0
Monday 29 May 2023 12:50

تہران ہو گر عالم مشرق کا جنیوا!

تہران ہو گر عالم مشرق کا جنیوا!
تحریر: سید منیر حسین گیلانی

پاکستان اور ایران برادر ہمسایہ اسلامی ممالک ہیں، جن کی سرحدیں ہی نہیں دِل اور ایمان کے رشتے بھی ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ ایران پاکستان کو سب سے پہلے تسلیم کرنیوالا ملک بھی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں سرد مہری تو کبھی آجاتی ہے، مگر قطع تعلقی کبھی نہیں ہوئی۔ دونوں ممالک کے درمیان مختلف سفارتی، ثقافتی اور تجارتی معاہدے بھی موجود ہیں۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف اور اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر آیت اللہ ابراہیم رئیسی نے گوادر کیلئے 100 میگا واٹ بجلی کی ٹرانسمیشن لائن کا افتتاح کر دیا ہے۔ یہیں دونوں رہنماوں نے بارڈر مارکیٹ کا بھی افتتاح کیا، جہاں دونوں ممالک کے درمیان اشیاء کی خرید و فروخت بھی ہوگی۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری، وزیر توانائی خرم دستگیر، وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس، بلوچ رہنماء اختر مینگل اور دیگر وزراء بھی شریک ہوئے۔ یہ ایک بہت اہم پیشرفت ہے۔ ایران پہلے بھی پاکستان کو اپنی سرحد سے ملحقہ بلوچستان کے کچھ علاقوں میں بجلی مہیا کر رہا ہے۔ اس موقع پر وزیراعظم شہباز شریف اور صدر ابراہیم رئیسی کے درمیان ملاقات بھی ہوئی، جس میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے عزم کا اظہار کیا گیا۔

اس تاریخی موقع پر سب سے بڑی بات یہ بھی دیکھنے میں آئی کہ وزیراعظم شہباز شریف نے اپنی تقریر کی ابتداء مفکر پاکستان شاعر مشرق علامہ اقبالؒ کے شعر سے کی
تہران ہو گر عالم مشرق کا جنیوا
شاید کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے!

راقم نے اپنے گذشتہ متعدد آرٹیکلز میں دونوں ممالک کے درمیان پاکستان کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے تعاون کی ضرورت پر زور دیا اور واضح کیا کہ امریکہ سے ڈرتے رہنے سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ پاکستان اپنے مفادات کے مطابق سوچے۔ ایران قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے اور تمام پڑوسی ممالک سے تعاون چاہتا ہے۔ خاص طور پر پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک سے تعلقات کی مضبوطی ایران کی ہمیشہ سے ریاستی پالیسی رہی ہے۔ پاکستان ایک عرصے سے توانائی کے بحران کا شکار چلا آرہا ہے اور ایران اس کے حل کی متعدد بار پیشکش بھی کرچکا ہے، مگر افسوس پاکستان امریکی پابندیوں کے خوف سے باہر نہیں نکل سکا۔

توانائی بحران کے حل کیلئے ایران کیساتھ گیس پائپ لائن معاہدہ ہوا۔ صدر پاکستان آصف علی زرداری اور ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے 2013ء میں دونوں ممالک کی سرحد پر پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کا افتتاح کیا۔ جس کے بعد ایران نے معاہدہ کے مطابق اپنی حدود میں گیس پائپ لائن بچھا دی، مگر ایران پر امریکی پابندیوں کی وجہ سے پاکستان اپنی حدود میں پائپ لائن نہ بچھا سکا، حتیٰ کہ اس منصوبے کیلئے ایران قرض دینے کیلئے تیار ہے، مگر اپنے مفاد کیلئے ہی سہی، امریکی خواہش کیخلاف فیصلے کیلئے حکمرانوں کی جرأت درکار ہے۔ جو بدقسمتی سے مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کی حکومتیں حاصل نہ کرسکیں۔

گیس پائپ لائن پر معاہدہ اور افتتاحی تقریب تاریخ کا حصہ ہے، مگر پائپ لائن زمین پر موجود نہیں ہے۔ ہم پہلے بھی متعدد بار نشاندہی کرچکے ہیں کہ امریکی اقتصادی پابندیوں کے باوجود بھارت روس سے تیل درآمد کر رہا ہے۔ بھارت نے امریکی پابندیوں کو نظرانداز کرکے اپنے ملک کے مفاد کو مقدم رکھا اور کہا کہ امریکہ کو یقیناً پتہ ہوگا کہ یورپی یونین کے ممالک روس سے تیل لے کر آگے بیچ رہے ہیں۔ ہم یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ روس پر پابندیوں کے باوجود یورپی ممالک اس سے گیس اور کوئلہ خرید رہے ہیں، لیکن ہم پاکستانی امریکی پابندیوں سے خوفزدہ ہو کر ایران کیساتھ قانونی تجارت شروع کرنے سے کیوں کترا رہے ہیں؟ جبکہ امریکہ کی آئل ٹریڈنگ کمپنیاں روس سے تیل خرید کر مختلف ممالک کو بیچ رہی ہیں۔ اگرچہ یہ مغرب کا دوہرا معیار ہے، مگر ہمیں بھی تو کچھ ہمت دکھانی چاہیئے۔

جو حالات ہم آج دیکھ رہے ہیں، ماضی سے بہت مختلف ہیں۔ خطے میں اقتصادی مضبوطی اور امریکی اثرورسوخ کم کرنے کی مثبت پیشرفت میں چین کا کردار بہت اہم رہا ہے، جس کے نتیجے میں اسلامی جمہوری ایران اور سعودی عرب کے سفارتی تعلقات بحال ہوچکے ہیں۔ دونوں ممالک کے تجارتی وفود اور وزراء کی باہمی ملاقاتیں بھی ہوچکی ہیں۔ سفارت خانے بھی کھل گئے ہیں۔ یقیناً مستقبل میں اس کے اثرات دونوں ممالک کے عوام اور خطے پر بہت خوشگوار ہوں گے۔ ہم اپنے پیارے دوست چین کی حکومت سے درخواست کریں گے کہ وہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے ایران پاکستان گیس پائپ لائن کے اجراء کیلئے سعودی سرمایہ کاری کا اہتمام کروا دیں، تو ہماری حکومت کی تذبذب اور ہچکچاہٹ میں تبدیلی آئے گی۔ اس حوالے سے اگر سعودی شہزادہ محمد بن سلمان اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے پائپ لائن بچھانے میں مدد کریں تو بہت اچھا ہوگا جبکہ وہ خود ریفائنری لگانے کیلئے پاکستان سے معاہدے کی ابتدا بھی کرچکے ہیں۔

قطع نظر اس کے کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں سی این جی کے گاڑیوں میں استعمال سے ہم اپنی گیس سڑکوں پر استعمال کرچکے ہیں کہ اب گھریلو استعمال کی گیس بھی ہمیں دستیاب نہیں۔ ایک عرصے سے پاکستان توانائی کے حوالے سے مشکلات کا شکار ہے اور اگر گیس پائپ لائن کا یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچ جاتا ہے تو ملک میں گیس کی قلت کی وجہ سے صنعتی شعبے میں بہت ساری فیکٹری جو بند ہو رہی ہیں یا وہ اپنی پیداوار کو بڑھانے کے قابل نہیں ہیں۔ وہ اپنی مشکلات سے باہر نکل سکتی ہیں۔ اس سے مزدور کو روزگار بھی میسر آئے گا۔ ایک خوشگوار پیشرفت یہ بھی ہے کہ روس نے بھی پاکستان کیساتھ تیل اور گیس دینے کا معاہدہ کر لیا ہے اور بہت جلد ہی روس کا بحری بیڑا کروڈ آئل لے کر پاکستان پہنچ جائے گا۔ اسی طرح روس سے گیس بھی آرہی ہیں۔ اس تحریر کا نتیجہ ہمیں یہ احساس دلا رہا ہے کہ پاکستان غیر اعلانیہ طور پر مغربی دنیا کے سامراجی ہتھکنڈوں سے آزاد ہو رہا ہے اور اب یہ مشرق کی طرف جھکاؤ زیادہ کر رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں یہ بہت اہم پیشرفت ہے۔

چین کی علاقے میں اثر پذیری نے مشرق وسطیٰ کے ممالک کو یکجا کر دیا ہے، جس سے مستقبل میں یورپی یونین کے مقابلے میں اسلامی یونین یا مشرقی یونین بنانے کی زمین ہموار ہوسکتی ہے۔ اب تک کے حالات بتا رہے ہیں کہ امریکہ کے اس خطے سے نکلنے کی ابتدا ہوچکی ہے۔ چین، روس اور ایران کے مشترکہ بلاک کی وجہ سے شام سے داعش کی دہشتگردی کا خاتمہ ہوا۔ یہاں مقامات مقدسہ محفوظ رہے۔ یمن کے مسلمانوں کی مدد کی گئی اور اب حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ ایران اور سعودی عرب کے سفارتی تعلقات کی بحالی کے مثبت اثرات سے یمن کی جنگ بندی ہوچکی ہے، شام عرب لیگ میں واپس آگیا ہے اور عرب ممالک کی تنظیم کے حالیہ اجلاس میں صدر بشارالاسد کا گرم جوشی سے استقبال کیا گیا ہے۔ سعودی عرب اور یمن کی تنظیم انصاراللہ کے درمیان مستقل جنگ بندی کیلئے مذاکرات شروع ہوچکے ہیں۔ یہ سب ایران کی سفارتی کوششوں کا نتیجہ ہے، جبکہ لبنان کی سیاسی اور عسکری قوت حزب اللہ کیساتھ بھی سعودی حکومت کے مذاکرات شروع ہوچکے ہیں۔ ان تبدیلیوں سے لگتا ہے کہ علامہ اقبال ؒ نے تقریباً ایک صدی پہلے ٹھیک ہی تو کہا تھا کہ تہران اگر اقوام مشرق کا جنیوا بن جائے، تو خطے کی تقدیر بدل سکتی ہے۔(مضمون نگار سید منیر حسین گیلانی پاکستان کے ممتاز سیاستدان، اسلامک ڈیموکریٹک فرنٹ کے چیئرمین اور سابق وفاقی وزیر تعلیم ہیں)
خبر کا کوڈ : 1060762
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش