک فلسطینی علاقوں میں انسانی حقوق کے سابق خصوصی نمائندے مائیکل لنک کا کہنا ہے کہ یہ قتل عام بین الاقوامی معیارات کے مطابق بڑی حد تک غیر قانونی ہے اور جو چیز اس کے غیر قانونی ہونے میں اضافہ کرتی ہے، وہ دہشت گردی کی کارروائی کو انجام دینے کے لئے زمان و مکان کا انتخاب ہے۔ پرہجوم بازار میں ان دو نوجوانوں کو نشانہ بنایا گیا، حالانکہ حملے میں نشانہ بننے والے ان دو نوجوانوں سے کسی کو کوئی خطرہ نہیں تھا اور اسرائیلی فوج انہیں آسانی سے حراست میں لے سکتی تھی۔ درحقیقت ایسا لگتا ہے کہ تل ابیب کی انتہاء پسند کابینہ فلسطینی نوجوانوں کو جسمانی طور پر ختم کرنے کی پالیسی کی طرف متوجہ ہوگئی ہے۔

صیہونی حکومت قانونی عمل سے گزرے بغیر سزا کا نفاذ کر رہی ہے، جس سے اس کے مالی اور سیاسی اخراجات بھی کم ہونگے۔ اس سے پہلے گرفتار کرکے جیلوں میں بھیجا جاتا تھا، جہاں فلسطینی قیدیوں پر اخراجات کرنے پڑتے تھے۔ دوسری طرف فلسطینی قیدی صیہونی جیلوں میں بھوک ہڑتال کرکے صیہونی حکومت کی بدنامی کا باعث بنتے تھے۔ اس نئی پالیسی کا ایک اور ہدف مغربی کنارے کے فلسطینی نوجوانوں میں خوف و دہشت پیدا کرنا ہے، کیونکہ حالیہ مہینوں میں مغربی کنارے کے فلسطینی نوجوان بالخصوص عرین الاسود جیسے گروہ اسرائیل کے لیے ایک بہت بڑا سکیورٹی چیلنج بن گئے ہیں۔ پکڑے جانے کے بعد فلسطینی جنگجو جیل میں اجتماعی بھوک ہڑتالیں کرکے قبضے کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھتے ہیں اور قید سے رہائی کے بعد وہ زیادہ تجربے کے ساتھ مجاہدین کی صفوں میں واپس آجاتے ہیں اور یہ سلسلہ گذشتہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔

فلسطینیوں کے اس جوش و جذبے نے صیہونیوں کو ایک مشکل صورت حال میں ڈال دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ اب نیتن یاہو کی انتہاء پسند کابینہ فلسطینیوں کو سڑکوں پر پھانسی دیکر اس مسئلے کا حل تلاش کر رہی ہے۔ فلسطینی نوجوانوں کو سڑکوں پر دہشت گردی کا نشانہ بنانا اور ان کی نسل کشی کی پالیسی کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے، جو فلسطینی گروہوں کی نظروں سے اوجھل ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ان گروہوں نے خبردار کیا ہے کہ انتہاء پسند صہیونی کابینہ نے مغربی کنارے میں جو آگ لگائی ہے، اس کا دھواں بالآخر اسے ضرور متاثر کرے گا۔ یہ پالیسی نہ صرف مقبوضہ علاقوں کی سلامتی اور فلسطینی جنگجوؤں کو خوفزدہ اور پیچھے ہٹانے کا باعث نہیں بنے گی بلکہ اس کا نتیجہ مزاحمتی گروپوں کے شدید ردعمل کی صورت میں سامنے آئے گا۔ فلسطینیوں کا یہ عدم تحفظ اور بحران جب مقبوضہ علاقوں کی گہرائیوں تک پھیل جائے گا تو اس سے فلسطینی نوجوانوں کو بدلہ لینے اور صیہونی آباد کاروں کو مارنے کا لائسنس مل جائیگا۔

اس سلسلے میں فلسطین کی اسلامی جہاد تحریک نے جمعہ کے روز الخلیل کے جنوب میں واقع "الظاہریہ" علاقے میں علاء خلیل قیصیح (28 سال) اور تانا عمریم کی شہادت کے بعد ایک بیان میں کہا ہے کہ صیہونی حکومت کے جرائم کے خلاف اور مسجد الاقصیٰ میں فتوحات کے حصول تک مزاحمت کو جاری و ساری رکھیں گے۔ اسلامی جہاد تحریک نے تاکید کی کہ فلسطینی قوم کے خلاف قابضین کے ان جرائم کی صیہونی حکومت اور اس کے فوجیوں اور آباد کاروں کو بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔ تحریک حماس نے اس نوجوان فلسطینی کی شہادت پر تعزیت کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ صیہونی جرائم غاصبوں سے چھٹکارا پانے کے لیے مزاحمت کے عزم و ارادے کو مزید مستحکم بنا دیں گے۔

تحریک حماس نے نشاندہی کی ہے کہ یہ جرائم سرزمین فلسطین کی مکمل آزادی نیز اسلامی اور عیسائی مقدس مقامات اور مسجد اقصیٰ کی آزادی تک مزاحمت اور انقلاب کے راستے کو جاری رکھنے کا باعث بنیں گے۔ ان جرائم کے وقوع پذیر ہونے کے بعد صیہونی رہنماؤں نے فلسطینیوں کی انتقامی کارروائیوں کے خوف سے صیہونی  بستی کے قابضین سے کہا کہ وہ گھروں میں ہی رہیں اور گھروں کے دروازے اور کھڑکیاں تا اطلاع ثانی بند رکھیں۔ صیہونی حکومت نے اس علاقے میں گاڑیوں کی آمدورفت پر بھی تا اطلاع ثانی پابندی لگا دی۔ یہ صورت حال ظاہر کرتی ہے کہ صیہونی حکومت کی یہ کارروائیاں فلسطینی نوجوانوں میں خوف و ہراس پیدا کرنے کی بجائے صہیونیوں کے دلوں میں خوف و دہشت کا باعث بنی ہیں۔ صہیونی بستیوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھ رہا ہے اور فلسطینی نوجوانوں کو قتل کرنے کا الٹا نتیجہ برآمد ہو رہا ہے۔
خبر کا کوڈ : 1060478
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش